مفاہمتی فرمان ۔۔۔این آر او

جمعرات 11 اپریل 2019

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

آج کل این آر او کا ہر طرف شور ہے ہم این آر اونہیں لے گے دوسری طرف سے جواب آتا ہے ہم آین ار آو نہیں دے گے اور پھر این آر او دے بھی دیا جاتا ہے اور لے بھی لیا جاتا ہے جس کی زندہ مثال جنرل پرویز مشرف(ر) کی ہے ویسے رکیی جناب یہ آ ین ار او ہے کیا آپ اس کو کوئی بھی مطلب دے یا حقیقت میں اس کا کوئی بھی مطلب بنتا ہو پر ہمیں تواس کا مطلب ایسے ہی لگتا جسے وڈاتھانیدار ستر کی ڈھائی میں مغلیہ شہنشاہ کی طرح اپنے تھانے میں دربار سجائے اپنی موج میں بیٹھے یک دم کسی مجرم کوکہتا ہیں کہ جاؤ میں نے تمہیں آزاد کیالیکن وہ جو مال تم نے لوٹا ہیں اس میں سے جو حصہ سرکارکا بنتا ہیں وہ بذریعہ میرے ادا کرے تاکہ تمہاری آزادی سے سرکار کو بھی اننانے حکومت چلانے کے لیے کچھ حاصل ہو جائے یہ بھی ایک این آر او ہی ہوتا تھا اس طرح ہم مسائل کے مارے عوام جب پہلے ایک دوسرے کو چور ،ڈاکو،فراڈیا کہتے سنتے ہیں اور پھر ستر کی ڈھائی کے تھانیدار کے طرح اسی چور، ڈاکو، اور فرراڈیا سے بارگیلنگ کرکے اسے کلین چٹ دے دی جاتی ہیں تو ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ چور اور ساد کے درمیان یہ ہی این آر او ہے اور مذاق کی بات یہ کہ ہر پانچ سال کے بعد ڈاکو ،ساد اورساد ،ڈاکو، بن جاتا ہے احتساب کے نام پراین آر اوچلتا رہتا ہے یعنی آج دو پانچ سال بعد لو ویسے فقرہ تو ٹھورا سا مشکل ہے لیکن پاکستان میں فلسفروں کی کمی نہیں جو اپنی بات ایک آنکھ مار کردوسرے کو سمجھا سکتے ہیں وہ بھلا یہ بات کیسے نا سمجھے گے کیا غریب آدمی کو بھی کبھی غربت سے این آر او مل پائے گا ویسے مذرت کے ساتھ این آر او دینے والے اور لینے والے جو ہرروز پرنٹ میڈیا اور الیکٹرنک میڈیا پر اس کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں اگر وہ حقیقتاً ہی محب وطن ہیں عوام سے ہمدردی رکھتے اور سیاست کو واقع ہی عبادت سمجھتے ہیں تو انھیں میں مسلمانیت کے نام پر درخواست کرتا ہوں کہ خدا کے لیے عوام کو سچ سچ بتائے کہ حقیقت کیا ہے کس نے ان سے این آر او مانگا ہے اورکس نے دیا ہے اور کس کس نے ان سے لیا ہے کہتے ہے کہ یاست میں کوئی بند گلی نہیں ہوتی شائد اسی لیے این آراو دینے والا دفتر آج تک بند نہ ہو سکا میرے الفاظ شائدبے ربط لگے تو یہ سوچ کر کہ میں بھی انسان ہو ں اور خطاکار ہوں اور غلطی کا پتلا ہوں قارئین مجھے بھی این آراو دے دو ٌبعض لوگ سوچتے تو ہوگے جن کو معلوم نہیں کہ این آر او کیا ہے آئے روز کس این آر او کا واویلاکیاجا رہا ہے چلے آپ کوبتا ہی دیتے ہے کہ این آر او کیا ہے کن معزذین کے لیے لایا گیا اورر اسپیشل اس کوکہاں لایا گیا یہ نایاب نسخہ آتے ہی کرپشن، لوٹ ماراور تمام مقدمات کو ایسے غائب کرتا ہے جیسے گنجے کے سر سے بال غائب ہوتے ہے ہاں ایک بات میں یہاں بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ اس غلط فہمی میں نا رہیں کہ یہ ہر خاص عام کے لئے ہے بلکہ یہ این آر او چند اور صرف خاص لاڈلوں کے لے ہوتا ہے این آر او وہ قومی مفاہمتی فرمان ہے اس صدارتی فرمان کو کہتے ہے جو 2007ء میں لایا گیا اس کو (ر) جنرل پرویز مشرف صرف اور صرف امریکہ کے کہنے پر اس فرمان کو لایا کیوں کہ امریکہ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کا حامی تھااور ان کی سیاسی مفاہمت برقرار رکھنے کے لیے جاری کیا گیا یہ مفاہمتی ہتھکڑی (چال بازی) جنوبی افریقہ کی سیاست سے استعار اکٹھا کیا گیا تھا جس میں سیاہ فام حکومت نے سابقہ گورے حکمرانوں کے ظلم معاف کر دیئے تھے 2009ء میں جب صدر مملکت جناب آصف علی زرداری تھے انھوں نے اس فرمان کو پارلیمان کے سامنے پیش کرکے قانونی منظوری کا اہتمام کرنا چاہاکہ اس قانون کے تحت یکم جنوری 1982ء سے لے کر 12اکتوبر 1999ء کے دوران جتنے لوٹ مار ،کرپشن،اور تمام نویت کے مقدمات ختم کروا نے چاہے پر اس فرمان کے خلاف حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے عوامی رائے ہموار کرنے کا بیان دیا عوامی اور سیاسی مخالفت کی وجہ سے مفاہمتی فرمان کے اس قانون کا مسودہ پارلیمان سے منظوری لینے کے لیے پیش نا کرنے کا فیصلہ کیا گیا مستفد سیاست دان جن میں سر فہرست محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ مرحومہ ، جناب آصف علی زرداری ، الطاف حسین (ایم کیو ایم) کے ،گورنر سندھ عشرت العباد ،رحمان ملک ، حسین حقانی ، تھے ان کو اس وقت کی موجودہ حکومت قومی مفاہمت کے جوش دلی کے تحت معافی دلوانے میں پیش پیش تھی ان کے علاؤ پاکستان کے مجالس قانون ساز کے 182، اراکین،قومی اسمبلی کے152 اور سینٹ کے 34 اراکین شامل تھے ان معززین کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی ، متحدہ قومی مومنٹ اور، پیپلز پارٹی شیر پاؤ گروپ سے تھا اس سیاہ صدارتی حکم سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اپنے تمام جرائم معاف کروائے اور مختلف انوسٹی گیشن سرکاری محکموں کی رپورٹ کے مطابق اٹھ ہزار افراد سے زائد اس فرمان سے مستفد ہوئے اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمی کے منصف اعظم نے ازحود نوٹس لیا اور حکومت کو 28 نومبر تک کا ٹائم دیا اس فرمان کو پارلیمان سے منظور کروانے کا لیکن موجودہ حکومت حزب اختلاف جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے پارلیمان میں منظور کروانا تو دور بات تھی بلکہ پارلیمان کے جلاس میں پیش بھی نا کر سکی اور جب دی ہوئی مدت کا ٹائم گزار جانے کے بعد یہ مفاہمتی فرمان ترک ہوگیا دسمبر 2009 ء میں عدالت عظمی کے منصف اعظم جناب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے اس فرمان کے سلسلہ میں دی جانے والی درخواستوں کی باقاعدہ سنوائی کے لیے بڑا محکمہ تشکیل دینے کا فیصلہ دیا اور 7 دسمبر 2009 ء کو قومی احتساب ادارہ کی طرف سے مستفدین کی فہرست عدالت عظمی میں پیش کی گئی 16 دسمبر2009ء کو فرمان کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمی نے فیصلہ دیا اس قومی مفاہمتی فرمان کو آغازمتروک اورعدیمہ قرار دیتے ہوئے اس فرمان کو آئین سے متصادم قرار دیا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ سنایا کہ اس فرمان کی وجہ سے ختم ہونے والے تمام تر مقدمات کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور موجودہ حکومت کو ہدایت بھی کی گئی کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹر لینڈ میں دائر مقدمات جنھیں اس مفاہمتی فرمان کے باعث واپس لے لیے گئے تھے ان کو دوبارہ کھولنے کی درخواست دائرکرے اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے مستفدین کی زیادہ ترتعداد بھی اسی جماعت سے ہی تھی اس لیے موجودہ حکومت نے نظر ثانی کی درخواست دائر کی لیکن عدالت عظمی نے نومبر کو یہ درخواست خارج کر دی عوامی حلقوں میں اس عدالتی فیصلہ کو بہت مقبولیت ملی اور اس کو بہت اچھا فیصلہ قررار دیا گیا بعض مغرب نواز حلقوں میں اس کو انتقامی اور سیاسی قررار دیا گیااس فیصلے کے آتے ہی حکومت نے عدلیہ کے خلاف معاذ ارئی شروع کر دی اس فیصلے کے اگلے ہی دن وزیردفاع مختار احمد جو کہ اس فیصلے کی زرد میں آئے تھے کو بیرون ملک جانے سے روکنے پر وزیرعظم یوسف رضا گیلانی نے 2 سرکاری افسران کو معطل کر دیا اور مفاہمتی فرمان کا بھرپور دفاع کیا جس کو عدالت اعظمی کلعدم قرار دے چکی تھی فضاء ایسی قائم کی جاری تھی کہ حکومت عدلیہ کا فیصلہ ماننے کوغیر سنجیدہ ہے حکومتی سطح پر بہت بڑی بیٹھک ہوئی اور اس میں فیصلہ یہ تہہ پایا کہ نا ہی ملزمان وزراء اپنے عہدوں سے استعفاء دیں گے اور نا ہی مخفف کیے جائیں گے ایک عرصہ تک حکومت نے عدالت کے حکم پر عملدآمد کی بجائے لاتولات سے کام لیتی رہی اس دوران پیپلزپارٹی کی حکومت کے حوصلے بلند ہوئے اور انھوں نے تحقیقاتی ادارو ں میں اپنے من پسند آفسران کو بیٹھا لیا اور ان کو صاحب ہمت کرکے عدالتی فیصلوں پر کوئی کاروائی عمل میں نہ لانے دی ان کے حوصلوں کی بات یہاں تک ختم نا ہوئی بلکہ قومی احتساب بیورونے عدالت میں ہی پیشی کے دوران اولوالعزم کے تحت کہہ ڈالا کہ منصف اعظم کی بحالی غیر قانونی ہے اور عدالت کو اس ادارہ کی نگرانی کا کوئی اختیار نہ ہے جس کے بعد عدالت اعظمی نے ستمبر کو وزیر قانون کو عدالتی فیصلہ پر من وآن عملدرآ مد پر تین دن کے اندر جواب داخل کرانے کا حکم دیا پر حکومت کے کانوں سے جوں تک نہ رینگی 2011ء کو عدالت اعظمی نے بعذریعہ عدالتی حکم قومی احتساب بیورو کے سربراہ کواس کے منصب سے ہٹا دیا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹرلینڈ میں مقدمات کو دوبارہ کھولنے کے لیے عدالتی حکم کے مطابق خط لکھنے سے انکار کر دیا تھا جس پر عدالت نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے نوٹس پر طلب کیا مگر یوسف رضا گیلانی بطور وزیراعظم اپنے نقطہ نظر پرڈٹے رہے جس پر عدالت نے انھیں مجرم قرار دیتے ہوئے3o سیکنڈ کی موقع پر ہی عدالتی کٹھیرے میں کھڑے رہنے کی سزا سنادی اس طرح عدالت اعظمی کے مطابق اس نے قانون کی بالا دستی قائم کی ایک بار پھر این آر او کی باتیں ہورہی ہیں پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور وسان نے دعوَی کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو این آر او مل چکا ہے اب میڈیکل بنیادپر ضمانت مل جانے کے بعد بیرون ملک چلے جائے گئے وزیراعظم کے معاون خاص افتخار درانی نے بھی اشارہ دیا ہے کہ حکومت عدالت کی گائیڈلائن کو فالو کررہی ہے نواز شریف کا صحت کا معاملہ انسانی ہے اس سے قبل ملک سے باہر سابق صدر آصف علی زرداری او ر (ر) جنرل مشرف براستہ ہسپتال ہی گئے تھے اور نواز شریف کے ہسپتال جانے سے بھی ایسی باتیں ہی کی جارہی ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ این آر او ہو چکا ۔

(جاری ہے)

۔؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں اچانک موجودہ حا لات کا تبدیل ہونا حکومتی نمائندوں کا سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیماری کو انسانی معاملہ قرار دینا وزیراعظم عمران خان کا پہلے این آراو نہیں دوں گا این آر او نہیں ملے گا کی گردان کرنا او ر پھر خود ہی کہنا کہ مجھے این آر او کے لیے بلیک میل کیا جار ہیں پھر یہ بھی کہنا کہ اپوزیشن لیڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے لیے مجھے بلیک میل کیا جا رہا ہے میں شہباز شریف کو کبھی پی اے سی کا چیئرمین نہیں بناؤں گا یہ دودھ کی رکھوالی بلے کے حوالے کرنے کے مترادف ہوگا لیکن بات پھر یہ ہی ہوئی سب نے دیکھا کہ شہباز شریف ہی کوپبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بناناگیا یعنی کہ یہ بلیک میل ہو گئے ان کی کون سی کمزوری ہے جس کے سبب ان کو بلیک میل کیا جا رہا ہے اور یہ صاحب ہو رہے ہیں جن کے ہاتھ صاف ہو ان کو کوئی بلیک میل نہیں کر سکتا اور # کچھ ہی دنوں بعد وزیراعظم نے ایک اور بیان دیا کہ شریف خاندان کو این آراو نہ ملتا تو منی لانڈرنگ ختم ہو جاتی بد قسمتی سے حدیبیہ کیس میں ملنے والے این آر او کو آئندہ تمام کیسز میں ماڈل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے کا بیان دینا سابق وزیراعظم نواز شریف کی اچانک بہت زیادہ صحت بگڑنا میڈیا پر شور مچنا مریم نواز کا ہر طرح کے بیان سے گریز کرنا سانحہ ساہیوال کو پس پشت ڈال کر سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت کیلئے فکر مند ہونا میڈیا پر پل پل کی خبروں کا آنا ان کے بازو میں شدید درد کا ہو جانا اور سانس لینے میں میں تکلیف ہونا درد ناک انداز میں خبریں پیش کرنا اچانک ہی مزید منظر بدلنا اورسروسز ہسپتال منتقل کرنا اور ان کو وہاں پروٹوکول دینا اور چند روز بعد میاں نواز شریف کی میڈیکل بنیادوں پر ۶ ہفتوں کے لیے ضمانت کا منظورہونا اور اب چند ہی دنوں میں یہ بھی خبر سننے کو ملے گی کہ میاں نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک چلے گئے اور شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیاہے این آر او دینے کی اور مضبوط وجوہات میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لڑکھڑاتے پا ؤں ہیں تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت سنبھل نہیں پا رہی سابق صدر آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاکستان میں موجودگی کو بھی حکوت کے لیے سب سے بڑا ذخطرہ سمجھا جارہا ہے اگر یہ بیرون ملک جاتے ہیں تو حکومت پانچ سال مکمل کرتی ہے موجودہ حکومت میں زیادہ وزراء کی تعداد جو کہ پہلے (ر) جنرل پرویز مشرف کی جماعت میں تھے بعد میں پی ٹی آئی میں آئے ہیں پر بات و ہ ہی ہے کہ یہ این آر او کے ذریعے بیرون ملک چلے جائے اور حکومت آرام سے اپنی مدت پوری کرے یعنی کہ این آر او ہو گیا یعنی وزیراعظم کی طرف سے بھی سب ٹھیک نہیں پی ٹی آئی کی قیادت کی تاریخ ر ہی ہے کہ ہمیشہ شور مچاتی ہے معاملے کی بلندی پر جاکر ،یوٹرن، لے لیتی ہے وزراء کے چہروں پر موجود بے چینی بھی یہ ہی بتاتی ہے کہ اس بار بھی ایسا ہوتا نظر آرہا ہے اگر کپتان کے سابق دعووں کو مد نظر رکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا یہ این آر او نہیں تو اورکیا۔

۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :