23مارچ تجدید عہد ۔مضبوط پاکستان، آزادی کشمیر

منگل 23 مارچ 2021

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

 23مارچ 1940مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری دن ہے اس روز مسلمانوں نے اپنے قائد محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کے چونتیسویں سالانہ اجلاس کے موقع پر آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کیلئے قرار داد منظور کی ۔جسے قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، جو 1941میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اسی کی بنیاد پر سات سال بعد 14اگست 1947کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔

پاکستان کے خلاف زہر پھیلانے والوں کو اس منطق کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دو قومی نظریہ کا مفہوم نفرت نہیں محبت ،امن و خوشحالی ہے, ،مگر بد قسمتی سے بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے خلاف سازشوں اورکشمیر پر جابر انہ قبضہ کر کے ہندو امپیریل ازم کے تسلسل کو بر قرار رکھ کر قا ئد اعظم ْ کے محبت و خوشحالی کے تمام دروازے اس خطے کیلئے بند کر دیئے ۔

(جاری ہے)

کشمیر کا تنازعہ بھارت کا اپنا پیدا کردہ ہے اور یہ تنازعہ تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو مسلم اکثریتی آبادی کے با وجود پاکستان کے ساتھ الحاق کا حق نہ دینے سے پیدا ہوا تھا،اسلئے پا کستا ن کے سیا سی ،اخلا قی و سفارتی تعاون کے زیر سایہ تحریک آزادی کشمیر اصل میں تکمیل پا کستا ن کی جنگ ہے لہذاغیروں کی ڈکٹیشن کے ایما ء پر بھا رتی بر بر یت کے شکار کشمیریوں کو انکے حال پر چھوڈنے والے نادان افراد سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کشمیر کے تنازعہ کی بنیاد پر ہی پاکستان اور بھارت کے مابین گزشتہ 72سال سے کشیدگی اور دشمنی کی فضا قائم ہے ،بھارتی جنگی جنون بڑھنے سے اب ایٹمی جنگ کا خطرہ بھی لاحق ہے اور اگر اس جنگ کی نوبت آئی تو پھر اس خطہ میں شاید ہی کوئی ذی روح زندہ بچ پائے گا۔اس لئے اس جنون کو فروغ دے کر بھارت در حقیقت انسانی تباہی کی بنیاد رکھ رہا ہے جس سے بچنے کا یہی واحد راستہ ہے کہ کشمیریوں کو استصواب کا حق دے کر ان کی امنگوں کے مطابق دیرینہ مسئلہ کشمیر کا کوئی قابل عمل اور قابل قبول حل نکال لیا جائے۔

اس کے بغیر پاکستان بھارت دوستی کے معاملہ میں پر امن بقائے باہمی اکا آفاقی اصول بھی کارگر نہیں ہو سکتا،بھارتی ذہنیت اور سوچ ہے جس نے آج تک مسئلہ کشمیر یو این قرار داد وں کی روشنی میں حل نہیں ہونے دیا اور آج بھی دونوں ممالک کے مابین جنگی کیفیت نظر آتی ہے ۔کشمیری عوام نے گزشتہ 72سال سے بڑے صبر و استقامت اور عزم و ہمت کے ساتھ اپنے حق خود ارادیت کی جدو جہد جاری رکھی ہوئی ہے جس کے دوران بھارتی فوجوں کے مظالم برداشت کرتے ہوئے کشمیری عوام اب تک اپنے چھ لاکھ پیاروں کی جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں،لاکھوں مسلمانوں و پنڈتوں کو ہجرت پر مجبور۔

ہزاروں عزت مآب کشمیری خواتین کی عزتیں ظالم بھارتی فوج نے تار تار کی ہیں۔ہزاروں ذہنی و جسمانی اپاہج ،ہزاروں بینائی سے محروم، ہزاروں کالے قوانین کے تحت نظر بند، ہزاروں گمنام قبروں میں کشمیری سپوت دفن ہیں ۔کشمیر کی خصوصی حثییت کی منسوخی کے بعدسارے کشمیر کوفوجی چھاونی میں تبدیل کرکے کشمیریت، انسانیت ،روحانیت داؤ پر ہیں، حق کی آواز دبانے کیلئے ظلم و جبر کا ہر حربہ آزمایا جارہا ہے، ۔

ظلم و بر بریت کے گرداب میں حریت پسند کشمیریوں کے جذبہ حریت اور شوق شہادت پر خراج تحسین کے مستحق ہیں،انشا ء اللہ جلد کشمیریوں کی بے مثال قربانیاں رنگ لائیں گی اور صبح آزدی کا سورج طلوع ہوگا۔ اسلئے کی دنیا نے مسلہ کشمیر حل کر نے کی ضمانت دی ہے اور دونوں ممالک نے وعدے۔
بر صغیر کے مسلما نوں نے خون اور دریا عبور کر کے الله کی نعمت پا کستا ن حا صل کیا ہے،مضبوط پاکستان خطے میں امن کی ضمانت ہے ۔

لہذاء معاشی ودیگر بحرانوں سے نکلنے اور عام لوگوں میں اعتماد بحال کرنے کے لیے ہر ادارے کے اعلیٰ حضرات پاکستان کے لیے ابتداء اپنی تنخواہوں، مراعات و اخراجات کو محدود کر کے کرلیں ،عیش کوشی سے پرہیز کر لیں، وزراء کی فوج کوکم کرنااوراپنے چاہنے والوں کے نام مہنگے پلاٹ الاٹ کرانے کے برعکس ملک میں بے زمین ہاریوں کو زمین ملنا چاہئے۔ اعلیٰ حضرات بیرونی ممالک سے اپنے اکاؤنٹ پاکستان منتقل کر کے پاکستان کو معاشی طور مضبوط بنائیں۔

اس طرح دوسرے سر ما یہ داروں اوراوورسیز کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب مل سکتی ہے۔ رشوت خوری کے خاتمے کے لیے پہلے اعلیٰ حضرات اپنے تمام اثاثہ جات کی تفصیل عوام کے سامنے رکھیں۔ اعلیٰ حضرات او ر میڈیاالله کے غضب اورغریب عوام کی آہوں کو مد نظر رکھ کر رقص و سرور کی محفلوں سے پرہیز کریں، تا کہ یہ تاثر زائل ہو کہ اسلامی عدل و انصاف سے یہ اس لیے خوفزدہ ہیں کہ ان کے تمام لوٹ کھسوٹ اور عیش کوشی کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔


 اعلیٰ مخصوص شخصیات کولاکھوں میں تنخواہیں، مراعات، پلاٹیں اور کروڑوں میں بینک لون کے مستحق سمجھنے کے برعکس عام محنت کش اور مڈل کلاس لوگوں کی تنخواہیں ایسی مقرر ہو، جن سے دو وقت کی روٹی پوری ہو ۔ اگر عام غریب آدمی دو ماہ بجلی کا بل ادا نہ کر سکے تو بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔اور بڑے لٹیروں کے اربوں روپیہ لون معاف کیا جاتا ہے۔یکسان تعلیم کا انتظام نہ ہو نے کی وجہ سے یہ اعلی حضرات اپنے بچوں کو ایسے مہنگے اعلی سکولوں میں داخلہ دلا تے ہیں جہاں کا تعلیمی نصاب عام سکولوں سے مختلف اور بہت ہی اعلی سٹنڈراڈ کا ہو تا ہے ،جس وجہ سے عام پا کستا نیوں کی نئی نسل کیلئے مستقبل میں اپنی قا بلیت کے جو ہر دکھا نے کے راستے مسدود ہو جا تے ہیں۔

کچھ منصف بھی رشوت لیکر عدل کی ڈنڈی کو ٹیڑھا کررہے ہیں اس عدم مساوات و نا انصافی کے خلاف جمہوری جنگ پاکستان کے لیے جنگ ہے۔اس سلسلے میں محب الوطن معاشی،تعلیمی،قانونی ماہرین کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئے۔
پاکستان کے لیے علماء بھی اپنے کردار، گفتار اور عملی زندگی سے بھر پور حصہ لیں۔ اسوئہ حسنہ ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے عدل و انصاف اسلا می مسا وات و سادگی کا عملی نمو نہ بن جا ئیں ۔

جس معاشرے میں کچھ لوگ ڈسٹ بِن سے روٹی تلاش کریں ، مخلص عالم دین میری محدود علم کی بنیا د پر فتویٰ صادر کر سکتے ہیں کہ مہنگی گاڑیوں اور محلوں کی شریعی طور ایسے غریب معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔ علماء،و دانشور اسلامی اقدار کے مطابق انسانی زندگی کی قدر و منزلت سے روشناس کرائیں۔ عدل و انصاف کے فروغ کے لیے اعلی کرسیوں پر بیٹھے علماء کو چاہیے کہ اپنی مراعات حکومت کو واپس کر دیں اور غریبوں کے مسائل حل کرنے کی حکومت کو ترغیب دیں، جو موجودہ کرپشن سسٹم کے خاتمہ، یکساں تعلیم، زمینی اصلا حا ت،تنخواہوں و مراعات میں فرق کے خاتمے سادگی اور آزاد عدلیہ اسلام کے فلاحی نظام سے ہی ممکن ہے۔

موجودہ حکمران پارٹی کا منشور اور بنیاد ہی انصاف،برابری، غریب پر وری کے عملی اقدامات اسلامی عدل ہے۔ اس وجہ سے اب بھی مسائل و مصائب کے گرداب میں پھنسے غریب عوام موجودہ حکومت سے مثبت امیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔ مظلوموں کو سرداروں، وڈیروں، قبضہ گروپوں، سیاسی و مذہبی اجارہ داروں سے نجات دلانا بھی پاکستان کی خدمت ہے۔کیو نکہ یہ اپنے مسلح کارندوں کے بل بوتے پر نجی جیل خانوں میں غریبوں کو محدود کر کے اُن سے بیگار لے رہے ہیں۔

جو حکومت کی رٹ کو کھلے عام بڑے شہروں میں چلینج کر رہے ہیں لہذاء ایسے بدمعاشوں سے غریب عوام کو نجات دلانا بھی پاکستان کی جنگ ہے۔ پاکستان کے لیے سماجی و سیا سی جنگ میں مربوط لائحہ عمل اور حکمت عملی کی ضروت ہے۔ حکمران طبقہ منطقی دلا ئل۔دلچسپ بیا نات اور ولولہ انگیز تقریروں ، جو اصل واقعات کی حقیقتوں سے بہرہ اندوز نہ ہوں، کے بر عکس پا کستا ن کے بنیا دی مقا صد کو مد نظر رکھکر ایک عاد لا نہ اسلامی فلا حی ریا ست کے قیام کیلئے اپنی کو تا ہیوں کی اصلا ح کر لیں اور اپنے اختیا رات، وعدوں اور جمہو ریت کے با رے میں ان کے متعلق جو غلط فہمیاں پا ئی جا رہی ہے قوم کے سا منے ان کی وضاحت کر لیں۔

اسلئے کہ بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے اس مملکت خداد اد کا قیام ایک تحفہ خدا وندی ہے۔حکمران طبقہ علامہ اقبال  اور قائد اعظم محمد علی جناح  کے فکر و عمل کے عین مطابق کشمیر کی آزادی اور پاکستان کو ایک جدید اسلامی ،جمہوری اور فلاحی مملکت کے طور پر تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں اور قوم عظیم جدو جہد میں ایک دوسرے کے دست و باز و بنیں اور رہنمائی فرمائیں۔

مدینہ منورہ سے پاکستان تک کا سفر 14سو برسوں میں طے ہوا،سب نے مل کر پورا ک یعنی کشمیریوں کو ملا کر پاکستان کو بنانا ہے اور شہداء کی قربانیوں سے بنائے ہوئے اس گلستان کو محبتوں کا مرکز اور امن کا گہوارہ بنانا ہے۔پاک مٹی سے محبت اور اس کی خاطر قربانی دینے کیلئے ہمیں ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔نظریہ پاکستان اسلام سے وفا کا نام ہے۔قوم عہد کریں جس طرح اپنے عقیدے سے پیار کرتے ہیں اسی جذبے سے اس ملک سے بھی پیار کریں گے۔

اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اس ملک کی حفاظت کریں۔جو جذبہ شہداء میں تھا وہ ہی جذبہ اس ملک کو بچانے کیلئے اپنے اندر پیدا کرنا ہے ۔اللہ تعالیٰ کشمیر سمیت پاکستان کو قائم و دائم رکھے ۔ غفلت کو دور کریں تو ایک بہت روشن اور خوبصورت مستقبل پاک وطن کا منتظر ہے۔پاکستان کا مستقبل پاکستان کیلئے قر بانی دینے والوں اور نظریہ پاکستان کے فروغ دینے والے روشن ضمیر لوگوں کی وجہ سے بہت روشن ہے اورمضبوط پاکستان کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :