سندھ کی ترقی۔۔؟

بدھ 16 جون 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں شاہراہ فیصل پر ٹاور کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔دوانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شاہراہ فیصل کا روڈ کبھی کم نہیں ہوا بڑھا ہی ہے اس کے دونوں اطراف کا سروس روڈ انکروچمنٹ کیا گیا ہے، سب کرپٹ ہیں کمشنر بھی کہہ رہے ہیں قبضہ ہے، سارے رفاہی پلاٹس ہیں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے، پیسے دیں جو چاہے کریں، سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ان حالات میں صوبہ کیسے گزارا کرے گا؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ بتائیں، آپ سب جانتے ہیں بتائیں ہمیں، آپ کی حکومت کیسے کوئی اور چلا سکتا ہے؟ کسی کو تو کھڑا ہوکر اس کو روکنا ہوگا۔

(جاری ہے)

معزز چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمانی طرز حکومت کا کچھ مطلب ہوتا ہے اور پارلیمانی حکومت مضبوط حکومت ہوتی ہے، جب آپ نالہ صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے؟ سال پہلے نالہ صاف کرنے کا حکم دیا، روزانہ نئے نئے بہانے۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ حکومت کینیڈا سے چلائی جارہی ہے اور کراچی کو یونس میمن کینیڈا سے آپریٹ کررہا ہے، یونس میمن ساری بڈنگ وہاں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبے میں ایک تعلیم کا پروجیکٹ 2600 بلین روپے کا 2014 میں شروع ہوا 2017 میں ختم ہوا، ان پیسوں سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جاسکتی تھی، آر او پلانٹس کا پیسہ 1500 بلین روپے ہے، تھر کے لوگ آج بھی پانی کو ترستے ہیں، سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بنا، آپ لوگ فیصلہ کرلیں کرنا کیا ہے اس طرح حکومت نہیں چلتی بلکہ حکومت ہے ہی نہیں۔

عدالت نے کہا کہ بجٹ کا مطلب اپنے لیے فنڈ مختص کرنا ہوتا ہے عوام کے لیے نہیں، لوگوں کو تو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوتا۔
دوسری طرف سندھ اور وفاقی حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئی ہے،جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔وفاقی وزیر اسد عمر واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سندھ کے عوام پر پیسہ خرچ کرنا ہے، سندھ حکومت پر نہیں، جبکہ سندھ کے وزیراعلی مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ وہ بہرے لوگوں سے مخاطب ہیں،جنہیں اس بات کی فکر ہی نہیں، سندھ اس وقت کتنے مسائل کا شکار ہے،کیونکہ اسے وفاقی حکومت سے ترقیاتی فنڈز نہیں مل رہے۔

انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کو وفاقی حکومت دِل کھول کر ترقیاتی فنڈز دے رہی ہے۔ سندھ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اسد عمر نے اس کے جواب میں کہا ہے مراد علی شاہ بتائیں کہ وہ وفاقی حکومت کو سندھ میں ترقیاتی کام کرنے دینا چاہتے ہیں یا نہیں، سندھ کی پسماندگی کا جو حال ہے،وہ سب پر عیاں ہے، ترقیاتی کاموں کی رفتار اور معیار پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے ہیں، کرپشن کے میگا سکینڈلز بھی سامنے آئے اور اندرون سندھ پانی، علاج معالجے،انفراسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں صورتِ حال دگرگوں ہی ہوتی چلی گئی، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو پہلے سے زیادہ فنڈز ملے، لیکن سندھ میں ترقی کی رفتار اسی تیزی کے ساتھ نہیں بڑھ سکی۔

وفاق کا یہ آئینی اختیار موجود ہے،وہ صوبوں کی ترقی کے لئے براہِ راست منصوبے شروع کر سکتا ہے اور موجودہ حکومت یہی کرنے کی کوشش کرہی ہے مگر پیپلزپارٹی کی حکومت کو یہ گوارا نہیں ہے کیونکہ اگر وفاقی حکومت نے سندھ میں ترقیاتی اور عوام کی فلاح کے منصوبے بروقت پایہ تکمیل تک پہنچادئے توپیپلزپارٹی سے سندھ کارڈ ہاتھ سے نکل جائے گااور زندہ بھٹوبھی ہمیشہ کیلئے مرجائے گا۔


تین سال قبل وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور سندھ میں جس طرح آج پیپلزپارٹی بلاشرکت غیرے حکمران ہے اسی طرح اس کی حکومت تھی تو اس وقت وفاق میں اپوزیشن لیڈر خورشیدتھے انہوں نے ان دنوں کہاتھاجس نے ترقی دیکھنی ہووہ آئے سندھ کی ترقی دیکھے توانہی دنوں 17مئی 2018ء کومیراکالم سندھ کی ترقی روزنامہ نیاکل ملتان اور اورروزنامہ حریف لاہورمیں شائع ہواوہی کالم قارئین کی نظر
" گذشتہ ہفتے سیدخورشیدکاایک بیان اخبارمیں پڑھاجس میں انہوں نے کہاکہ جس نے ترقی دیکھنی ہووہ آئے سندھ کی ترقی دیکھے،شاہ جی کے اس بیان نے سندھ کی ترقی دیکھنے اورگرم موسم میں سندھ کی سیر کرنے پرمجبورکردیا،طے شدہ پروگرام کے مطابق راقم الحروف اپنے قریبی دوست اورصحافی محمدہارون قریشی کے ساتھ روانہ ہوگیا اورفیصلہ کیاکہ سب سے پہلے سندھ کے تین بڑے شہر وں کی گردچھاننی چاہئے،سب سے پہلے کراچی پہنچے پھرحیدرآباداورآخرمیں سندھ کے تیسرے بڑے شہرسکھرپہنچے جوکہ اپوزیشن لیڈر اور پیپلزپارٹی کے سینئررہنماسیدخورشیدکاحلقہء انتخاب اورآبائی شہرہے،سندھ کی ترقی کااحوال آگے چل کربیان کرنے کی کوشش کرونگا ،سب سے پہلے ترقی یافتہ سندھ میں اپنی قومی زبان اردوکا جو حشرہوتادیکھادل خون کے آنسورونے پرمجبورہواوہ نظرقارئین ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی جواپنے آپ کووفاق کی نمائندہ کہتی ہے نے جتناسندھ میں وفاق کونقصان پہنچایا وہ نقصان ایم کیوایم ،جئے سندھ ودیگرتنظیمیں نہ پہنچاسکیں،ستم تویہ ہے جب ہم سندھ کی حدودمیں داخل ہوئے توسندھی زبان میں لکھے ہوئے سائن بورڈنے ہمارااستقبال کیا،پورے سندھ میں کراچی سے کشمورتک سفرکے دوران کہیں بھی سرکاری سطح پریاسرکاری عمارتوں،دفاتر،کالجوں ،ہسپتالوں،تھانوں ودیگرپرسندھی زبان کے علاوہ اردوزبان میں کوئی سائن بورڈ لکھا ہوا دکھائی نہ دیا،اتنا زیادہ لسانی تعصب ہم نے بلوچستان اورخیبرپی کے میں کہیں نہ دیکھا جو ہمیں سندھ میں دکھائی دیا،سندھ میں ایسا محسوس ہواکہ اردوزبان پاکستان کی قومی زبان نہیں ہے شائدیہ اسرائیل کی قومی زبان ہے اس لئے اس کوسندھ میں سرکاری طورپرلکھنایااردوکی ترویج کرناشجرممنوعہ ہے کیونکہ اسرائیل پاکستان اورمسلمانوں کاکھلادشمن ہے اور دشمن ملک زبان کی ترویج وترقی غداری کے مترادف ہے،اس لئے سندھ میں پیپلزپارٹی نے اردوکی بجائے سندھی زبان کوسرکاری زبان کا درجہ دیاہواہے اوراردو شجرممنوعہ قراردیدی گئی اوراردوبولنے والوں سے نفرت بھی عروج پر دیکھی،سکھرسے پنجاب واپسی پرکسی وجہ سے روڈبلاک تھاتوہمیں ایک متبادل راستہ اختیارکرناپڑااورایک قصبہ رستم جاپہنچے اورہمیں پتہ نہیں چل رہاتھاکہ ہم کدھرجائیں اورمین روڈ تک پہنچ سکیں،گاڑی روکی اورہوٹل پربیٹھے لوگوں سے راستہ معلوم کریں اس دوران میرے دوست نے خوفزدہ حالت میں مجھے کہا بھائی ان سے اردومیں بات نہ کرنابلکہ اپنی مادری زبان سرائیکی میں راستہ پوچھنااوربات کرنا،سرائیکی زبان میں راستہ پوچھنے کے بعد دوست سے اس کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایاکہ میرابچپن سکھر میں گذراہے اورسندھ کے لوگ ان سیاسی مداریوں کے پروپیگنڈے کی بدولت اردوبولنے والوں سے شدیدمخاصمت رکھتے ہیں اس لئے آپ سے کہاکہ ان سے سرائیکی زبان میں راستہ پوچھنا ۔


اب آتے ہیں سندھ کی ترقی کی طرف دیہی سندھ میں کہیں بھی سکول دکھائی نہ دیئے ایک پڑھے لکھے نوجوان سے دریافت کیاکہ یہاں سکول کیوں نہیں ہیں تواس نے جواب دیااگریہاں سکول بن گئے توزندہ بھٹومرجائے گا،جب بھٹومرجائے گاتوپیپلزپارٹی اس پارٹی میں موجودوڈیراشاہی بھی مرجائے گی اس لئے سندھی عوام کوتعلیم کی نعمت سے محروم رکھاجارہاہے تاکہ سندھ میں بھٹوکوزیادہ عرصہ زندہ رکھ کراپنی سیاسی اجارہ داری اوروڈیرا گیری کوقائم رکھاجاسکے۔

دریائے سندھ کاپل کراس کرکے سکھرشہرپہنچے وہاں اپنے جاننے والوں کے پاس گئے اوران سے درخواست کی کہ ہمیں سکھرشہراوراردگردکے علاقے دکھائے جائیں اورہم سندھ خصوصاََ سکھر کی ترقی دیکھناچاہتے ہیں،سب سے پہلے ہم قاسم پارک گئے جہاں تالابوں میں شاید کبھی پانی چھوڑاگیا ہوہرطرف گندگی اورتعفن سندھ کی ترقی کی گواہی دے رہی تھی،اس کے بعدہوابندرپارک گئے جوکہ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے جہاں عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابرمحسوس ہوئی بلکہ یہ پارک کم نشئیوں کامسکن زیادہ دکھائی دیا،اس کے بعد شہیدگنج،چوڑی بازار،گھنٹہ گھر،فیرئیرروڈ،مینارہ معصوم شاہ اورپراناسکھرجہاں سیدخورشید کاگھرہے یہ تمام علاقے دیکھے جہاں ہرطرف گندگی کے ڈھیردکھائی دئے،سیوریج سسٹم صرف نام کی حدتک تھا،سکھرمیں سٹریٹ لائٹس توبالکل ہیں ہی نہیں،بجلی اورپانی کاشدید بحران ہے ،بجلی چوری سرعام ہے کیونکہ واپڈاملازمین منتھلی لیکر خودڈائریکٹ کنڈے لگواکربجلی چوری کراتے ہیں،ستم تویہ ہے کہ سکھر میں واپڈاکااپناتھرمل پاوراسٹیشن ہے جوکہ کچھ عرصہ قبل تک چالوحالت میں تھاجس سے سکھر کی عوام کویہ بھی معلوم نہیں تھاکہ لوڈشیڈنگ کیا ہوتی ہے لیکن اب وہ تھرمل پاوربندہوچکاہے جس کی مشینری اکھاڑلی گئی ہے۔

سول ہسپتال سکھرمیں ایک بیڈپرتین تین مریض پڑے دیکھے،دوائیاں بازارسے عوام خریدنے پرمجبورہیں،سکھرمیں صرف ایک انورپراچہ ہسپتال ہے جوعوام کوکچھ نہ کچھ ریلیف دے رہا ہے ،سکھر میں ایک میڈیکل کالج بھی بنایاگیاہے جوکہ خان پورمہرکے مرحوم سردارغلام محمدمہرکے نام پرہے جسے سیدخورشیدشاہ سکھرکی بجائے خیرپور میں بنواناچاہتے تھے لیکن سردارغلام محمدمہرکے بیٹے کی کوشش سے یہ کالج سکھر میں بنایا گیا۔


پورے سندھ میں سڑکوں پرراستے یاسڑک جوکسی مقامی سرداریاوڈیرے کے گھریاڈیرے کی طرف جاتی ہے وہاں انہی سرداروں یاوڈیروں کے ناموں کی پبلسٹی کیلئے بڑے بڑے خوبصورت محرابی گیٹ بنائے گئے ہیں اوریہی سندھ کی ترقی دکھائی دی یاپھراپوزیشن لیڈر سیدخورشید شاہ جوواپڈاکے میٹرریڈرسے ترقی کرتے ہوئے کئی بارMNA بنے اوراپوزیشن لیڈرکے منصب تک جاپہنچے،واقعی سید خورشید نے سچ کہا ہے جس نے ترقی دیکھنی ہووہ سندھ میں آکردیکھے کہ ایک میٹرریڈرنے کیسے اورکتنی ترقی کی ہے۔۔۔۔؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :