13جولائی یوم شہداء کشمیر تجدید عہد

منگل 14 جولائی 2020

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

بھارت کشمیر میں ظلم و بر بریت جبری لاک ڈاؤن ، میڈیا پر قد غن کی آڈ میں ڈومیسائل قانون کے تحت کشمیریت کے خلاف بھی سر گرم ہے، کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر نے کیلئے بھارتی باشندوں کو کشمیر کی شہریت دی جارہی ہے، جو سراسر یو این پر طمائچہ ہے، اسلئے کہ دنیا نے مسلہ کشمیر حل کر نے کی ضمانت دی ہے، جب کشمیر میں بھارتی شہریوں کی اکثریت ہو گی بھلا رائے شماری کا کیا فائدہ۔

لہذا دنیا وا ضع کرلیں اپنی پالیسیوں کو، تاکہ مظلوم و مغلوب ظلم و جبر کے شکار کشمیری دھوکہ میں نہ رہیں ،چھ لاکھ کشمیریوں کی شہادت کے بعد بھی کشمیری یو این او سے پر امید ہیں، اآج وقفے کے بعد پھر حاضر ہوں اس امید کے ساتھ کہ دنیا مسلہ کشمیر حل کر نے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، بھارت نا انصافی سے باز آئیں اور حقائق کو تسلیم کریں کہ ظلم و بر بریت سے تحریک آزادی کشمیر کو دبا یا نہیں جاسکتا، تحریک آزاد ی سے منسلک تمام ادارے ، فورم اور مخلص مدد گار ، ہم جیسے افراد کی گزارشات کو سنجیدگی سے لیں، اسلئے ہمارے مضامین، شاعری یا سوشل پیج میں خیالات ہمارے دل سے نکلی ہوئی مخلص آہیں ہیں، ہم جیسے لوگوں نے ابھی تک اپنی ان محدد صلاحتوں کو روزی روٹی کے برعکس صرف اپنا مشن ہی بنا رکھا ہے۔

(جاری ہے)

گذشتہ کئی دہایئوں سے میرے مضامیں آزاد کشمیر اور پاکستان کے معتبر اخبارات اور اردو پوائینٹ آن لائن اخبار میں شائع ہو رہے ہیں، برہان  کی برسی پر ایک سمینار میں احقر نے وضاحت کی کہ پاکستان ایک جمہوری فلاحی ملک ہے، اللہ گواہ آج تک کسی نے میری کسی تحریر پر اعتراض نہیں کیا یا دباؤ ڈالا ہو، حالانکہ کئی بار پاک حکومتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی، نام نہاد جمہوریت کے چمپین بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں حالات اسکے بر عکس ہیں، وہاں میڈیا پر قد غن ہے۔

لہذا پاک وطن میں کسی بھی شخص کی تحریر کوسٹیٹ پالیسی قرار دینا سراسر نا انصافی ہے ،بھارت؛ اپنے جرائم کو چھپا نے کیلئے پاکستان اور پاک تحریک آزادی کشمیر کو دنیا میں بدنام کر نے کیلئے اوراپنے جرائم کو چھپانے کیلئے تسلسل سے ایسے حربے آزما رہا ہے۔، ہماری آرزو ہے کہ پاک وطن اور بیرونی ممالک میں قوم تقسیم نہ ہو ، ہماری چاہت ہے کہ تمام لٹیروں کا احتساب ہو اور تمام لوٹی ہو رقم واپس پاک وطن میں فلاحی کاموں پر خرچ ہو،سیاسی اختلافات کے باوجوداتحاد و اتفاق ہو اور پاکستان مضبوط سے مضبو ط تر ہو، اسلئے کہ مضبوط پاکستان ہی کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہے، پاک فوج کو بدنام کر نے کی ملک دشمن سازشوں کا قوم ڈٹ کا مقابلہ کریں۔

سپریم کورٹ یا نیب پاک فوج کے ادارے نہیں بلکہ آزادادارے ہیں، زرداری صاحب اسکی بہن پر اور دوسرے افراد پر بھی پر سپریم کورٹ کا توجہ دلانا خو ش آئیدہ ہے، جمہوری اقدار صاف شفاف اور کرپشن فری ماحول میں ہی محفوظ رہتے ہیں ۔ پاک سیاست دانوں کو چاہئے کہ مسلہ کشمیر کے حل کو اپنا نصب العین بنائیں جو ہند پاک کے درمیان دیرنہ اہم و بنیاد ی حل طلب مسلہ ہے۔

کئی مسلم ممالک کے شیرازہ کو بکھیرنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر پاک مخالف سرگرمیوں اور بھارتی پاک دشمن پالیسیوں کو مدنظر رکھکر معاملات و حالات کو بگاڑنے کی بجائے مسلہ کشمیر کے حل اور پاک وطن کے استحکام کیلئے مل جل کر بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت پیدا کریں جسے اخوت اور اتحاد کے قابل یقین ضمانت دینے کے علاوہ ہر خطرے کی بُو سونگھ لینے اورحکمت و دانا ئی سے اس کا دفاع کرنے کا انقلابی شعور بھی عطاء ہو ، کشمیر میںآ زادی پسند لیڈر شپ کا دشمن کے خلاف متحدہ جد جہد کاعزم دہرانامثبت پیش رفت ہے ، اسلئے کہ حق کے مقابلے متحدہ باطل طاقت کے موجودہ راج میں مسلمانوں کیلئے دشمنوں کی سازشوں اور اپنی نادانیوں کی وجہ سے ہر دن قہر ثابت ہو رہا ہے، ان حالات میں میں اتحاد وتفاق اورمسلمان ممالک میں امن و امان انصاف وآپسی بھائی چارگی اور اتحادکی اشد ضرورت ہے ۔


بھارت شرم کرو اور کشمیریوں سے انسانیت اور بھائی چارگی سیکھو، بھارت اپنے ناجائز قبضے کو بر قرار رکھنے کیلئے طلم و جبر کا ہر حربہ آزما رہا ہے۔ کشمیریوں نے ہمیشہ یاتریوں کو مہمان خصوصی اور انکی حفاظت کرنا قومی ذمہ داری قرار دیا۔اسکے برعکس خود بھارتی دانشور و سیاسی و سماجی کارکن و تجزیہ نگار کشمیر میں حالیہ معصوم بچوں کا قتل، خصوصی حثیت کی منسوخی کے بعد لگاتار جبری لاک ڈاؤن بدنام زمانہ پی ایس اے اور این آئی اے کے تحت قائدین سمیت بچوں کو بھارتی جیلوں میں بند رکھنا، عظیم سماجی و انسانی حقوق کے علبردار خواتین قائدین آسیہ اندرابی، نسرین نور اور فریدہ بہن کو دہلی تہار جیل منتقل کرنا صرف اور صرف بھارتی انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کی سیاسی چال قرار دے رہا ہے، جو اپنی ناکامیوں اور جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے کشمیریوں کو قربانی کا بکرا بنا کر آئندہ الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کر ناچاہتے ہیں ۔

بھارت کو تسلسل سے ظلم و جبر پالیسی سے صرف رسوائی ملی،اور مختلف ادوار میں کشمیریوں کی جدوجہد کئی مراحل میں کشمیریوں نے بیش بہا قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔1832 میں منگ موجودہ آزاد کشمیر میں پندرہ کشمیریوں کی کھالیں کھینچی گئی، پھر 13جولائی 1931 سے لیکر آجتک دس لاکھ کشمیریوں نے اپنے بنیادی حق آزادی اور اپنے حقوق کی پاسداری کیلئے جانوں کا نظرانہ پیش کیا ۔

بر صغیر میں ابھی نظریہ پاکستان کی قرار داد بھی پاس نہیں ہو ئی تھی کشمیر میں ہندو ڈوگرہ کے خلاف مسلمانان کشمیراپنے خون سے پاک قرارداد پیش کررہے تھے۔جموں وکشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور حکمران ہندو ڈوگرہ تھا۔متعصب ڈوگرہ حکمران اور انکے کارندوں نے ظلم و جبر کی تمام حدیں پار کی تھی ،کشمیری مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروع کر نا ہندو ڈوگرہ حکمران اور اسکے کارندوں کا وطیرہ تھا ، جموں کی جا مع مسجد کے امام کوخطبہ دیتے ہو ئے مہاراجہ کے اہلکاروں نے روکا،اسکے علاوہ توہین قران کا سانحہ بھی پیش آیا۔

مسلمانوں میں اس مذہبی مداخلت کے خلاف بے چینی پھیل گئی اورسارے کشمیر میں احتجاجی عوامی تحریک شروع ہو ئی، اسی حوالے سے خا نقا ہ معلی سرینگر میں ایک بڑے احتجاجی سے عوامی قائدین خطاب کر رہے تھے کہ اچانک ایک نو جوان نے دھواں دار تقریر کی۔اس ساحرانہ اور فکر انگیز تقریر پر اسے گرفتار کیا گیا،اور اس نوجوان کی شناخت عبداقدیر کے نام سے ہو ئی جو موجودہ پاکستان کا رہنے والا تھا ، عبدالقدیر کو سرینگر سنٹرل جیل میں بند کیا گیا اور اس پر مقدمہ چلایا گیا کشمیریوں کی اس نوجوان سے محبت کی انتہا ،یہ روحانی رشتہ،یہ محبت تسلسل سے جاری ہے، جس رشتے کو بھارت کے ظلم و جبر کے پہاڑ بھی توڑ نہ سکا ،بڑی تعداد میں کشمیری اس مقدمہ کی پیروی سننے کیلئے سنٹرل جیل کے ارد گھردجمع ہو ئے،نماز کیلئے موزن نے اللہ اکبر کہا ادھر ڈوگرہ حکمران کے متعصب کارندوں نے گولی چلائی ،لیکن اذان مکمل کر نے دوسرے نے اللہ اکبر کہا وہ بھی شہید ہوا اسطرح بدر سے شروع سفر میں اذان مکمل کر تے ہو ئے اکیس کشمیری مسلمان شہید ہو ئے ۔

اس بر بر یت سے ، جموں و کشمیر کے ہر کو نے میں نئے جوش و جذبے سے شروع ہو ئی، پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی کشمیر کے مسلم اکثریتی خطہ ہو نے کی بنیاد اور مسلم کانفرنس کے قرار داد کے مطابق کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو نا تھا، لیکن 1947-48 میں بھا رت نے قبائلوں کے کشمیر داخل ہونے اور انکی طرف سے قتل غارت گری کے جھوٹے پروپگنڈے کو جواز بناکر کشمیر میں فوج کشی کی ،جبکہ حقیقت یہ ہے جو پوشیدہ رکھی گئی کہ مہاراجہ نے پونچھ،میر پور اور دوسرے علاقوں میں دوسرے متعصب ہندوں مہا راجوں کے تعاون سے فوج کشی کرکے تباہی پھیلادی تھی، یہی فوجی جموں کے مسلمانوں کے قتل عام میں بھی ملوث تھے،یہی وہ عوامل تھے کہ سابقہ کچھ مسلمان فوجیوں اور قبائلوں کومہا راجہ کو سبق سکھانے کی غرض سے کشمیری مسلمانوں کے مدد کیلئے مداخلت کر نی پڑی تھی۔

بھارتی جابرانہ قبضے کے خلاف کشمیری تسلسل سے مصروف عمل ہیں۔ بھا رت کی چا لوں کے توڑ کیلئے فرا ست و دانش کے طریقہ کار پرموجودہ تناظر میں اگر عمل کیا جائے تو مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔تحریک آذادی کو بھارت کے بر عکس بین الاقوامی تناظر میں جدجہد کو پرکھنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عالمی اپروچ،حالات واقعات اور فیصلے تحریک آزادی کو متا ثر بغیر نہیں رہ سکتے لہذا مقامی سیا ست و جد جہد کے طریقہ کار کا اقوام عالم کے لئے قابل قبول لائحہ عمل بھی ضروری ہے ، اس وجہ سے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ مجبو را اقوام عالم کو مداخلت کرنے کا مو قعہ فراہم کر کے اس تحریک کو منظقی انجام تک پہنچا یا جا ئے ۔

آر پارآزادی پسندافراد کی اکثر یت کے روز مرہ مسائل و ضروریات کے تنا ظر میں بھی جانچنے کی بھی ضرورت ہے۔کشمیر سے مخلص ذی ہوش زعماء اور کشمیر یوں کے آرزؤں اور درد کو سمجھنے والے آزادی پسند لیڈراں و مفکر مسلہ کشمیرکے حوالے سے ہر پہلوکو سا منے رکھکر مر بوط پروگرام ترتیب دے رہے ہیں،ا ٓر پار اور بین الاقوامی سطح پرمشترکہ طور13 جولائی یوم شہدا منانا اسی پروگرام کی کڑی ہے کیونکہ جذباتی نعرہ بازی یا آنکھیں بند کرکے لفظوں کی بے لذت جگالی کافی نہیں ہے،بلکہ اصولوں ، وحدت و نظریا تی ہم آہنگی کی بنیاد پرایک درست لائحہ عمل اور حکمت عملی کے ذریعے بھارت کے ہر مکر و فریب کو ناکام بنایا جا سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :