حکومتی بیانیہ اور حقیقتِ حال

جمعہ 21 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

احباب کے بقول”بہت سخت“ لکھتا ہوں، اسی بابت کالم اور دیگر تحریروں کے ردِ عمل میں زیادہ تر دوست احباب، خاکسار کی زندگی اور خیریت سے رہنے کی دعائیں دے رہے ہوتے ہیں۔ جن کاتہہِ دل سے ممنون و مشکور ہوں۔ حقیقتِ حال یہ ہے جیسا بھی لکھتا ہوں اسے تھوڑا نہیں بلکہ بہت زیادہ سمجھیئے،وگرنہ اس سے بھی زیادہ سخت یا سچ لکھنے کی صورت میں آزادیِ اظہار کا واحد ذریعہ، نہ فیس بک اکاونٹ باقی رہے گا اور نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست کی نظر ہو جائے گا۔

۔۔
 حکومتی ایوانوں سے لے کر بڑے سرکاری دفاتر تک اپنے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے چکر میں جو تماشہ اس وقت ملکِ خداداد میں برپا ہے، اگر کسی با خبر سے پوچھا جائے تو ذہن ماؤف ہو کر رہ جائے۔ ۔اب ان سادہ لوح لوگوں کا کہا یاد آتا ہے کہ یہ ملک چل کیسے رہا ہے۔

(جاری ہے)

ترقی کرتے اور خوشحال ہوتے اس ملک کو جس طرح اور جن قوتوں کے ذریعے تباہ اور برباد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اس پر ایک سابقہ کالم میں تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔

بقولِ شاعر سرِدیوار لکھتا ہوں پسِ دیوار کے قصے لیکن اب تو ویسے بھی ملک ہر با شعور اور ذمہ دار شہری اس پوری تاریخی اور شرمناک واردات سے پوری طرح با علم ہو چکا ہے کہ جس میں اس ملک کے ساتھ اس قدر کھلواڑ کیا گیا کہ ملکی اداروں کے ساتھ ساتھ بائیس کروڑ عوام کی چولیں تک ہل کر رہ گئیں۔
حکومتِ عمرانیہ کا ایک ٹیلنٹڈ ہیرا ریاض فتیانہ ٹی وی ٹاک شو میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سوال کے جواب میں اپنی نالائقی پر پردہ ڈالنے کے لیئے چینی اور آٹے کے حالیہ بحران کے حل کا مشورہ دیتے ہوئے فرماتے کہ عوام کو گڑ کھانا چاہیئے کیونکہ چینی میں زہر ہوتا ہے اور اس کے استعمال سے موٹاپا ہوتا ہے اور شوگر کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور گندم کی روٹی کم کھانے سے وزن کم رہتا ہے، بندہ بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔

حکیم لقمان کے اس آخری چشم و چراغ کے مشوروں پر عمل در آمد پھر بھی ممکن نہیں کیونکہ چینی نوے روپے اور گڑ ایک سو تیس روپے فی کلو ہے اور آجکل گندم کا وہ خالص آٹا میسر ہی نہیں جسے کھا کر وزن بڑھتا ہو۔ ایک وزیر صاحب نے تو یہ مفید مشورہ تک دے دیا کہ دو کی جگہ ایک روٹی کھائیں کیونکہ فائن آٹا مضر صحت ہے۔
اس سے قبل بھی ٹماٹر بحران کے دوران قوم کو ٹماٹر کی جگہ دہی استعمال کرنے کے مشورے دیئے گئے تھے۔

خود حکومتی اور اسکے اتحادیوں کے اراکین آئے روز صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینٹ کے فلورز پر کھڑے ہو کر دہائیاں دے رہے ہوتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہو گیا ہے اور شدید مہنگائی کے باعث عوام کی قوتِ خرید بھی جواب دے گئی ہے لیکن مشیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی سیاسی بصیرت اور اطلاعات کے مطابق ”ستّر سالہ تاریخ میں کبھی غریب اتنا خوشحال نہیں ہوا“ گویا ڈھٹائی، بے غیرتی اور بے شرمی کا عالم یہ ہے کہ دیکھا نہ جائے۔


جب حکومتی بے شرمی اور ڈھٹائی کا ذکر ہو تو شیخ رشید کو کون بھول سکتا ہے،اٹھارہ ماہ میں ریلوے کے ستّر سے زائد حادثات ہوئے جن میں سو سے زائد مسافر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن شیخ صاحب استعفی دینے کے بجائے ابھی تک اپنی وزارت سے چمٹے ہوئے ہیں،حالانکہ سپریم کورٹ بھی ان کے رو برو قرار دے چکی ہے کہ وہ محکمہ ریلوے چلانے کے قابل نہیں۔


اس سے بڑا ظلم اس ملک کے غریب عوام کے ساتھ اور کیا ہو گا کہ جب ملک کا وزیرِا عظم خود اس حقیقت کا اقرار اور اعتراف کرے کہ عوام کے زندہ رہنے کی بنیادی ضرورت آٹے اور چینی کے بحران میں اس کی اپنی حکومت کی کوتاہی شامل ہے،لیکن پھر اپوزیشن کے احتجاج کرنے پر اس حوالے سے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو منظرِ عام پر آنے سے روک دیا جائے اور خاموشی اختیار کر لی جائے کیونکہ اس رپورٹ میں حکومت کے اپنے چہیتوں کے نام شامل تھے۔

گویا اس طرح عوام کے منہ سے نوالہ چھینے والے عمران خان کے دوستوں اور ان پر سرمایہ کاری والوں کو این آر او دے دیا گیابلکہ قوم کی اپنے اور اپنے چہیتوں کے گناہوں سے سے توجہ ہٹانے کے لیئے ملک کے حساس اداروں کو ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاون کرنے پر لگا دیا گیا ہے۔ حالانکہ ملک کے نامی گرامی اور بڑے ذخیرہ اندوز اور منافع خور تو خود سارا سارا دن وزیرِ اعظم آفس کا طواف کر رہے ہوتے ہیں۔


 قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تو کہا ہے کہ آٹا چینی کے اسمگلروں کی گرفتاری کے لیے وزیراعظم ہاؤس پر بھی چھاپا مارا جائے لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ چھاپہ مار ٹیم اس بات کی بھی تحقیقات کرے کہ پچھلے ہی برس ساڑھے چار سو ارب روپے کے قرضے معاف کروانے والے عمران خان کے کون کون سے صنعتکار دوست اور ان کے انویسٹرز ہیں، یہی نہیں بلکہ چھاپہ مار ٹیم کو اربوں روپے کی میگا کرپشن کرنے کے الزام پر کابینہ سے نکالے گئے سابق وفاقی وزیرِ صحت عامر کیانی سمیت دیگر کئی چوروں اور لٹیروں کے پیروں کے نشان بھی با آسانی وزیرِ اعظم آفس سے باسانی مل سکیں گے۔

لہذ اس صادق اور امین کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز شروع کیا جائے۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ ابھی چند ر وز قبل ہی عمران خان کے ایک اور ہیرے عثمان بزدار المعروف وسیم اکرم پلس جو پنجاب کے عوام کے بدقسمتی کے باعث آجکل ان کے وزیرِا علی ہیں، فرماتے ہیں کہ دو سو ستر ارب روپے کی اورنج ٹرین سے مہنگائی ہوجائے گی۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خان صاحب کے نایاب ہیروں کی سوچ یا معیار کا لیول کیا ہے۔


 سپریم کورٹ نے کل ہی انکشاف کیا کہ”پی آئی اے اسکینڈل میں اربوں روپے کا نقصان کیا گیا“یعنی ایک جانب اربوں روپے کی دیہاڑیاں لگائی جا رہی ہیں تو دوسری جانب غریب عوام کے لیئے بنائی گئی اورنج ٹرین وزیرِ اعلی پنجاب کو بہت بھاری دکھائی دے رہی ہے۔ دو دن ہی ایک پریس کانفرنس میں وفاقی مشیرِ صحت ڈاکٹر ظفر مزرا اپنے اس موقف پر بضد تھے کہ”چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طالب علموں کو فی لحال ”احتیاط“کے پیشِ نظر ملک واپس نہیں لایا جا سکتا“ جو پر وہاں موجود بچوں کے والدین کے سر پر بجلی بن کر گرا،لیکن ڈاکٹر صاحب انہیں کوئی معقول جواب دینے کے بجائے ڈھیٹ پن کا اعلی نمونہ بن کر پہلے تو ڈھٹائی سے کھڑے رہے،پھر وہاں سے نکلنے میں اپنی خیریت جانی۔


حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے ممالک چین میں پھنسے اپنے اپنے شہریوں کو نکالنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ کرونا وائرس سے متاثرہ چین کے شہر ووہان اور شہر سے باہر موجود پاکستانی طالب علم اپنے ویڈیو پیغامات میں حکومتِ پاکستان سے اپیل کرتے ہوئے مسلسل دھائی دے رہے ہیں کہ”ہمیں یہاں سے نکالیں کیوں کہ ہم پاکستانی شہری ہیں کوئی کرونا وائرس نہیں“ لیکن حکومتی عہدیداروں کے سینے میں جیسے دل نہیں یا یہ صاحبِ اولاد ہوتے ہوئے بھی اولاد اور والدین کے درمیان رشتے اور جزبات سے بلکل بے بہرہ ہیں۔


 حکومتِ عمرانیہ کے ایک بڑے اور اہم اتحادی چوہدری شجاعت جو کچھ ہی عرصہ پہلے تک اپنے عمران خان کے منہ سے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کہلاتے تھے آخر کار اب یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ”کہ جس طرح ملک چل رہا ہے اور معاشی صورتحال خراب ہو رہی ہے، میں نے پہلے بھی کہا تھا پھر کہہ رہا ہوں کہ دو چار مہینوں بعد کوئی وزیراعظم بننے کو تیار نہیں ہوگا،نواز شریف لندن میں ہوں یا پاکستان میں ووٹ بینک ان کا ہی ہے“ اپنے ایک اہم اتحادی کی اس سخت چارج شیٹ کے بعد بھی اگر کپتان کو درپیش حالات کی سنگینی اور زمینی حقائق کا علم یا ادراک نہیں ہوتا تو پھر انہیں سیاسی طور پر کلین بولڈ ہونے سے ان کے سلیکٹرز بھی نہیں بچا پائیں گے۔


خود ان ہی لگائے گئے ایک اور ہیرے گورنراسٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق”پاکستان کم ترین ایکسپورٹ کے ساتھ افغانستان، سوڈان، اورایتھوپیا کے ساتھ کھڑا ہے“ لیکن حکومتی ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ اگر ابھی بھی کسی حکومتی معاشی مشیر یا وزیر سے ملک کی اقتصادی صورتِ حال کی بابت پوچھا جائے تو جواب سن کر بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ یہ تو چند وزیرِا عظم اور چند حکومتی عہدیداروں کی”کارکردگی“ کی محض ایک جھلک بیان کی ہے۔ جھوٹ،منافقت اور دھوکہ دہی پر مبنی حکومتی بیانیہ کے حوالے سے زیادہ عرض کروں گا تو احباب کہیں گے، بہت سخت لکھتے ہو۔ مرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں،سرِ دیوار لکھتا ہوں پسِ دیوار کے قصے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :