مرے وطن کا خدا ہے حافظ

منگل 2 نومبر 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

لاہور سے شروع ہونے والا تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ وزیر آبادکے مقام پر موجود ہے اور اب تک پولیس سے اس قافلے کے شرکا کی پرتشدد جھڑپوں میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے وفاقی حکومت سے مذاکرات میں ناکامی کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کیا ،پولیس اہلکاروں اور تحریکِ لبیک کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جبکہ کارکنوں نے مبینہ طور پر پولیس کی کم از کم سات گاڑیوں کو بھی قبضے میں لے لیا ہے۔

مارچ کو روکنے کے لیے اسلام آباد کی جانب جانے والی شاہراہوں پر بھی جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں سڑک پر بڑے بڑے گڑھے کھود کر راستے بند کر دیئے ہیں۔

(جاری ہے)


موجودہ انتہائی نازک صورت حال میں قومی استحکام اور خوبصورت پاکستان کے لئے اپوزیشن ،قومی اور علاقائی تنظیموں کو حکومت سے اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرقومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مہنگائی اور بے روز گاری کا رونا چھوڑ دے ، تحریک انصاف کی حکمرانی سے قبل یہ ہی دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکمرانی کے خلاف یہ ہی رونا رو تی ر ہی ہیں آج دونوں مل کر تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے لئے آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں جماعت اسلامی جو سیاسی آئینے میں نہ تین میں ہے اور نہ تیرا میں ہے قومی سیا ست میں خود کو زندہ رکھنے کے اپنی بانسری بجا رہے ہیں،
تخت ِ اسلام کے لئے عوام کو بے وقوف بنائیں اپنا اپنا رونا روئیں اپنی اپنی بانسریاں بجائیں لیکن شاہراہ ِ جمہور یت پر کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو بھی نظر انداز نہ کریں ، تخت اسلام آباد کہیں نہیں جا رہا پہلے پاکستان کو سوچیں ، زمینی حالات کی سنگینی میں قومی دشمن اور وطن ِ عزیز میں ان کے پرستاروںکی آنکھوں میں اترے خون کو سوچیں۔

اس لئے کہ قصہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری اور ٹی ایل پی کے قا ئد کی رہائی تک محدود نہیں ، مذہب کی آڑ میں بھڑکائی جانے والی آگ کو ایندھن فراہم کرنے والے قومی دشمن کو بھی سوچناہے !
ضمیروں کی ہے اب سوداگری دشمن ہی جانے
لگی ہے کیا مرے سر کی کوئی قیمت نہ پوچھو 
محب وطن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کے پس منظر میں جو واقعات کارفرما ہیں، اچھا ہوتا کہ وہ پیش نہ آتے۔

رینجرز، پولیس اور دیگر اہلکاروں سمیت کسی کا بھی جانی نقصان ہو یا املاک زد میں آ ئیں ، ان کا نتیجہ اس ملک پر ضرب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جودین اسلام کے نام پر قائم ہوا جبکہ اپنے مطالبات کیلئے مارچ یامظاہرے کرنے والے بھی اسی رسول کے پیروکار ہیں جس کا لایا ہوا دین قیام پاکستان کی بنیاد بنا اور دشمنوں کے تمام حربے ناکام بناتے ہوئے نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ ایٹمی طاقت بن کر عالم اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے۔

اس لحاظ سے اس ملک یا قلعہ کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کے وسیع تر مضمرات کا تصور کیا جاتا ہے۔
ریاست کسی کواپنی عملداری میں مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اس اعتبار سے حکومت اور ریاست میں بسنے والے افرادکے تمام طبقوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے دائروں میں رہتے ہوئے ریاستی بقا کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیں۔ دباﺅ کے ہتھکنڈوں سے اجتناب کریں اور ریاست کو ایسے اقدامات پر مجبور نہ کریں جو ملکی مفاد سے متصادم ہوں۔

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ نے جو فیصلہ کیا اس سے ایک روز قبل فوجی و سول قیادت صورت حال کا جائزہ لے چکی تھی۔ کابینہ اجلاس کے بعد دی گئی پریس بریفنگ میں واضح کیا گیا کہ ریاست کی عملداری کو چیلنج کرنا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
کالعدم تنظیم کو حکومت سے کیا شکایتیں ہیں اور حکومتی وزرا کالعدم تنظیم کے طرز عمل کو کس زاویئے سے دیکھ رہے ہیں، یہ ان کے بیانات سے واضح ہے مگر درپیش صورتحال میں مظاہرین میں کلاشنکوف برداروں کی شمولیت بھی ایک سوال ہے۔

پاکستان کے سیکورٹی ادارے ماضی میں القاعدہ جیسی عسکری تنظیموں کے مقابلے میں اپنی کامیابیوں سے دنیا کو متاثر کرچکے ہیں تاہم موجودہ منظر نامے میں یہ بات سب ہی کو ملحوظ رکھنی ہوگی کہ نقصان کسی جانب سے بھی ہو پاکستانیوں ہی کا ہے۔ ہمارے جید علما اور دانشوروں سمیت تمام دردمند حلقوں کو صورتحال میں بہتری کے لئے اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لانا چاہئے۔ اس لئے کہ
مرے وطن کا خدا ہے حافظ ،وگرنہ حالت کوئی نہیں ہے
مثال ِ جنت سے گل وطن میں عذاب لوگوں کی زندگی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :