
13جولائی یوم شہداء کشمیر تجدید عہد
منگل 14 جولائی 2020

انجینئر مشتاق محمود
(جاری ہے)
بھارت شرم کرو اور کشمیریوں سے انسانیت اور بھائی چارگی سیکھو، بھارت اپنے ناجائز قبضے کو بر قرار رکھنے کیلئے طلم و جبر کا ہر حربہ آزما رہا ہے۔ کشمیریوں نے ہمیشہ یاتریوں کو مہمان خصوصی اور انکی حفاظت کرنا قومی ذمہ داری قرار دیا۔اسکے برعکس خود بھارتی دانشور و سیاسی و سماجی کارکن و تجزیہ نگار کشمیر میں حالیہ معصوم بچوں کا قتل، خصوصی حثیت کی منسوخی کے بعد لگاتار جبری لاک ڈاؤن بدنام زمانہ پی ایس اے اور این آئی اے کے تحت قائدین سمیت بچوں کو بھارتی جیلوں میں بند رکھنا، عظیم سماجی و انسانی حقوق کے علبردار خواتین قائدین آسیہ اندرابی، نسرین نور اور فریدہ بہن کو دہلی تہار جیل منتقل کرنا صرف اور صرف بھارتی انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کی سیاسی چال قرار دے رہا ہے، جو اپنی ناکامیوں اور جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے کشمیریوں کو قربانی کا بکرا بنا کر آئندہ الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کر ناچاہتے ہیں ۔ بھارت کو تسلسل سے ظلم و جبر پالیسی سے صرف رسوائی ملی،اور مختلف ادوار میں کشمیریوں کی جدوجہد کئی مراحل میں کشمیریوں نے بیش بہا قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔1832 میں منگ موجودہ آزاد کشمیر میں پندرہ کشمیریوں کی کھالیں کھینچی گئی، پھر 13جولائی 1931 سے لیکر آجتک دس لاکھ کشمیریوں نے اپنے بنیادی حق آزادی اور اپنے حقوق کی پاسداری کیلئے جانوں کا نظرانہ پیش کیا ۔بر صغیر میں ابھی نظریہ پاکستان کی قرار داد بھی پاس نہیں ہو ئی تھی کشمیر میں ہندو ڈوگرہ کے خلاف مسلمانان کشمیراپنے خون سے پاک قرارداد پیش کررہے تھے۔جموں وکشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور حکمران ہندو ڈوگرہ تھا۔متعصب ڈوگرہ حکمران اور انکے کارندوں نے ظلم و جبر کی تمام حدیں پار کی تھی ،کشمیری مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروع کر نا ہندو ڈوگرہ حکمران اور اسکے کارندوں کا وطیرہ تھا ، جموں کی جا مع مسجد کے امام کوخطبہ دیتے ہو ئے مہاراجہ کے اہلکاروں نے روکا،اسکے علاوہ توہین قران کا سانحہ بھی پیش آیا۔مسلمانوں میں اس مذہبی مداخلت کے خلاف بے چینی پھیل گئی اورسارے کشمیر میں احتجاجی عوامی تحریک شروع ہو ئی، اسی حوالے سے خا نقا ہ معلی سرینگر میں ایک بڑے احتجاجی سے عوامی قائدین خطاب کر رہے تھے کہ اچانک ایک نو جوان نے دھواں دار تقریر کی۔اس ساحرانہ اور فکر انگیز تقریر پر اسے گرفتار کیا گیا،اور اس نوجوان کی شناخت عبداقدیر کے نام سے ہو ئی جو موجودہ پاکستان کا رہنے والا تھا ، عبدالقدیر کو سرینگر سنٹرل جیل میں بند کیا گیا اور اس پر مقدمہ چلایا گیا کشمیریوں کی اس نوجوان سے محبت کی انتہا ،یہ روحانی رشتہ،یہ محبت تسلسل سے جاری ہے، جس رشتے کو بھارت کے ظلم و جبر کے پہاڑ بھی توڑ نہ سکا ،بڑی تعداد میں کشمیری اس مقدمہ کی پیروی سننے کیلئے سنٹرل جیل کے ارد گھردجمع ہو ئے،نماز کیلئے موزن نے اللہ اکبر کہا ادھر ڈوگرہ حکمران کے متعصب کارندوں نے گولی چلائی ،لیکن اذان مکمل کر نے دوسرے نے اللہ اکبر کہا وہ بھی شہید ہوا اسطرح بدر سے شروع سفر میں اذان مکمل کر تے ہو ئے اکیس کشمیری مسلمان شہید ہو ئے ۔ اس بر بر یت سے ، جموں و کشمیر کے ہر کو نے میں نئے جوش و جذبے سے شروع ہو ئی، پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی کشمیر کے مسلم اکثریتی خطہ ہو نے کی بنیاد اور مسلم کانفرنس کے قرار داد کے مطابق کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو نا تھا، لیکن 1947-48 میں بھا رت نے قبائلوں کے کشمیر داخل ہونے اور انکی طرف سے قتل غارت گری کے جھوٹے پروپگنڈے کو جواز بناکر کشمیر میں فوج کشی کی ،جبکہ حقیقت یہ ہے جو پوشیدہ رکھی گئی کہ مہاراجہ نے پونچھ،میر پور اور دوسرے علاقوں میں دوسرے متعصب ہندوں مہا راجوں کے تعاون سے فوج کشی کرکے تباہی پھیلادی تھی، یہی فوجی جموں کے مسلمانوں کے قتل عام میں بھی ملوث تھے،یہی وہ عوامل تھے کہ سابقہ کچھ مسلمان فوجیوں اور قبائلوں کومہا راجہ کو سبق سکھانے کی غرض سے کشمیری مسلمانوں کے مدد کیلئے مداخلت کر نی پڑی تھی۔ بھارتی جابرانہ قبضے کے خلاف کشمیری تسلسل سے مصروف عمل ہیں۔ بھا رت کی چا لوں کے توڑ کیلئے فرا ست و دانش کے طریقہ کار پرموجودہ تناظر میں اگر عمل کیا جائے تو مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔تحریک آذادی کو بھارت کے بر عکس بین الاقوامی تناظر میں جدجہد کو پرکھنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عالمی اپروچ،حالات واقعات اور فیصلے تحریک آزادی کو متا ثر بغیر نہیں رہ سکتے لہذا مقامی سیا ست و جد جہد کے طریقہ کار کا اقوام عالم کے لئے قابل قبول لائحہ عمل بھی ضروری ہے ، اس وجہ سے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ مجبو را اقوام عالم کو مداخلت کرنے کا مو قعہ فراہم کر کے اس تحریک کو منظقی انجام تک پہنچا یا جا ئے ۔آر پارآزادی پسندافراد کی اکثر یت کے روز مرہ مسائل و ضروریات کے تنا ظر میں بھی جانچنے کی بھی ضرورت ہے۔کشمیر سے مخلص ذی ہوش زعماء اور کشمیر یوں کے آرزؤں اور درد کو سمجھنے والے آزادی پسند لیڈراں و مفکر مسلہ کشمیرکے حوالے سے ہر پہلوکو سا منے رکھکر مر بوط پروگرام ترتیب دے رہے ہیں،ا ٓر پار اور بین الاقوامی سطح پرمشترکہ طور13 جولائی یوم شہدا منانا اسی پروگرام کی کڑی ہے کیونکہ جذباتی نعرہ بازی یا آنکھیں بند کرکے لفظوں کی بے لذت جگالی کافی نہیں ہے،بلکہ اصولوں ، وحدت و نظریا تی ہم آہنگی کی بنیاد پرایک درست لائحہ عمل اور حکمت عملی کے ذریعے بھارت کے ہر مکر و فریب کو ناکام بنایا جا سکتا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
انجینئر مشتاق محمود کے کالمز
-
قائد اعظم کے مضبوط پاکستان کی شہ رگ
ہفتہ 25 دسمبر 2021
-
27اکتوبر برصغیر کیلئے یوم سیاہ کیوں؟
بدھ 27 اکتوبر 2021
-
رحمت اللعالمین ﷺکی اطاعت و اتباع اور غیر مسلم اکابرین کی حمد و ستائش
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
نئی راہیں و آگاہی مہم ، مسئلہ کشمیر کا حل
ہفتہ 16 اکتوبر 2021
-
یوم دفاع اور پاک فوج کی ذمہ داریاں
پیر 6 ستمبر 2021
-
عالمی دباؤ کا مستحق کون ،طالبان یابھارت ؟
بدھ 25 اگست 2021
-
طالبان فوبیا ، مغرب اور بھاڑے کی مجبوری
ہفتہ 21 اگست 2021
-
14اگست یوم آزادی تجدید عہد۔۔۔۔۔۔
ہفتہ 14 اگست 2021
انجینئر مشتاق محمود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.