ملک میں کوئی بحران نہیں ؟

منگل 28 جنوری 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

پاکستان اس وقت بدترین انتظامی ،سیاسی وسماجی ،معاشی بحران کا شکار ہے،خارجہ پالیسی محاذ پرشش وپنج ،مبہم پالیسی ومبنی برحقیقت ودوراندیش فیصلوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پیداہونے والی مشکل صورتحال الگ اپنی جگہ پر چیلنج بنی ہوئی ہے مگر حکومتی وزراء وتحریک انصاف کے عمائدین اس بات پر معصر ہیں کہ ملک میں کوئی بحران نہیں ہے ۔ہر شعبہ زندگی زوال و انحطاط کا شکار ہیں ،کاروبار زندگی جامد ہے ،امور سلطنت چلانے میں حکومت بظاہر ناکام نظر آرہی ہے اورحکمران طبقہ ذہنی انتشار کا شکار ہیں ۔


غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی، سلجھے 
اہل دانش نے بہت سوچ کر الجھائی ہے
وہ اس بات پر غور کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کہ مسائل و بحرانوں کی اصل وجہ کیاہے ؟ مسائل کی اصل جڑ کیا ہے؟ کیا یہ ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے یا نااہل وزراء ومشیروں کی نااہلی کامنطقی انجام ؟ موجودہ انتظامی بحران کی وجہ کرپٹ نظام ہے یا بیوروکریٹس کا حکومت سے تعاون نہ کرنا ؟ ان مسائل سے نمٹنے کا ممکنہ لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے ؟ کیا یہ بدترین انتظامی بحران بھی سابق حکمرانوں کا کیا دھرا ہے یا اس میں اصل قصوروار موجودہ حکمران ہیں ؟پس دیوار کون ہے؟ اس سوال کا جواب کہیں سے نہیں آرہا 
پھر یوں ہوا کہ مجھ پر ہی دیوار گرپڑی 
پر یہ نہ کھل سکا پس دیوار کون تھا
 اس سوال پر غوروخوض کے لئے وزیروں کے پاس وقت ہی نہیں بچتا کیونکہ انہیں بہت اہم کام کرنے ہوتے ہیں روزانہ میڈیا میں آکر سابق حکمرانوں شریف فیملی و آصف زرداری اورسابق وزراء پر دشنام طرازی، انہیں کرپٹ ثابت کرنا اپنااولین فرض سمجھتے ہیں مگر اپنی وزارت کا کام یا جوان کے ذمہ اصل کام ہیں وہ ان کودرخوراتنا ہی نہیں سمجھتے ۔

(جاری ہے)

جوتھوڑا بہت وقت بچتا ہے اس کو پارٹی کے اندر اپنا گروپ ولابی مضبوط کرنے کے لئے صرف کرتے ہیں رہی ریلیف کے لیے ترستی عام عوام تو وہ جائے بھاڑ میں ۔یہ غریب لوگ تو شور مچاتے ہی رہتے ہیں انہیں تو اور کوئی کام ہی نہیں ۔باقی میڈیا کا توکام ہی شور مچانا ہے اس لئے وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ عوام ٹی وی نہ دیکھیں اور اخبار نہ پڑھیں تاکہ نیاپاکستان کا بھیانک اصل چہرہ دیکھ کر انہیں دکھ وغم نہ ہو۔

مگر بھولے بادشاہ وزیراعظم کی سادگی پر مرزا غالب کایہ مصرعہ صادق آتا ہے 
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا 
دوسرا اگر وہ سکون چاہتے ہیں تو اس کا حل صرف ایک ہے کہ مرجائیں کیونکہ بقول وزیراعظم سکون صرف قبر میں ہے ۔کراچی کے ایک شہری نے اپنے بچوں کو گرم کپڑے نہ دلوا سکنے کے غم و پریشانی میں خود کشی کی اور وزیراعظم صاحب کی بار بار تلقین کہ گھبرانا نہیں کو بھی بھول گیا ۔

ہے بھی یہاں غریب کی ہستی کا کوئی مول ؟
میں پوچھتا ہوں ،مدعی عدل، کچھ تو بول
 جناب وزیراعظم ! ادارہ شماریات کی رپورٹ دیکھ کر عام آدمی تو بہت گھبرا گیا ہے کیونکہ وزیراعظم کی بھاری بھرکم تنخواہ میں آپکااور آپکی اہلیہ محترمہ کا گزارہ نہیں ہوتا تو ایک عام آدمی جس کی تنخواہ صرف پندرہ ہزار روپے ہے اس کا گزارہ کیسے ہوگا یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آپ اور آپکی معاشی ٹیم کو دینا ہوگا ۔

صرف ایک مہینہ کا بجٹ بنا دیں تاکہ عام آدمی آپ کی نصیحت کے مطابق گھبرائے نہ ۔ ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری 2019 سے دسمبر2019 کے اعدادوشمار کے مطابق ایک سال میں آٹے کا تھیلا 190 روپے مہنگا ہوا ۔جبکہ چینی 15 روپے کلو مہنگی ہوئی ،اسی طرح دال مونگ 108روپے ،دال ماش 76 روپے ،دال مسور27 روپے فی کلو مہنگی ہوئی ۔ٹماٹر 67 روپے ،پیاز 33 روپے اور آلو23 روپے کلو مہنگے ہوئے ۔

بکرے کا گوشت 84 روپے اور گائے کا گوشت 37 روپے کلومہنگا ہوا ۔اس کے علاوہ ایک سال میں ایل پی جی کا گھریلوسلنڈر 290 روپے مہنگا ہوا ۔ اس رپورٹ کے علاوہ گیس ،بجلی ،پٹرول کی قیمتوں میں بارہا اضافہ کے علاوہ اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے بعد جناب وزیر اعظم اگر آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو اجازت مراحمت فرمائیں کہ غریب عوام تھوڑا ساگھبر الیں ۔

 
حکومتی وزراء کی غیر سنجیدگی و انتظامی معاملات کی طرف عدم توجہ کا یہ عالم ہے کہ معزز چیف جسٹس گلزار احمد صاحب کہنے پر مجبور ہوئے کہ ریلوے پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ ہے ۔ہرروز حکومتیں گرانے ،بنانے والوں سے اپنی وزارت ہی نہیں چل رہی ،پورا محکمہ سیاست میں پڑا ہوا ہے ،چیف جسٹس صاحب نے آڈٹ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ریلوے کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے ۔

مزید یہ کہ دنیا بلٹ ٹرین چلارہی اور ہم اٹھارویں صدی کی ریل ،اوروہ بھی صحیح نہیں چل رہی ۔ یہ صرف ایک وزیرریلوے کا حال نہیں تمام وزارتوں کا یہی حال ہے کہ کوئی بھی وزیر اپناکام نہیں کررہا ہے ۔وزراء کو شاعر نے بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے
اے عدم احتیاط لازم ہے 
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں 
 کسی نے درست کہاتھا کہ ہم شغلیہ دور حکومت میں جی رہے ہیں کیونکہ وزراء صرف شغل میلہ کے ماہر ہیں وہ کوئی نہ کوئی نیا شغل ،مسخرہ پن ،ڈرامہ لگاتے رہتے ہیں وہ فیصل واڈا کا لائیو شو میں بوٹ لیکر جانا ہو یا پستول لیکر چینی سفارتخانہ پہنچ جانا ، فواد چوہدری کے آئے روز الٹے سیدھے بیانات یا فردوس عاشق اعوان کی ہر وقت بے وقت کی راگنی ،فیاض الحسن چوہان کی مخالفین پر الزام تراشی ہو یا اخلاقیات سے گھری ہوئی بیان بازی۔

حیدر علی آتش کے بقول 
زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا 
ان کے انداز گفتگو سے بلکل نہیں لگتا ہے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر یا حکومتی عہدیدار ہیں 
مرزا غالب بھی شکوہ کناں ہیں 
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے 
مگر جناب وزیراعظم کو فرصت ہی نہیں کہ وہ معاملات کی حساسیت کو سمجھیں ۔اخلاقیات کے بھاشن دینے والی حکومت کی رہی سہی ساکھ ایک حریم شاہ نے ختم کردی ہے قوم کو ان کے اصل چہرے دیکھنے کا بھی موقع مل گیا ۔

وزیراعظم نے حالیہ دورہ لاہور میں گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ملک میں مہنگائی کی وجہ مافیاز ہیں تو جناب آپ کو لوگوں نے ووٹ یہ بتانے کے لئے نہیں دئیے تھے کہ ملک کے مسائل کی وجہ کرپٹ نظام وکرپٹ مافیاز ہیں 
پھاڑ کر پھینک دیا توہاتھ کا الجھاؤگیا 
ایک قصہ تھا گریبان کے سلجھانے کا 
یہ تو سب کو پتہ ہے اس میں نئی بات کیا ہے ،آپ کو ووٹ اس لئے دئیے تھے کہ آپ ان مافیاز کو ختم کریں اور اصلاحات کرکے اس نظام کی تطہیر کریں اور اس اشرافیہ کے محافظ نظام کو عوام دوست بنائیں ۔

ایک ایسا نظام جو 2 فیصد اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کی بجائے 98 فیصد غریب عوام کے لئے ہو۔ ایسا جمہوری نظام جس میں عوام کی شمولیت ہو اور اس کے حکمران عوام کوجوابدہ ہو۔ ایسا نظام حکومت جس میں عدل وانصاف کا دوردورہ ہو ۔مگر عوام کو آپ نے مایوس کیا ہے ۔اب ساراملبہ سابق حکومتوں پر ڈالنے سے گزارہ نہیں ہوگا اب آپکو ڈلیور کرنا ہوگا یا گھر جانا ہوگا ۔

ملک میں جتنے بھی بحران آئے ہیں ان کے تانے بانے آپ کے وزیروں و جماعت کے سرکردہ رہنماؤں ودوستوں کے ساتھ ملتے ہیں وہ آٹے کا بحران ہویاچینی کی قیمتوں میں اضافہ ، دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ ہو یا بڑے بزنس گروپس کو ریلیف دینے کے معاملات ۔ فیض احمد فیض نے اسی کی عکاسی کی تھی 
کس کس کی مہر ہے سر محضرلگی ہوئی 
اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ یہ سب اپنوں کونوازنے کے لئے ہے وہ اقرباپروری ومیرٹ کی خلاف ورزی جس کی مخالفت میں آپ نے ووٹ لئے تھے وہ سب آپکی حکومت میں بھی ہورہا ہے جو سابق حکومتوں میں ہوتا تھا تو جناب عوام اب پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ” نئے “ پاکستان میں ”نیا“ کیا ہے ؟ کون سی تبدیلی آئی ہے ؟ یہ سب کچھ وہی ہورہا ہے جو آپ کے بقول سابق کرپٹ و نالائق ،نااہل حکومتوں کے دور میں ہوتا تھا مگر ان کرپٹ لوگوں کے دور میں امور سلطنت و کاروبار زندگی چل رہا تھا مگر اب تو وہ بھی نہیں چل رہا ۔

اقتدار کی رسہ کشی کی جنگ میں پنجاب اور کے پی میں آپکی صوبائی حکومتیں ڈلیور کرنے میں مکمل ناکام ہوئی ہیں ۔پنجاب میں اس وقت چار ،پانچ گروپ تحریک انصاف میں ہیں جو طاقت کے حصول کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں ۔ علیم خان ،چوہدری سرور ، پی ٹی آئی کے نظریاتی لیڈرز کا گروپ ، اتحادی چوہدری برادارن کا مضبوط پریشر گروپ جو کوئی موقع جانے نہیں دیتے ۔

اب کچھ ممبران صوبائی اسمبلی نے تو اعلانیہ ایک گروپ بنا لیا ہے یہ سب آپ کی انتظامی معاملات و اپنی جماعت پر مضبوط گرفت نہ ہونے کا واضح ثبوت ہے ۔ یہی حال خیبر پختونخوا کا ہے وہاں بھی پارٹی اختلافات کی وجہ سے مضبوط وزراء عاطف خان ،شہرام ترکئی وشکیل کو صوبائی کابینہ سے نکالنا پڑا ہے ۔استاد قمر جلالوی کا شعر ایسی صورتحال پر منطبق ہوتا ہے 
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لے لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تب بوجھ اتار اکرتے ہیں 
 مگر واقفان حال کے بقول کے پی میں بحران اب بھی ٹلا نہیں ہے ۔

عاطف خان اور ان کے ساتھ ایک مضبوط دھڑا ہے جو اب وزیراعلی محمود خان و پرویز خٹک گروپ کو بہت سخت ٹائم دینے کے لئے منصوبہ بندی کررہا ہے جس کے اثرات مستقبل میں نظر آئیں گے ۔پنجاب حکومت اب تک کوئی بھی بحران حل کرنے اور موثر کردار اداکرنے میں ناکام نظر آئی ہے وہ ڈینگی کی وبا ہو، اس میں انتظامی کمزوری بہت نظرآئی کیونکہ اس کے پیشگی انتظامات ہی نہیں کئے گے تھے ۔

یہی سموگ کے وقت ہوا اس وقت بھی صوبائی حکومت کے خاطر خواہ انتظامات نظر نہیں آئے ۔ صوبے میں انتظامی معاملات پر وزیر اعلی عثمان بزدار بقول عمران خان وسیم اکرم پلس کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے غیر فعال ہو نے کی وجہ سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جس کا جودل کرتا ہے وہ اپنی مرضی سے ریٹ بڑھا لیتا ہے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ۔

جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی عملی عکس اس وقت انتظامی معاملات میں نظر آتی ہے ۔چند ووٹوں پر قائم حکومت اتحادیوں کی مہربانی سے قائم ہے وہ بھی
 ناراض ہی رہتے ہیں آجکل بھی چوہدری برادران ،پیرپگاڑا ،اختر مینگل ،ایم کیوایم جیسے اتحادی حکومت کے رویے وتعاون نہ کرنے ،وعدے ایفا نہ ہونے کی وجہ سے شکوہ کناں ہیں ۔ 
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں 
یہ کارگہ ساری دکان شیشہ گر ہے
بقول کامل علی آغا ملک میں کرپشن کاریٹ بہت بڑھ گیا ہے ۔

اتحادی جماعت کے سنئیرلیڈر پر یقین نہیں تو اپنی جماعت کے ایم این اے سرار ریاض کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر سن لیں کہ نوکری لینے کے لئے رشوت دینی پڑتی ہے جو رشوت دے اس کو برخلاف میرٹ نوکری مل جاتی ہے تو جناب وزیراعظم آپ تو میرٹ کے نام پرووٹ لیکرآئے تھے تو یہ سب کیا ہے ۔ کیونکہ یہ بحران سب آپ اور آپکے مصاحبین کا کیا دھڑا ہے اس کا علاج بھی آپ کو ہی بتانا ہوگا 
تمہیں نے درد دیاہے تمہی دوا دینا 
کیا وہ سب سیاسی نعرے وسبز باغ تھے یا اس بات پر بھی آپ یوٹرن لے لیں گے۔

یا آپ اب بھی معصر ہیں کہ ملک میں کوئی بحران نہیں ۔
اس وقت بھی آپ اپنی ٹیم کی سلیکشن و ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لے لیں ورنہ خان صاحب !
دیکھوسوچ سمجھ لوپہلے پھر نہ بیٹھے اشک بہانا
ہم آزاد منش انسان ہیں ہم کیا جانیں پیار نبھانا 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :