پی ٹی آئی حکومت کے 100 دن

جمعہ 21 دسمبر 2018

Chaudhry Abdul Qayyum

چودھری عبدالقیوم

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے پہلے 100 دنوں میں اپنی سمت کا تعین کر لیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں کی کارگردگی بیان کرتے ہوئے کیا۔ اس سلسلے میں کنونشن سنٹر اسلام آباد میں باقاعدہ ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جو ملک میں شائد اس نوعیت کی ایک نئی روایت ہے دنیا میں میں کہیں بھی کسی حکومت کے لیے 100 دنوں میں کوئی قابل ذکر کارگردگی یا نتائج دینا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ابتدائی حکومت کے پہلے 100 دنوں کے کام اور طریقہ کا سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ حکومت اپنے اقتدار کی مدت میں کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اسی طرح پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت جو پہلی مرتبہ مرکز میں برسراقتدار آئی ہے اس کا سب سے بڑا نعرہ اور دعویٰ ملک سے کرپشن ختم کرکے تبدیلی لانا تھا اس کے لیے حکومتی حلقوں کیطرف سے دعوے کیے جارہے ہیں کہ وہ اپنے پہلے100 دنوں میں مقاصد پورے کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے حکومت کے پہلے100 دنوں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اگراپوزیشن کے تمام اعتراضات کو فراموش کر کے حکومت کا یہ موقف مان بھی لیا جائے کہ حکومت نے اپنے وعدوں اور نعروں پر عمل کرنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت پہلے100 دنوں میں بہت کچھ کرنے کے باوجودابھی تک غریب عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں کچھ نہیں کرسکی ۔

100 دنوں میں مہنگائی ختم کرنے کے دعوؤں کے برعکس حکومت کی طرف سے بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں غریب آدمی کی ضروریات زندگی کی اشیاء کے نرخ بھی بڑھے جس سے مہنگائی کم ہونے کی بجائے مہنگائی میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا جس سے غریب لوگ بہت زیادہ متاثرہوئے ہیں۔ حکومت کے پہلے 100 دنوں کی کارکردگی بیان کرنے کے اگلے دن ہی ڈالر کے ریٹ میں تاریخی اضافہ ہوگیا جس سے پاکستان کے ذمے بیرونی قرضے 760 ارب روپے بڑھ گئے ۔

وزیراعظم عمران خان نے تبدیلی کے لیے حکمرانوں کا پروٹوکول ختم کرنے اور اداروں میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کا بھی اعلان کیا تھالیکن عملی طور پر ایسا نظر نہیں آرہا۔ وزراء اور مشیروں کی بات چھوڑیں ڈی سی او اور ڈی پی او ابھی تک نہ صرف کئی کئی کنال اور ایکڑز پر بنے بڑے بڑے گھروں میں رہائش پذیر ہیں بلکہ ان کی آمدورفت پر پہلے کیطرح پروٹوکول دیا جاتا ہے۔

اکثر وزراء کا پروٹوکول اور رہن سہن بھی پچھلی حکمرانوں جیسا ہی ہے ۔حکومتی وزراء اور پارٹی لیڈرز اداروں خاص طور پر محکمہ پولیس میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔آئی جی اسلام آباد،پاکپتن اور سیالکوٹ کے ڈی پی اوز کے تبادلے اس کی واضح مثالیں ہیں جنھیں حکومتی عناصر کے اشاروں پر چشم زدن میں تبدیل کردیا گیا ۔وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی کارگردگی بیان کرتے ہوئے گورنر کے پی کے شاہ فرمان کے بارے بتایا کہ انھوں نے تین مہینوں کے اخراجات میں تیرو کروڑ روپے کی بچت کی ہے یہ ایک قابل تعریف بات ہے جسے سراہنا چاہیے لیکن کیا ہی اچھاہوتا کہ وزیراعظم کو اس موقع پروزیراعظم ہاؤس پریذیڈنٹ ہاؤس، اور پنجاب کے گورنرز،وزرائے اعلیٰ ہاؤسز کیساتھ دیگر وزراء کیطرف سے سرکاری اخراجات اور بچت کابھی بتا دیتے ۔

حکومت کی کارکردگی میں کرتار پور راہداری بنانے کا کریڈٹ بھی ہے یہ واقعی ایک اچھا اقدام ہے جس سے حکومت کو بھارت پر سفارتی برتری حاصل ہونے کیساتھ سکھ برادری کی بھرپور حمایت بھی ملی ہے ۔اگر اس طرح کا کوئی اقدام دونوں اطراف میں بسنے والے کشمیری مسلمانوں کے میل ملاپ کے لیے بھی کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ حکومت نے کرپشن کیخلاف کارروائیاں اور سرکاری املاک پر قبضہ مافیا کیخلاف جراتمندانہ طریقے کیساتھ کام جاری رکھا جس کے نتیجے میں اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمینیں اور املاک واگزار کرائیں ،اس طرح کی کارروائیاں لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں ہونی چاہیے تھیں ۔

اس مہم کا دائرہ کار دوسرے شہروں تک بڑھانا چاہیے تاہم حکومت کے کرپشن کیخلاف کارروائیوں کے ٹھوس نتائج ابھی تک سامنے نہیں۔ اس مہم میں ملک کی دولت لوٹنے والوں سے آدھی رقم بھی واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے تو یہ نہ صرف پی ٹی آئی حکومت کا بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہوگا بلکہ اس سے کرپشن فری پاکستان بنانے میں مدد ملے گی بلکہ اس سے قومی معیشت کو سنبھالاملے گا جس کے نتیجے میں روپے کی قدر مستحکم ہونے کیساتھ مہنگائی بھی کم ہو سکتی ہے۔

دوسری طرف وزراء کی کارگردگی کا ذکر کیا جائے تو ریلوے کی وزیر شیخ رشید، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی،وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر اطلاعات فواد چودھری،وزیر مملکت شہریار آفریدی کارگردگی دکھانے میں بہت زیادہ سرگرم نظر آئے۔حکومتی کارگردگی کے حوالے سے اپوزیشن کا یہ بھی اعتراض ہے کہ حکومت نے تین مہینوں کے دوران پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں قانون سازی کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔

حکومت کے پہلے 100 دنوں کی کارکردگی کے دعوؤں اور اپوزیشن کے اعتراضات کا یہ سلسلہ آئندہ بھی چلتا رہے گا۔ حکومت کے پاس کچھ کرنے اور کارگردگی دکھانے کے ابھی پانچ سال باقی ہیں۔ امید رکھنی چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت پانچ سالوں کے دوران عوام کیساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پوری کوشش کرے گی اور اپوزیشن بھی اپنا جمہوری کردار اچھے طریقے سے انجام دے گی اس سے یقینی طور پر جمہوریت مستحکم ہوگی اور ملک آگے کی طرف بڑھے گا حکومت کی کارگردگی کا اصل اور بہتر فیصلہ تو پانچ سالوں بعد عوام الیکشن میں کریں گے۔ امید ہے اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :