
بھارت کا بکھرتا شیرازہ
پیر 1 فروری 2021

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
(جاری ہے)
ہندوستان میں اب ہندومسلمان ،ہندو عیسائی،ہندو بدھ مت یا ہندو سکھ کا مسئلہ نہیں رہا ۔بلکہ اب وہاں ہندو اور غیر ہندو کے معاملے نے زور پکڑ لیاہے جب سے RSSکی حمایت یافتہ مودی حکومت برسر اقتدارآئی ہے سیکولر بھارت کا مصنوعی نقاب دنیا کے سامنے اتر چکا ہے ،اب نریندر امودی RSSکے ہندوتوا نظریے کو پروان چڑ ھاتے ہوئے ہندوستان صرف ہندووٴں کا ملک ہے یہاں پر اب کسی غیر ہندوکو رہنے کی اجازت نہیں ہے اگر باقی قومیتوں کے لوگوں نے یہاں پر رہناہے تو انہیں ہندو بن کر رہنا ہوگاورنہ وہ جس مذہب کے ماننے والے ہیں ،انہی ممالک میں چلے جائیں جہاں ان کے مذہب والوں کی اکثریت ہے ،جس کیلئے انہوں نے مودی سے گذشتہ سال بھارتی شہریت کے قانونCAAیعنی شہریت ایمنڈمنٹ ایکٹ نافذ کیا گیا جس سے پورے ہندوستان اور خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں میں ایک بھونچال آگیا۔
بھارت ایک بڑا ملک ہے ،وسائل بھی زیادہ ہیں ،کبھی وہ روس کا پارٹنر تھا اب مغرب خاص طور پر امریکہ کا منظور نظر ہے جس کا میڈیا پر کنٹرول ہے ،بھارت میں ہونے والے مظالم دنیا کے سامنے نہیں آتے اس شہریت ایکٹ کی آڑ میں RSSکے غنڈوں نے اقلیتوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے ،سکھوں ،عیسائیوں ،مسلمانوں ،شودروں اور نچلی ذات کے ہندو وٴں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے ،لیکن اب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کا اصل چہرہ ہندوازم ،دہشت گردانہ اور انتہا پسند سوچ کا چھپا ہوا چہرا دنیا کے سامنے آچکا ہے ۔
ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ہندوستان میں آزادی کی سب سے بڑی تحریک جموں و کشمیر کی ہے جو 70سالوں سے چل رہی ہے پھر خالصتان کے نظارے پوری دنیا دیکھ رہی ہے اس وقت مرکزی دارالحکومت نئی دہلی پر سکھ کسانوں کا کنٹرول ہے جنہوں نے26جنوری2021کویوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر مارچ کیا اور لال قلعے سے بھارتی ترنگے کی جگہ اپنا سکھوں کا مذہبی جھنڈا لہرا دیا ، ہندوستان میں اس وقت کشمیر ،خالصتان ،آسام ،ناگالینڈ،منی پور،تلنگا نہ،تامل ناڈو،کیرالہ،اتر پردیش،کرناٹکا ،مدھیہ پردیش،جھاڑکھنڈ، آندھرا پردیش ،بہار ،مغربی بنگال،میزورآسام ،تری پورہ ،میگھالیا میں علیحدگی کی تحریکیں زوروں پر ہیں جہاں پر عملی طور پر انڈیا کی وفاقی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ،اروناچل پردیش میں بھی علیحدگی کی تحریک عروج پر ہے جبکہ چین اسے اپنا تبت کا علاقہ کہتا ہے اور ہندوستان کے قبضے کو غیر قانونی قراردیتا ہے ،جب فروری 2020 میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے اس علاقے کا دورہ کیا تو چین نے باضابطہ طور پراحتجاج کیا اور چین نے اروناچل پردیش کے 80میل کے علاقے پر اپنے فوجی اڈے،دفاعی نوعیت کی تنصیبا ت بناکر قبضہ مضبوط کرلیاہے ۔اب تک ان آزادی کی تحریکوں میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں تقریباََ 2لاکھ سے زائد افرادہلاک ہوچکے ہیں ۔یہ ہلاکتوں کے اعدادوشمارصرف ان ریاستوں کے ہیں جہاں بغاوتیں عروج پر ہیں ان ریاستوں میں بھارتی وفاق کی رٹ قائم کرنے کیلئے انڈین فوج نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کردئے ہیں کیونکہ اب ان ریاستوں میں فوج علیحدگی پسندوں کے نشانے پر ہے،جہاں آئے روزجھڑپوں میں کئی فوجی ہلاک وزخمی ہوکرزندگی بھرکیلئے معذوری کاشکارہورہے ہیں، جس سے فوج میں نفسیاتی مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ یہ ریاستیں علیحدگی اس لیے اختیا کرنا چاہتی ہیں کیونکہ دہلی کی انتہا پسند RSSکے ہندوتوا کے نظریے کی ماننے والی مودی حکومت انہیں مذہبی و سیاسی حقوق دینے کو قطعاََ تیا ر نہیں ہے بلکہ مرکزی حکومت ان ریاستوں کے وسائل ہڑپ کررہی ہے ۔
اس وقت صرف آسام میں34ایسی تنظیمیں ہیں جو بھارتی فوج کیخلاف جن کے عسکری ونگ اور تربیت کے کیمپ قائم ہیں ،ان کے علاوہ کئی چھوٹی چھوٹی تحریکیں اور بھی چل رہی ہیں ان اعداد و شمار کے بعد بھارت میں علیحدگی کی تحریکوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،2019کی ایک رپورٹ کیمطاق ہندوستان میں اس وقت 60سے زائد علیحدگی یا آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں جن میں 17بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں تھیں ،بھارت کے162اضلاع مکمل طور پر علیحدگی پسندوں کے کنٹرو ل میں ہیں اگر ہندوستان کے نقشے پر غور کریں تو جن ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں جاری ہیں وہ پورے بھارت کا 70فیصد بنتا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کا کتنا شیرازہ بکھرنے والا ہے ،اس وقت پہلے نمبر پر کشمیر کی آزادی کی تحریک ہے دوسرے نمبر پر خا لصتان کی تحریک ہے جو راجستھان ،بھارتی پنجاب سمیت دیگر ریاستوں میں جاری ہے جسے اس وقت کسانوں کے احتجاج نے بام ِ عروج پر پہنچا دیا ہے ۔خالصتان تحریک کا آغاز 1970کے آخر میں ہوا جب سکھوں نے بھارتی حکومت کی ناانصافیوں کیخلاف عَلم ِبغاوت بلند کردیا جس سے بھارتی سرکار کے پاوٴں اکھڑنے لگے تو 1984میں امرتسر کے گولڈن ٹیمپل و دیگر علاقوں میں بلیو سٹار نامی فوجی آپریشن کیا گیا جس سے 2500سے زائد سکھوں کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا ،بھار ت نے طاقت کے زور پر اپنی رٹ جاری رکھنے کی کوشش جاری رکھی ۔جس کے تناظر میں سکھوں کی علیحدگی تحریک نے عالمی سطح پر زور پکڑ لیا ،کینیڈا ،برطانیہ ،امریکہ اور یورپ میں سکھوں نے خالصتان کی ایک جلاوطن حکومت قائم کرلی۔2020میں سکھوں کے 20،20ریفرنڈم نے عالمی سطح پر زور پکڑ لیااورمقبولیت حاصل کرلی ہے ۔
2019میں بھارتی حکومت کے شورو ویلا کہ خالصتان کی تحریک کی پشت پناہی پاکستان کر رہا ہے جس پر برطانوی حکومت نے شدت پسندوں کے خلاف ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا ، جس نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کو بری الذمہ قرار دیکر کہا کہ اس کے پیچھے پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ،گولڈن ٹیمپل حملے کے بعد خالصتان تحریک میں شدت آئی اور سکھ قوم علیحدہ ملک چاہتی ہے ،برطانوی رپورٹ میں زور دیکر کہا گیا کہ سکھوں کو دہشت گرد یا انتہا پسند قراردینے کی بجائے انہیں مختلف فورمز پر بات کرنے کی اجازت دی جائے ،جبکہ بھارتی حکومت بخوبی جانتی ہے کہ اگر خالصتان علیحدہ ملک بن گیا تو کشمیر خود بخود ہاتھ سے نکل جائے گا کیونکہ کشمیر کیلئے زمینی راستہ پنجاب سے ہوکر جاتا ہے ۔ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کیمطابق خالصتان ،مدھیہ پردیش،اتر پردیش اور کرناٹکا کی ریاستیں اتنے بڑے رقبے کی حامل ہیں جو اپنے علیحدہ علیحدہ ملک کا مطالبہ کررہی ہیں ،جبکہ کیرالہ ،اندھرا پردیش ،تامل ناڈوجڑواں ریاستیں ہیں جو آپسی تعاون کے باعث اتنی طاقت ور ہوچکی ہیں ان کے آگے دہلی سرکار بے بس ہوچکی ہے فوج نے وفاقی حکومت کو جواب دے دیا ہے کہ وہ مقامی آپریشن میں اپنے جوان نہیں مروائی گی۔
بھارت میں ذرائع ابلاغ پر بد ترین سنسر شپ لاگو ہے اور گودی میڈیا پر خاموشی طاری ہے جبکہ عالمی ذرائع ابلاغ رپورٹ کررہے ہیں کہ بھارت کے شمال مشرق میں ناگا لینڈ نے بھی14اگست2019کو73واں یوم آزادی منایا ، یوم آزاد ی کے موقع پر ناگالینڈ کا قومی پرچم لہرایا گیا اور قومی ترانہ بھی گایا گیا ،چیئرمین نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لزم (NSCN)ایرواٹیکو نے کہا کہ ہماری 88فیصد سے زائد آبادی غیرہ ہندو ہے ناگا لینڈ کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا کیونکہ ہماری اپنی زبان ،اپنا مذہب اور تہذیب ہے ،لیکن بھارت نے جس طرح1947کے بعد مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا اسی طرح ناگا لینڈ پر بھی قبضہ کررکھا ہے اور آج ہم بھارت سے آزادی کا اعلان کرتے ہیں ،اسی طرح بھارت کی ایک شمالی ریاست منی پور کے 2 رہنماوٴں یام بین بیرن اور نارنگ ہام سمر جیت نے اکتوبر 2019 میں لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھارت سے آزادی کا اعلان کیا ،ان کا کہناتھا کہ منی پور کے سابق راجہ لا شمبا ثنا جوبا کی نمائندگی کرتے ہیں ،وہی ریاست کے مالک ہیں بھارت کا منی پور پر قبضہ غاصبانہ ہے اور منی پور کی آزادی تک جلاوطن رہیں گے اور ہمیں حصول آزادی کیلئے عالمی طاقتوں کی بھی حمایت حاصل ہے انہوں نے کہا بھارتی فوج کو ہمارا علاقہ فی الفور خالی کردینا چاہیے ورنہ نتائج خطرناک ہوں گے ۔بھارت میں آزادی کی تیسری بڑی تحریک آسام کی ہے جس کا آغاز 90 کی دہائی میں ہوا ،جب آسام کی34تحریکوں میں سے ایک مسلح گروپ یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام نے بغاوت کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا ،بھارت نے اس تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا وہاں ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا جو تاحال جاری ہے ، جس میں اب تک 30ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔بھارتی فوج کے آپریشن کے باعث بغاوت اور فوج کیساتھ تصادم کا سلسلہ تمام شمال مشرقی ریاستوں اور قبائلی علاقوں تک پھیل چکا ہے ،ماوٴ نوازوں اور نکسل باڑیوں کی آسام کی علاوہ جھاڑ کھنڈ ،چھتیس گڑھ ،اڑیسہ ،بہار اور مغربی بنگال تک پہنچ چکی ہیں ،اس کے علاوہ بھارت کی 20ریاستوں کے 600اضلاع میں سے 223اضلاع میں ماوٴنواز باغی سرگرم ہیں ،جن میں سے زیادہ تر اضلاع کا مکمل اور کچھ کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے ،ماوٴ نواز کی ایک عسکری شاخ کے سربراہ راوٴعرف کُشن جی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمیں نئی دہلی پر قبضہ کرنے میں زیادہ سے زیادہ15سال لگیں گے ۔نکسل باڑی شمال مشرقی ریاستوں کی ایک علیحدگی پسند وں کی تنظیم ہے جسے ماوٴ نواز باغیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے ،سینکڑوں اضلاع نکسل باڑیوں کے کنٹرول میں ہیں جہاں بھارتی سرکار کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ،بھارتی حکومت نے نکسل باڑیوں کو ملکی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قراردیا ہے اور فیصلہ کن جنگ کی دھمکی دے رکھی ہے ،جس کی تیاری کیلئے بھارتی فضائیہ کواحکامات جاری کردیے گئے ہیں،ان ریاستوں کا کنٹرول پہلے ہی بھارتی حکومت کے ہاتھ سے نکل چکاہے جبکہ رہی سہی کسر بھارتی شہریت کے قانون نے پوری کردی ہے جس کے ردِعمل میں اب سب ایک ہوچکے ہیں،اسی طرح چین اروناچل پردیش کو تبت کا جنوب مغربی علاقہ قرار دیتا ہے اور بھارت کا حق تسلیم نہیں کرتا ،چین نے بھارت بھوٹان کے متنازعہ سرحدی علاقوں میں جن میں پینگڈا نامی گاوٴں اور ڈوکلام کے علاقوں میں فوجی بنکرز بھی تعمیر کرلیے ہیں جس سے چین بھارت کی چکن نیک دبوچنے کے قریب پہنچ چکا ہے ،بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کو ملانے کا صرف ایک ہی راستہ سکم کوریڈور ہے اور80میل کے رقبہ پر اگر چین نے قبضہ کرلیا تو بھارت کومغربی بنگال اور شمال مشرقی ریاستوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔چین ایسا اس لیے کرے گا کہ بھارت امریکہ کے ایما پر تائیوان ،تبت اور ہانگ کانگ میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔چین نے بھارت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو چین بھارت کی چکن نک دبا کر شمال مشرقی ریاستوں کو علیحدہ کردے گا دوسری وجہ پاک چین اقتصادی راہداری میں بھارت کی ناجائزرکاوٹیں پیداکرنے کی کوششیں ہیں۔بھارت کی وفاقی حکومت کا کنٹرول صرف گجرات اور مہا راشٹر کے علاوہ کچھ علاقوں میں نظر آتا ہے ،باقی تقریباََ 70فیصد سے زائد ریاستوں میں بھارت کی وفاقی حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے
بھارت جسے قیام سے ہی علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا تھا اب مودی کے آمرانہ ،دہشت گردانہ طرز حکومت نے ہندوستان کو کئی ٹکڑوں میں بٹنے تک پہنچادیا ۔برطانوی اخبار گارجیئن نے 17جنوری2021کو ایک مضمون لکھا کہ بھارت کہ ہندو انتہا پسند انہ سوچ کی بنا پر تقسیم کے راستے پر ہے ،بلوم برگ نے فروری2020میں اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ مودی بھارتیوں کیلئے بہت بڑا رسک ہے ، امریکی خبار نیو یارک ٹائمز نے 2019کو ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا کہ مودی کا ہندوتوا کا نظریہ بھارت کو تقسیم کررہا ہے ایک اور امریکی اخبار فارن پالیسی نے جولائی 2020میں ایک رپورٹ میں لکھا کہ مودی کا طرز حکمرانی آمرانہ ہے ،بھارتی حکومت انتہا پسند ہندوتواکی پالیسیاں بھارت کی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث بنیں گیں ۔بھارتی اخبار دی ہندو نے جنوری2020میں ایک رپورٹ میں حکومت کو خبر دار کیاکہ مودی حکومت مذہب کارڈ کے ذریعے ملک کو تقسیم کررہی ہے اور شہریت ایکٹ سے ملک عملاََ تقسیم ہو چکا ہے اسی لیے بھارتی حکومت کشمیر ،خالصتان اور آسام کی آزادی کی تحریکوں کوکچلنے کیلئے اپنے تمام وسائل بے دریغ استعمال کررہی ہے کشمیر اور دیگر علاقوں میں فوجی چھاوٴنیاں تعمیر کررہی ہے،جس پر عالمی نشریاتی ادارے بھارت کو خبردار کررہے ہیں ، ویسے بھارتی حکومت بخوبی سمجھتی ہے کہ اگر علیحدگی کی ایک بھی تحریک کامیاب ہوگئی تو اس کی دیکھا دیکھی دیگر کئی تحریکیں زورپکڑلیں گیں،پھر نتیجہ کے طور پر بھارت کا بکھرتا ہوا شیرازہ دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں پائی گی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا جھوٹا قلعہ زمین بوس ہوجائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی کے کالمز
-
پہلے حجاب پھرکتاب
منگل 15 فروری 2022
-
ایمانداروزیراعظم
پیر 31 جنوری 2022
-
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
بدھ 26 جنوری 2022
-
جنوبی پنجاب صوبہ اورپی ٹی آئی کاڈرامہ
پیر 24 جنوری 2022
-
پاکستان کے دشمن کون۔؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
پاکستان کے بادشاہ سلامت
پیر 10 جنوری 2022
-
بھارت میں خانہ جنگی
منگل 4 جنوری 2022
-
مالدیپ میں انڈیاآؤٹ تحریک
بدھ 29 دسمبر 2021
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.