گودی میڈیا،پاکستان فوبیا اوربھارتی کسانوں کااحتجاج

پیر 13 ستمبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

 بھارت کامین سٹریم گودی میڈیااپنے ملک میں ہونے والے احتجاجوں سے توجہ ہٹانے کیلئے اوٹ پٹانگ اوچھی حرکتوں میں مصروف ہے ،افغانستان کولیکرپاکستان کیخلاف جھوٹی خبریں نشرکررہاہے اورایسالگتاہے کہ مودی کے گودی میڈیاکوپاکستان فوبیاہوگیاہے ،گودی میڈیا کے حواسوں پر پاکستان اتنا ہاوی ہو چکا ہے کہ پاکستان کی مخالفت میں ویڈیو گیم کی فوٹیج چلا کر پنج شیر میں پاک فضائیہ کی بمباری کا جھوٹا پروپیگنڈا کرتا رہا۔

بھارت کے ٹی وی 9، ریپبلک ٹی وی اور ہندی نیوز چینل زی ہندوستان نے ایک فوٹیج شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستانی ڈرون وادی پنجشیر میں طالبان مخالف جنگجوں پر بمباری کررہے ہیں۔تاہم بھارت کے اس دعوے کا پول اس وقت کھلا جب ویب سائٹ بوم نے نشاندہی کی کہ یہ ویڈیو افغانستان میں تنازع کی نہیں بلکہ ایک ویڈیو گیم آرما3 سے لی گئی ہے۔

(جاری ہے)

بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے باز نہیں آیا اور امریکا میں دوران مشق تباہ ہونے والے طیارے کو پاکستان کا بتا کر ہرزہ سرائی کرنے لگا،بھارتی میڈیا نے 2018 میں امریکی ریاست ایریزونا میں تباہ ہونے والے طیارے کی خبر کو جعلی پروپیگنڈا کرتے ہوئے رپورٹ کیا کہ پاکستانی طیارہ افغانستان کی وادی پنجشیر میں گر کر تباہ ہوگیا ہے۔

اسی طرح بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی سے وابستہ صحافی نوین کپور نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ عبداللہ عبداللہ کو طالبان نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔جس کے تھوڑی ہی دیر بعد ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ نے طالبان کی جانب سے خود کو حراست میں لیے جانے کی خبروں کی تردید کردی۔افغان رہنما نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھارتی صحافی نوین کپور کی ٹوئٹ شیئر کی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عبداللہ عبداللہ طالبان کی قید میں ہیں۔

عبداللہ عبداللہ نے اپنی ٹوئٹ میں واضح کیا کہ ان کے حراست میں لیے جانے کی بھارتی میڈیا کی خبر جھوٹی ہے۔ بھارتی صحافی خبر شائع کرنے سے قبل حقائق کو چیک کرلیا کریں،اسی طرح بھارت کے میجر جنرل(ر)جی ڈی بخشی کی جانب سے ایک ٹوئٹ کیا گیا جس میں انہوں نے لکھا کہ پنجشیر میں لڑائی کے دوران پاکستان کو بھاری جانی نقصان ہوا۔ پنجشیر میں پاکستان کے سات افسران، 12 جونیئر افسران اور 75 کمانڈوز شہید ہوئے جبکہ دیگر کچھ زخمی بھی ہوئے۔

جی ڈی بخشی کی اس ٹوئٹ کو شیئر کرتے ہوئے 'فوجی ڈاکٹر 'نامی فیک اکاؤنٹ نے پاکستانی فلم 'یلغار' کی ایک تصویر شیئر کی جس میں شان شاہد، عمیر جسوال اور بلال اشرف موجود تھے۔اس اکاؤنٹ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ میجر اعجاز(شان)اور کیپٹن جعفر(عمیر جسوال) میرے کلاس فیلو تھے جو پنجشیر میں شہید ہوگئے۔ انہیں پشاور میں سپردِ خاک کیا گیا، آئی ایس پی آر اِن ہلاکتوں کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہاہے ،یہ دونوں بہادری سے لڑے۔

دوسری جانب میجرجنرل(ر) ہرشا ککڑ نے بنا تصدیق یہ ٹوئٹ شیئر کر دی اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیاجس پراداکار شان شاہد نے ٹوئٹس پر جواب دیتے ہوئے فوجی لباس میں تصویر شیئر کی اور طنزیہ لہجے میں ہیلو کہا۔ یہ توتھیں افغانستان سے متعلق بھارتی میڈیاکی خبریں،اس سب کے علاوہ بھارتی گودی میڈیا پاکستان دشمنی میں اتناپاگل ہوچکاہے کہ اس نے گذشتہ سال 21 اکتوبر 2020ء کوجعلی بریکنگ سٹوری چلائی جس میں دعویٰ کیاکہ کراچی میں خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے فوج اورعوام آمنے سامنے آگئے ہیں پاکستانی فوج اپنی عوام پرگولیاں برسارہی ہے حالانکہ اس خبر کا دور دور تک حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا،گودی میڈیانے خواہشات کو خبریں بنا کر پیش کیا جسے عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اس سفید جھوٹ پراسے دنیا کا جھوٹا ترین میڈیا قرار دیاگیا،گودی میڈیا نے اپنی رپورٹس میں کہا تھاکہ کراچی کے علاقے گلشن باغ میں جھڑپیں شروع ہوگئیں،دلچسپ بات یہ ہے کہ جھڑپیں تو ایک طرف کراچی میں تو گلشن باغ نام کا ہی کوئی علاقہ تک نہیں اور ہوتا بھی کیسے کیونکہ گلشن اور باغ کا تو مطلب ایک ہی ہے، ایسا احمقانہ نام متعصب بھارتی میڈیا کو ہی سوجھ سکتا تھا۔

پاکستان کیخلاف اس شرمناک پروپیگنڈے کو پھیلانے میں بھارتی ٹی وی چینل سی این این نیوز 18، ٹائمز ناؤ جیسے بڑے ادارے شامل تھے۔
 دوسری طرف مودی کے گودی میڈیاکو بھارت میں ہونے والے مظالم بالکل ہی دکھائی نہیں دیتے ،ریاست آسام اورمیزوکے درمیان ہونے والی جنگ ،وہاں پولیس کی ہونے والی ہلاکتیں،ٹرک ڈرائیوروں کوگولیاں مارکرٹرکوں سمیت زندہ جلادینانظرنہیں آتاانہیں صرف پاکستان یاافغان طالبان ہی ہرطرف دکھائی دیتے ہیں،نہ گودی میڈیاکوبھارت میں مودی سرکار کے کسان مخالف قوانین کے خلاف ریاست اتر پردیش کے شہر مظفر نگر میں لاکھوں کسانوں نے جو احتجاجی ریلی نکالی جس میں مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ریلی میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد شریک تھے،آزاد ذرائع جن کی تعداد10لاکھ بتائی۔

کسان رہنماؤں نے ریاست اتر پردیش کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی ریلیاں منعقد کرنے اور 27 ستمبر کو ملگ گیر ہڑتال کا اعلان کیا۔ریلیوں میں اگلے برس ہونے والے ریاستی انتخابات کے لیے مودی مخالف مہم چلانے کا اعلان بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ ہم ہر شہر میں جائیں گے اور یہ پیغام پہنچائیں گے کہ مودی حکومت کسان دشمن ہے ۔ مظفرنگر میں ہونے والی ریلی کو کسان احتجاج کے گزشتہ نو ماہ سے جاری احتجاج کے حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی ریلی کہا جا رہا ہے۔

بھارت میں کسان مظاہرین تقریبا 9 ماہ سے دلی جانے والی اہم شاہراہوں پر احتجاج کر رہے ہیں او بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہزاروں کسان احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے ہیں جومودی حکومت کے بنائے تین زرعی قوانین کی مخالفت کرر ہے ہیں اورمودی حکومت سے تین نئے زرعی قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اسی طرح یہ بھارت میں کسانوں کا طویل احتجاج ہے جو گودی میڈیا کونظرنہیں آتا۔

نومبر2018ء میں انڈیا کی مختلف ریاستوں کے ہزاروں کسانوں نے ملک کے ارکان پارلیمان سے مطالبہ کیا کہ انہیں بدحالی سے نکالنے کے لیے ان کے تمام قرضے معاف کرنے اور ان کی پیداوار کی منافع بخش قیمت کی ضمانت دینے کے قوانین کو وہ پارلیمنٹ میں منظوری دیں۔اس وقت ہزاروں کسانوں نے دارالحکومت دلی میں پارلیمنٹ تک مارچ کیا،یہ کسانوں کامارچ گودی میڈیاکوکہیں دکھائی نہ دیا،اس وقت اترا کھنڈ سے آنے والے ایک کاشت کار بلجیت سنگھ کاکہناتھاکہ مودی جی جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سبھی کے قرضے معاف کریں گے تومودی جی کسی کے پندرہ روپے تو کسی کے بیس روپے معاف کیے تو کسی کا وہ بھی نہیں ہوا۔

جب تک ہمیں ہماری پیداوار کی منافع بخش قیمت کی ضمانت نہیں دی جاتی تب تک ہم اسی طرح قرضوں میں ڈوبے رہیں گے،کسانوں سے کئے مودی جی کے وعدوں کاگودی میڈیاعلم ہی نہیں ہے، کسانوں کی موت کو روکو،کھوپڑیوں کے ساتھ کسانوں کا احتجاج ،کسانوں کے مارچ کا اہتمام آل انڈیا کسان سنگھرش کمیٹی نے کیا تھا۔ اس میں دو سو سے زیادہ کسانوں کی تنظیمیں شامل تھیں بھارت گذشتہ بیس برسوں میں تین لاکھ سے زیادہ کسانوں نے خود کشی کی ہے ،کسانوں کی خودکشیاں گودی میڈیانے نظراندازکردیں جیسے بھارت میں کچھ ہواہی نہیں ہے۔

اپریل 2017ء ایک کسان نے زندہ چوہا دانتوں میں پکڑ کر انوکھا احتجاج ہوا، 65سالہ چناگوڈانگی پالانیسامی شخص جو جنوبی ریاست تمل ناڈو کے کسانوں کی حالتِ زار کی طرف حکام کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی،جس نے دہلی کے قریب جنتر منتر کے علاقے میں بڑاعرصہ ایک خیمہ لگاکربیٹھارہااورحکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی کہ اگر حالات میں تبدیلی نہ ہوئی تو ہم چوہے کھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

یہ انوکھااحتجاج بھی مودی کے گودی میڈیاکے اوپرسے گذرگیالیکن انہیں کان وکان خبرنہ ہوئی۔تمل ناڈو کے 40 فیصد سے زیادہ لوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ وہاں خشک سالی، فصلوں کی کم قیمتوں اور زرعی قرضے حاصل کرنے میں مشکلات نے اس ریاست کے کسانوں کیلئے کئی عشروں سے بدترین بحران کاسامناہے۔تمل ناڈو کے کسانوں نے روایتی لباس پہن رکھے تھے اور وہ انسانی کھوپڑیاں لہرا رہے تھے جو ان کے بقول مردہ کسانوں کی تھیں۔

انھوں نے آدھے سر منڈوا رکھے تھے اور منہ میں زندہ چوہے پکڑے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ اپنے ہاتھ کاٹ کراحتجاجاََ خون بہا رہے تھے، جب کہ کچھ گرم بجری پر لوٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ فرضی جنازوں کی رسمیں بھی ادا کررہے تھے اس کے برعکس دہلی کا گودی میڈیا انھیں کرتب باز سمجھتا رہا اور ان کے احتجاج کے پیچھے درد و کرب کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی اورکبوترکی طرح آنکھیں بندرکھیں۔

بھارت میں خشک سالی اور مودی سرکار کی غلط پالیسیوں سے کسانوں میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہوچکاہے۔بھارت کی اہم اور خوشحال ریاستوں میں مہاراشٹر کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اس خوشحال ریاست میں صرف ایک ماہ کے دوران 300 کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ریاست مہاراشٹر کے محکمہ ریونیو کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق سن 2015 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب صرف گزشتہ برس نومبر میں تین سو کسانوں نے خودکشیاں کیں۔

خودکشی کی یہ شرح گذشتہ برس اسی مدت کے مقابلے میں 61 فیصد زیادہ ہے۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سن 2018 کے مہینوں اکتوبر اور نومبر کے درمیان کسانوں کی خود کشیوں کے 186 واقعات درج ہوئے تھے جب کہ ختم ہونے والے سال کے ماہِ نومبر میں یہ تعداد 300 تک پہنچ گئی۔ خودکشی کے سب سے زیادہ 120 واقعات مراٹھواڑہ میں درج کئے گئے جب کہ وردبھ علاقے میں 112 ایسے واقعان کا انذدراج کیا گیا۔

جنوری سے ستمبر 2019 تک خودکشی کرنے والے کسانوں کی مجموعی تعداد 2532 رہی۔بھارت کے کسانوں کے پاس زراعت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ گیا ہے لیکن غریب کسانوں کے لیے کھیتی باڑی نہایت مشکل ہوگئی ہے ان کے علاوہ خودکشی کے دوسرے کئی واقعات ریاست مہاراشٹر، کرنا ٹک ، تلنگانہ، مدھیاپردیش، چھتیس گڑھ، آند ھر اپر د یش اور تامل ناڈو میں پیش آئے جومودی کے گودی میڈیاپررپورٹ نہ ہوئے۔


 رواں ماہ گذشتہ اتوار مغربی اتر پردیش کے مظفر نگر میں زرعی قوانین کے خلاف تاریخی کسان مہاپنچایت کا انعقاد عمل میں لایاگیا۔ اس پنچایت سے خطاب کرتے ہوئے کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے مرکز اور اتر پردیش کی یوگی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹکیت نے کہا کہ اب تک گنے کا ایک روپیہ بھی نہیں بڑھایا گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا یوگی حکومت کمزور ہے، ایک روپیہ بھی بڑھانے سے قاصر ہے۔

ٹکیت نے کہا کہ یہ لوگ ریلوے بیچ رہے ہیں۔ ریلوے بکنے سے ساڑھے چار لاکھ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے،ملازمین کی پنشن ختم کی جا رہی ہے لیکن ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کو پنشن دی جا رہی ہے۔ٹکیت نے کہا کہ کسان 9 ماہ سے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، لیکن چند مراحل کے بعد حکومت نے مذاکرات کو روک دیا۔ اس موقع پر راکیش ٹکیت نے مہاپنچایت سے قومی یکجہتی کا پیغام دیا اور بیک وقت اللہ اکبر اور ہر ہر مہادیو کے نعرے لگائے۔

انہوں نے مودی کانام لئے بغیر کہاکہ یہ لوگ باٹنے کا کام کر رہے ہیں، ہمیں انہیں روکنکیں گے۔ پہلے اس ملک میں اللہ اکبر اور ہرہر مہادیو کے نعرے ایک ساتھ لگائے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یوپی کی سرزمین فساد کرانے والوں کے سپرد نہیں کریں گے۔ اس تحریک میں سینکڑوں کسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن حکومت نے ان کے لیے ایک منٹ کی خاموشی بھی نہیں منائی۔

ٹکیت نے حکومت سے پوچھا کہ جس طرح حکومت چیزیں بیچ رہی ہے اس کی اجازت کس نے دی؟بجلی فروخت کی جا رہی ہے۔ سڑک بیچی جارہی ہیں، ایل آئی سی بھی فروخت ہوگا۔ ان کے خریدار اڈانی اور امبانی ہیں۔ایف سی آئی کے گودام بھی کمپنیوں کو دے دیئے گئے۔ بندرگاہیں بھی فروخت ہوگئیں،اس کا اثر ماہی گیروں اورکسانوں پر پڑے گا۔ اور اب یہ پانی بھی فروخت کریں گے، راکیش ٹکیت نے کہا کہ حکومت ہند کی پالیسی یہ ہے کہ ہندوستان برائے فروخت ہے، امبیڈکر کا آئین خطرے میں ہے۔

مظفر نگر کی زمین پر اس گراؤنڈ سے باہر قدم نہیں رکھیں گے۔ یہ لڑائی تین کالے قوانین سے شروع ہوئی۔مظفرنگر کی سڑکوں پر کسانوں کا سیلاب دیکھا گیا۔ میدان میں لاکھوں لوگ موجود تھے اوراس سے زیادہ لوگ میدان سے باہر موجودتھے لیکن مودی سرکارکے گودی میڈیا کویہ احتجاج اور مظفر نگر میں زرعی قوانین کے خلاف تاریخی کسان مہاپنچایت اورگذشتہ سال بھارت کے یوم جمہوریہ پر کسانوں کا ٹریکٹر مارچ بھی دکھائی نہ دیا۔

اس برعکس بھارت کاگودی میڈیاپاکستان سے متعلق جھوٹ پرمبنی اورمن گھڑت سٹوریاں بناکراپنی عوام کو بے وقوف بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے جس پردنیابھرمیں لوگ بھارت کے گودی میڈیا کی ان بھونڈی حرکتوں سے خوب محظوظ ہو رہے ہیں اور ساتھ میں مودی سرکارکے گودی میڈیاکودنیاکاجھوٹامیڈیاقراردیاجاچکاہے اوراب دنیابھر سے بھارت کے گودی میڈیا پر تھوکاجارہاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :