پارلیمان کی بے وقتی ۔۔جمہوریت کے تضادات۔ قسط نمبر 6

جمعہ 20 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

جمہوری نظام میں سب سے طاقتور ادارہ پارلیمنٹ ہوتی ہے اورپارلیمنٹ کے کمزور ہونے کا مطلب جمہوری نظام کا کمزور ہونا ہے ۔ مگر پاکستان میں پارلیمنٹ کو صرف ربڑ سٹمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔سیاسی قائدین اور اراکان پارلیمنٹ کے غیر سنجیدہ رویہ پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ممبران قومی اسمبلی اپنے اصل فرائض قانون سازی کو فراموش کرکے گلیاں نالیاں اور سڑکیں بنوانے پر زور دیتے ہیں ۔

زیادہ سے زیادہ ترقیاتی فنڈز حاصل کرنا ،اپنے حلقے میں اپنی مرضی کے افسران کی تقریریاں ان کا اہم مقصد بن چکاہے ۔عوام ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کے لئے ان کو ووٹ دیکر منتخب کرتی ہے تاکہ وہ عوام کی نمائندگی کرسکیں مگر سوال یہ ہے کہ منتخب نمائندے عوام کی طرف سے دئیے گے مینڈیٹ کا احترا م بھی کرتے ہیں یا نہیں ؟قانون سازی ودیگر مسائل کی بحث کے دوران وہ کتنی تیاری کرکے آتے ہیں ؟ممبران پارلیمنٹ اتنے غیر سنجیدہ کیوں ہیں ؟ ایوان کے اجلاس اکثرو بیشتر شور وغوغہ ،سیاسی الزامات،جوابات ،ذاتی وسیاسی لڑائی جھگڑوں ،کورم پورا نہ ہونے کی نظر ہوجاتا ہے ایسے میں سوال اٹھتاہے کہ کیا یہ ہے بائیس کروڑ عوام کی سیاسی قیادت کی سیاسی بصیرت ؟ پارلیمنٹ کے اجلاس وارکان کی تنخواہوں ودیگر مراعات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگرارکان کی جو ذمہ داری ہے وہ پوری کرتے ہیں ؟ کیا ممبران اسمبلی آئین و قانون کی روح کو سمجھتے ہیں ؟ ملک وقوم کو درپیش چیلنجز کو سمجھنے وحل کرنے کی حکمت ودانش رکھنے والے کتنے لوگ اسمبلی تک پہنچ پاتے ہیں کتنے لوگ خاندانی و سیاسی مفادات کی وجہ سے پیسہ کے بل بوتے پر اسمبلی تک پہنچتے ہیں ؟ کیا اراکین پارلیمنٹ اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں یا اسمبلی صرف ربڑ سٹمپ کے طور پر استعمال ہوتی ہے ؟ اراکین پارلیمنٹ کو ان تمام معاملات کا علم ہوتا ہے جو انہیں سونپے جاتے ہیں ؟ اگر نہیں ہوتا تو وہ اس کی تیاری کی کوشش کرتے ہیں ؟ عوامی مسائل پر کتنے سوال اٹھائے جاتے ہیں ؟ کتنے اجلاسوں میں وزرا و سرکردہ سیاسی رہنما اسمبلی میں آتے ہیں ؟ اسپیکر قومی اسمبلی کو بار بار تنبیہ کرنی پڑتی ہے کہ وزرا اسمبلی اجلاس میں آئیں مگر وہ نہیں آتے ،اسی طرح کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس کو بار بار کچھ دیر کے لئے روکنا پڑتا ہے اس سے اراکین کی غیر سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

عمران خان جب وزیراعظم بنے تھے تو قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے وعدہ کیا تھاکہ وہ وقفہ سوالات میں خود جوابات دیں گے ۔مگر اپنے سابق ہم منصب وزرائے اعظم کی طرح وہ بھی پارلیمنٹ کو کبھی کبھار ہی رونق بخشتے ہیں ۔ پہلاپارلیمانی سال مکمل ہونے پر جاری رپورٹ کے مطابق 119 روز منعقد ہونے والے اجلاسوں میں وزیراعظم صرف 15 روز ایوان میں تشریف لائے اور ان کی حاضری کا تناسب 14 فیصد بنتا ہے ۔

اگر ہم 15 ویں پارلیمنٹ کے پہلے سال میں وزیراعظم عمران خان کا موازانہ 14 ویں پارلیمنٹ کے پہلے سال میں منتخب وزیراعظم نوازشریف سے کریں تو عمران خان کا حاضری کا تناسب 16.48 فیصد ،جبکہ نوازشریف کا 7.7 فیصد بنتا ہے جو بہت ہی مایوس کن ہے ۔جب وزیراعظم قومی اسمبلی کو اہمیت نہیں دیں گے جس نے انہیں منتخب کیا ہے تو باقی وزراء بھی ایوان کو غیر سنجیدہ لیں گے ۔

ایوان کی گاڑی کے دو پہیہ ہوتے ہیں حکومت اور اپوزیشن ۔موجودہ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف خود لندن میں مقیم ہیں آجکل تو وہ اسمبلی میں تشریف ہی نہیں لاتے تو اپوزیشن ایسے میں متحرک کردار کیسے ادا کرسکتی ہے جب اپوزیشن لیڈر اسمبلی ہی نہیں آئیں گے اور نہ ہی وزیراعظم آتے ہیں ۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ کسی بھی شعبہ میں ملازم بھرتی کرنے کے لئے اسی شعبہ کی تعلیم اور تجربہ لازمی ہوتا ہے ،لیکن شومئی قسمت کہ قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے اور قانون سازی کرنے والوں کے لئے کوئی اہلیت وقابلیت ،تعلیمی معیاراورتجربہ کی شرط نہیں ہے ۔

کیونکہ جن سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ یہ شرط نافذکریں وہی سب سے بڑھ کر ان کی خلاف ورزی کرتی ہیں ۔ کیونکہ پاکستان میں صحیح جمہوری سیاسی جماعتیں نہیں ہیں بلکہ جماعتیں فیملی لیمٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں جس میں پارٹی سربراہ کی من مرضی سے سب فیصلے ہوتے ہیں ۔وہ جس کو چاہتا ہے ٹکٹ دیتا ہے جس کو چاہتا ہے پارٹی میں کارنر کردیتا ہے ۔

عملی طور پر جاگیردار ،سرمایہ دار و چند خاندانوں کے لوگ ہی جماعتیں بدل بدل کر اسمبلی میں آتے ہیں کیونکہ اب معیار اہلیت کی بجائے کچھ اور ہیں ۔ارکان پارلیمنٹ کیلئے مراعات، اختیارات، فنڈ،‘ عہدوں اور سٹیٹس میں اتنی کشش ہے کہ جسے اس جنت میں داخل ہونے کی موہوم سی امید بھی ہو تو وہ سارے گُر آزماتا اور وسائل جھونک دیتا ہے۔ مشیر وزیر، کمیٹیوں کے سربراہ، جیلوں سے پروڈکشن آرڈر کے یہی لوگ حقدار قرار پاتے ہیں۔

پارلیمنٹ کا سب سے اہم کام قانون سازی کرناہوتا ہے مگر اپوزیشن و حکومتی طرز عمل ،ہنگامہ آرائی ،شور شرابا اور نعرے بازی کی وجہ سے قانون سازی پر توجہ بہت کم دی جاتی ہے یا تاخیر کا شکار ہوتا ہے ۔ موجودہ اسمبلی وجو د میں آنے کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چئیر مین شپ پر حکومت واپوزیشن میں ڈیدلاک طویل ہونے کی وجہ سے قانون سازی پر توجہ مرکوز نہیں ہوسکی ۔

اگر پہلے سال 2019 سے 2020 تک کی کارکردگی کو دیکھیں تو گزشتہ برس پارلیمنٹ نے ایک آئینی ترمیم سمیت 23بِلز منظور کیے، جن میں مالی سال 2019-20ء کا بجٹ یعنی فنانس بِل اور دو منی بجٹس یعنی ضمنی فنانس بِلز بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، رُکنِ قومی اسمبلی، محسن داوڑ کی جانب سے پیش کیا گیا 26ویں آئینی ترمیم کا قانون بھی منظور کیا گیا۔ اس آئینی ترمیم کی رُو سے قبائلی اضلاع کی قومی اسمبلی کی نشستیں 6سے بڑھا کر 12، جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 16سے 24کر دی گئی۔

2019ء کے دوران منظور ہونے والے 23قوانین میں سے 22حکومت، جب کہ ایک نجی رُکن کی طرف سے پیش کیا گیا۔ منظور شُدہ قوانین میں پاکستان میڈیکل کمیشن بِل، ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا بورڈ کا ترمیمی بِل، قبائلی علاقوں میں نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بِل، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں شکایات کی سماعت کے لیے ایک کی بجائے دو بنچز کے قیام کا بِل، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کا بِل،ویسٹ پاکستان پروہیبیشن آف اسموکنگ اِن سینما اور ویسٹ پاکستان جووینائل اسموکنگ کے بِلز، میڈیکل ٹربیونل بِل، کوڈ آف سِول پروسیجر ترمیمی بِل، لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی بِل، بے نامی ٹرانزیکشن بِل، نیا پاکستان ہاوٴسنگ اتھارٹی بِل اور نیب ترمیمی بِل قابلِ ذکر ہیں۔

جمہوری روایات کے برعکس بہت سے آرڈیننس جاری کئے گے جس پر اپوزیشن اور بہت سے حلقوں کی وجہ سے شدید تنقید بھی کی گئی ۔ مسلم لیگ ن نے تو ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری کا نام بھی دے دیا تھا ۔گوکہ آئین کی دفعہ 89صدر کو صوابد یدی اختیار دیتا ہے کہ آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں۔موجودہ حکومت اسی دفعہ 89 کو استعمال کر کے آرڈیننس پر آرڈیننس جاری کیئے۔

حالاں کہ اس اختیار کی دو بنیادی شرائط ہیں۔اولاً قومی اسمبلی اجلاس میں نہ ہو اور ثانیاً صدر مطمئن ہوں کہ حالات ایسے ہیں کہ فرمان کا اجرانا گزیر ہے،لیکن حکومت نے جتنے بھی آرڈیننس جاری کیئے اس میں یہ دونوں شرائط لاگو نہیں ہوتیں۔کیوں کہ ہم قانون کے احترام سے ناآشنا قوم ہیں،ہر آئین اور قانون میں سے اپنے مفادات اور خواہشات کے مطابق راستہ بنانے کے فن میں مہارت رکھنے والے لوگ ہیں۔

اسی لئے آرڈیننس کے ذریعے مفادات کے مطابق قانون سازی کرنے میں عار نہیں سمجھتے۔ آئین صدر کو اتنی بڑی صوابدیدی اختیار اس لئے دیتا ہے کہ ملک میں ایسی ہنگامی صورت حال ہو جائے اور معاملہ مطمع نظر اور واضح طور پر عوامی مفاد میں ہو،اسمبلی کا اجلاس بھی نہ ہو رہا ہوتو آرڈیننس کے ذریعے محدود مدّت کے لئے قانون بنایا جا سکتا ہے۔آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کا سلسلہ موجودہ حکومت نے شروع نہیں کیا بلکہ ماضی میں بھی ایسے صدارتی فرامین جاری کیئے گئے۔

ملک میں قانون سازی کے عمل کا فقدان رہا ہے،اس سلسلے میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں،لیکن حقیقتاََ دونوں کی جانب سے بڑی کوتاہیاں سامنے آئی ہیں،بلکہ حکومت کی جانب سے اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لئے نا قابل یقین اقدامات سامنے آئے ہیں۔پارلیمنٹ کا وقار بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قانون سازی کے عمل کو اہمیت دی جائے اور حکومت واپوزیشن مل کر ایوان کے وقار کو برقرار رکھیں ۔

آرمی چیف کی توسیعی بل پر تو راتوں رات سب جماعتیں متفق بھی ہوگئیں ملک کے وسیع تر مفاد میں بل پاس بھی ہوگیا ۔ کاش باقی معاملات میں بھی اسی طرح کی پھرتیاں اور یکجہتی دیکھائیں تو تب جا کر ایوان کا تقدس بحال ہوگا اور ربڑ سٹمپ کا تاثر ختم ہوگا ۔ملک میں ایوان بالا کا کردار تمام وفاقی اکائیوں کو برابری کی بنا پر نمائندگی دینا ہے مگر ایوان بالا کی تشکیل ،الیکشن پروسیجر،کارکردگی پر بہت سے سوالات غور طلب ہیں جن کے جوابات کہیں سے نہیں ملتے ۔

پاکستان میں 1947ء سے لیکر 1956ء تک جو 1935ء کا برطانوی آئین بطور عبوری آئین نافذ رہا اس میں سینٹ کا وجود ہی نہیں تھا۔ بعد ازاں ون یونٹ کے قیام کے بعد 1956ء میں جو وفاقی آئین آیا اس میں ایک طرف مغربی پاکستان میں صوبے موجود ہی نہیں تھے تو دوسری جانب سینٹ کا ایوان تشکیل نہیں دیا گیایعنی وفاق کا مطلب آبادی کی بنیاد پر منتخب ایک ایوان تھا۔ 1962ء میں ایوب خان کے لائے گئے آئین کی بھی وہی صورتحال تھی جس میں ملک کے اندر پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام نافذ کیا گیا لیکن سینٹ کا ایوان غائب تھا۔

1973ء کے آئین میں ملک میں پہلی مرتبہ سینٹ کا ایوان تشکیل ہوا لیکن آج تک وہ وفاقی پارلیمنٹ کا برائے نام بالائی ایوان ہے۔ درحقیقت آج بھی ملک میں قومی اسمبلی کو ہی حتمی اختیارات حاصل ہیں۔ سینٹ سے نہ تو حکومت کی تشکیل ہوتی ہے نہ وزیراعظم کا انتخاب ہوتا ہے نہ وہاں پر بجٹ پیش ہوتا ہے اور نہ ہی اس ایوان کو مالیاتی امور میں حتمی فیصلے کا اختیار حاصل ہے تو پھر ایسا بے اختیار ایوان، ایوانِ بالا کیوں کر ہوا؟ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 سینیٹرز کے اِس ایوان میں چاروں صوبوں سے کُل 23 ارکان ہیں۔

جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کُل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔

قانون کے مطابق سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری اور ترجیحی ووٹ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتے ہیں، جس کی گنتی کا طریقہءِ کار مشکل اور بہت پچیدہ ہے ۔ سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار کو بدلنے کا مطالبہ بھی بار بار سامنے آتاہے کیونکہ اس میں پیسے کا عمل دخل بہت زیادہ ہوگیا اور ووٹوں کی خریدوفروخت وزیادہ پیسے خرچ کرنے کی اہلیت ہی واحد معیار بن چکا ہے ۔

جب ایک سینیٹرز پیسہ لگا کر منتخب ہوگا تو وہ قانون سازی میں کتناسنجیدہ ہوگا اس کا اندازہ خود ہی ہم کرسکتے ہیں ؟ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی کل نشستیں تین سوبیالیس ہیں جن میں سے دوسو بہترجنرل نشستیں ہیں جن کا براہ راست الیکشن ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں ساٹھ ہیں جبکہ غیرمسلموں کیلئے دس نشستیں مختص کی گئی ہیں۔اگر ہم 1977 سے 2017 کے چار عشروں کا جائزہ لیں تو ہمیں پارلیمنٹ صرف ربڑ سٹمپ کا کردار ادا کرتی نظر آئی ہے ۔

اپنے آمرانہ دور اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے جنرل ضیاء الحق نے بھی محمدخان جونیجو کی سربراہی میں پارلیمنٹ بحال کی تھی مگر اس پارلیمنٹ کی حیثیت محض رسمی تھی طاقت کا اصل سر چشمہ صدر کی ذات و ایوان صدر ہی تھا .جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور پہلے میر ظفراللہ خان جمالی اور پھر ان کو ہٹا کر مختصر دورانیہ کے لئے چوہدری شجاعت حسین اور پھر شوکت عزیز کو پارلیمنٹ سے ہی وزیراعظم بنایامگر سب جانتے ہیں کہ یہ وزیراعظم صرف رسمی وزیراعظم تھے اصل فیصلے پرویز مشرف کرتے تھے اور وہی ہوتا تھا جو صدر مشرف چاہتے تھے ۔

قانون سازی سے لیکر ملکی سلامتی کے فیصلے فرد واحد کرتا تھا۔ 90 کی دہائی میں بینظیر بھٹو کو دو مرتبہ اور نواز شریف کو دو بار وزارت عظمی ملی مگر یہ دونوں بھی پارلیمنٹ کو طاقتور وسپریم ادارہ بنانے میں ناکام رہے ۔2008 کے الیکشن میں پی پی پی کے دور حکومت میں پہلے یوسف رضا گیلانی اورگیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف کو پارلیمان سے ہی وزارت عظمی سونپی گئی ۔

2013 میں میاں نوازشریف تیسری باراسی اسمبلی سے منتخب ہوئے اور ان کی پانامہ کیس میں نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی بھی اسمبلی سے اکثریتی ووٹ کے تکلف سے ہی وزیراعظم ہاؤس میں پہنچے۔ 2018 الیکشن میں قومی اسمبلی نے عمران خان کو وزیراعظم منتخب کیا مگر پارلیمنٹ کا جو وقار ہے وہ آج تک بحال نہیں ہوسکا ۔اس کی وجوہات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے جس کے لئے ہمارے سیاستدانوں و نام نہاد تجزیہ کاروں کے پاس وقت نہیں ہے ۔

لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ان سب میں سے کوئی ایک بھی جمہوری طریقے سے ارکان اسمبلی کی دیانت دارانہ ذاتی رائے کی اکثریت سے منتخب ہوسکا ہے؟ یا سب کسی مقتدر ہستی اور حلقے کی آشیرباد سے اور اشارہ ابرُو پر لیڈر آف دی ہاؤس بنے ؟کیا یہ سب انتظام ہمیشہ ہی جوڑ توڑ، جُگاڑ، لین دین موقعہ پرست مصلحت اور مصالحت سے مرتب کیا گیا؟کیا وزیراعظم طاقتور اداروں کے اشاروں پر بنتے اور کرسی سے اترتے ہیں یا پارلیمنٹ کے اراکین کی مرضی ومنشا ہی اصل طاقت کا سرچشمہ ہے تو یاران نکتہ دان کے بقول سب کسی اور کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے پارلیمنٹ سے تو محض رسمی ووٹ لیا جاتا ہے ۔

ملکی تقدیر کے سب اہم فیصلے تو کہیں اور ہوتے ہیں۔پارلیمنٹ میں جواب دہی کا عنصر بہت اہم ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں چیک اینڈ بیلنس کا نظام صرف کاغذوں وتقریروں کی حد تک ہے ۔دنیا کی سب سے قدیم ترین پارلیمنٹ برطانیہ کی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی روایات کے مطابق کابینہ مشترکہ ذمے داریوں کے اصول پر کام کرتی ہے اورکابینہ کے اجلاسوں میں ہونے والے تمام فیصلوں کے تمام وزراء عملدرآمد کے پابند ہیں، اگر کسی وزیر کو کوئی اختلاف ہوتا ہے تو وہ مستعفی ہوجاتا ہے۔

پارلیمانی نظام میں کسی شخص کی انفرادی حیثیت نہیں ہے اور وزیراعظم سمیت پوری کابینہ پارلیمنٹ کوجوابدہ ہوتی ہے مگرہمارے ملک میں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہواہے ۔اجتماعی جوابدہی کا نہ تو کوئی نظام ہے اور نہ ہی ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنے کی کوئی روایات قائم ہوسکی ہیں ۔ہمارے وزرا اور بہت سے لوگ پارلیمنٹ کا مذاق اڑاتے اور چیلنج کرتے ہیں اس سے پارلیمنٹ کی حاکمیت پر سوالات اٹھ گئے ہیں مگر ان سے کوئی بازپرس نہیں ہوتی ۔

اراکین اسمبلی جو سوالات کرتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کی بلکل تیاری نہیں ہوتی بعض سوالات تو مضحکہ خیز بھی ہوتے ہیں اور پھر مختلف وزارتوں کی جوابات دینے میں غیر سنجیدگی پر سپیکر بار بار سرزنش کرتے ہیں مگر وزارت کے ذمہ دار بیوروکریٹس بھی اس کو سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ وزیر صاحب خود بھی پارلیمنٹ کو درخوراعتنا نہیں سمجھتے اور نہ ہی بیشتر اوقات جواب دینے کے لئے تشریف لاتے ہیں ۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ چند خاندانوں کے لوگ پارٹیاں بدل بدل کر ایوان میں آتے ہیں تو جب پورا نظام مفادات ومصلحتوں پر چل رہاہوتو ایسے میں یہ ادارہ اپنا آئینی کردار کیسے ادا کرسکتا ہے ؟پارلیمان کی عزت وتوقیر ،بالادستی اس ادارے کے اراکین کی اخلاقی برتری سے وابستہ ہے اس لئے اراکین پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔

جمہوریت تو اس قول کی تشریح ہے کہ“زبان خلق کو نقارہء خدا سمجھو”عوام کی اجتماعی دانش سے ان کے جملہ مسائل کے حل نکل آتے ہیں۔ اس طرح کہ پارلیمنٹ لوگوں کی نمائندگی کا آزاد، خود مختار، بااختیار اور ذمہ دار ادارہ ہو، جو اپنی مجموعی کارکردگی سے ریاست کے سب اداروں میں نظم و ضبط، ڈسپلن، قوائد و ضوابط کی پابندی اور آئین و قانون کے مطابق مملکت کے امور کو چلانا یقینی بنائے، ریاست کے وسائل کی حفاظت، ملکی سلامتی، عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ، امن و امان، اور ملک کی معیشت کی محافظ ہو۔

حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کو جواب دہ ہو۔سب سے اہم یہ ہے کہ صاف شفاف ،غیر جانبدار ،دھن دھونس دھاندلی سے پاک الیکشن سے عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کاحق ملے تب جاکر حقیقی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی ۔ جمہوری روایات مضبوط ہونگی ،جمہوری ادارے حقیقی معنوں میں طاقتور و بااختیار ہونگے تو ملک میں حقیقی جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :