بجٹ 2019۔20، کرپشن اور عمران خان کا قوم سے خطاب

جمعرات 13 جون 2019

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

پی ٹی آئی حکومت نے ۷۰ /کھرب ۳۶/ ارب کابجٹ برائے سال۲۰۱۹۔ ۲۰ء قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔بجٹ میں۳۶ کھرب کا خسارہ بتایا گیا۔یہ پی ٹی آئی حکومت کا پہلا بجٹ ہے۔سراج الحق صاحب سینیٹر اور امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ بجٹ تو آئی ایم ایف کا ہے۔ صرف پیش پی ٹی آئی نے کیا ہے۔کیوں نہیں کہیں کہ بجٹ بنانے والے تمام حضرات آئی ایم ایف کے ملازمین ہیں۔

ان ہی آئی ایم ایف سے ۶ /ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ بھی کیا۔اپوزیشن نے بجٹ کی کاپیاں پھاڑدیں۔ اسپیکر کا گہراؤ کیا ۔گو گو نیازی کے نعرے لگائے اوربجٹ کو مسترد کر دیا۔ لگتا ہے کہ یہ سب نواز اور زردادی کرپشن بچاؤ مہم تھی۔ عوام کے مسائل کا کسی کو فکر نہیں۔ اصل اپوزیشن جماعت اسلامی ہے ۔جس نے مہنگائی اور کرپشن کے خلاف ملک گھیر آگاہی کا آغاز ۱۶/ جون سے لاہور سے کرنا کا اعلان کر رکھا ہے۔

(جاری ہے)

 ویسے پاکستان کا بجٹ کیا ہوتا ہے بس بجٹ تماشا ہوتا ہے۔ جو گذشتہ ۳۵ سال سے پیپلز پارٹی اور نواز شریف اپنے اپنے دوراقتدار میں پیش کرتے آئے ہیں۔یہ بجٹ سالوں سے غریب عوام کے نام سے دونوں پارٹیاں پیش کرتی رہی ہیں۔ عوام اسے تماشا نہ کہیں تو کیا کہیں۔ ان بجٹوں کی وجہ سے پاکستان کے غریب،غریب تر ہوتے رہے اور حکمران امیر سے امیر تر ہوتے رہے۔

عوام کو بجٹ کاگو رکھ دھندہ سمجھ ہی نہیں آتا۔ایک وقت تھا کہ گھر کا ایک فرد نوکری کرتا تھا اور پورے خاندان کا کفیل ہوتا تھا۔اب گھر کے سارے افراد کام کرتے ہیں اورگھر کا بجٹ پھر بھی پورا نہیں ہوتا۔
 عوام کی پریشانی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔مہنگائی زروں پر ہے۔ گو کہ اس بجٹ میں نیچے گریٹ کے حکومتی ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں ۱۰/ فی صد کا اضافہ کیاہے اور۲۱۔

۲۲ گریٹ میں کچھ بھی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ فوج نے بھی دفاحی بجٹ میں کسی اضافے کا مطالبہ نہیں کیا۔مگر عوام پر۱۱ /کھرب کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے جس مہنگائی مزید بڑھے گی۔ عوام کی مشکلوں میں اضافہ ہو گا۔ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔جس دن ملک سے کرپشن کلچر ختم ہو گیا اس دن سے ملک خوشحال ہو تا جائے گا۔
ہمارے حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کرپشن میں ملوث ہیں۔

کتنے شرم کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے زرداری دور میں دوسرے ممالک سے جو امداد ملتی تھی وہ کرپشن کی نظر ہوجاتی تھی۔ ایک وقت آیا کی بیرون ملک والے کہنے لگے کہ ہم پیپلز پارٹی کی حکومت کو امداد نہیں دیں گے وہ کرپٹ ہیں۔ ہم خودبلاواسطہ پاکستانی عوام کو امداد دیں گے۔ اس طرح وہ اپنی من پسند این جی اوزکے ذریعے امداد تقسیم کرتے رہے۔ 
امریکی این جی او سیف دی چلذرن نے اسی امدادسے ملک دشمن سرگرمیاں کیں۔

بچوں کوویکسین پلانے کے لیے اپنے جاسوس بھرتی کیے۔ ان جاسوسوں نے ایبٹ آباد میں گھر گھر جا کر اسامہ بن لادن کو تلاش کیا۔ ڈاکٹرشکیل آفریدی اس مہم کا انچارج تھا۔ جو پاکستان سے غداری کا مرتکب ہوا۔ اب ملک و قوم میں بدنامی کے ساتھ ساتھ سزا بھگت رہا ہے۔ ایسی اور درجنوں این جی اوز ہیں جو بیرونی سرمایا سے ملک پاکستان میں جاسوسی کر رہی ہیں۔

 غریب عوام کی مدد کر نے کے بہانے ان کے ذہن تبدیل کر رہے ہیں۔ بے حیائی پھیلا رہی ہیں۔ان ہی این جی اوز کی عورتیں پبلک پلیسز پر پلے بورڈ پکڑے کھڑی ہوتی ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے ۔میرا جسم ،میں جیسے استعمال کروں میری مرضی۔ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے دردی ہے۔ ہم ابو جہل کا دن منائیں گے کیونکہ وہ سب سے بڑا قوم پرست تھا۔یہ سب بیرونی امداد کے شاخسانے ہیں۔

نہ ہی ان ملک دشمنوں کو کرپشن کا پیسا ملے اور نہ ہی وہ ملک دشمن سرگرمیوں ملوث ہوں۔
ددسری طرف سیاستدانوں نے سیاست کو انڈسٹری کا درجہ دے دیا ہے۔ سیاست میں انوسٹمنٹ کرتے ہیں پھر واپس کئی گناہ منافعے کے ساتھ کرپشن کر کے وصول کرتے ہیں۔ ایک کروڑ لگاؤ۔ الیکشن جیت کر ایک ارب کماؤ کا ریٹ چل رہا ہے۔جس سیاسی پارٹی کا وزیر اعظم بنتا ہے اُس کے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔

دوسری طرف منی لانڈرنگ کے ذریعے کرپشن کا پیسہ باہر منتقل کر دیتے ہیں۔لانچوں کے ذریعے پیسے باہربھیجتے ہیں۔ماڈلزگرل کے ذریعے ڈالر باہر منتقل کرتے ہیں۔ پان والے،ریڑھی والے اور لسی والے کے جعلی اکاؤنٹوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ 
 نواز شریف صاحب سے اگر کوئی معلوم کرتا ہے آپ کی آمدنی سے اخراجات زیادہ ہے تو ملک کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کہتے ہیں آپ کوکیا تکلیف ہے اگر میرا رہن سہن میری آمدنی سے لگاؤ نہیں کھاتا۔

کیا زرداری اور نواز شریف کے اثاثے باہر نہیں۔ کیا وہ عدالت سے کرپشن ثابت ہونے پر سزا نہیں کاٹ رہے۔ اب زرداری کو نیپ نے جیل میں بند کر دیا۔مہذب دنیا میں کسی سیاسی لیڈر پر کرپشن کا الزام لگ جائے تو وہ پانی پانی ہو جاتا ہے۔ اور ہمارے سیاست دان وکٹری کا نشان بنا کر جیل جاتے ہیں۔کیا عوام کو نہیں پتا کہ نواز شریف ، شہباز شریف اور زرداری نے ملک کو لوٹا۔

عمران خان صحیح ہی تو کہتا ہے کہ دس سال کے اندر ملک ۲۴ /ارب ڈالر کا مقروض ہو گیا۔۶ /ارب ڈالر سے ۳۲/ ارب ڈالر قرضے کیسے پہنچ گئے۔ عمران خان نے اس پر ایک خود مختیارکمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کہ دیکھا جائے یہ قرضوں کا پیسا کہاں گیا۔ عمران خان نے بجٹ کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب میں حکومت میں آیا تو۳۲/ ارب ڈالر قرضے کا سود ادا کرنے چین،سعودی عرب اور قطر سے قرض مانگ کر پاکستان کو دیوالہ ہونے سے بچایا۔

 
اب ۶ارب ڈالر آئی ایم ایف سے قرضے کا معاہدہ کیا تاکہ ملک کے اخراجات پورے ہوں۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ حکومت کی مدد کرنے کے بجائے کہتے ہو، کہ تم تو کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ بندہ خود کشی کر لے۔ اللہ کے بندوں تمھارے کرتوتوں اور تمھارے وقت کے قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینے کے مجبوراً آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑھ رہاہے۔

 
عمران خان نے کہا کہ میرے ملک کے غریب عوام کا جینا پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے لیڈروں نے حرام کر دیا ہے۔میں نے اب ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا۔ اب میں سارا وقت تم دونوں سے عوام کا ہڑپ کردہ پیسا نکالوں گا۔ عمران خان نے کہا کہ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے مقدمے قائم کیے تھے۔ دونوں نے ملک کر نیب کا چیف لگایا تھا۔

میں نے نہ نیب کا چیف لگایا نہ ہی کرپشن کے مقدمے قائم کیے۔ دونوں پارٹیوں نے میثاق جمہورت کیا تھا۔ اصل میں وہ کرپشن میں ایک دوسرے کو نہ پکڑنے کا میثاق تھا۔عمران خان نے سختی سے کہا کہ ملک سے کرپشن ختم کر کے رہوں گاچاہے میری جان چلی جائے۔ 
واقعی اس ملک سے اگر کرپشن ختم ہو جائے تو یہ ملک عظیم بن سکتا ہے اور یہ کام عمران خان نے اپنے سر لے لیا ہے۔مگر ہم عمران خان وزیر اعظم صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کام کے ساتھ ساتھ ملک کے غریب عوام کے سروں سے مہنگائی کے عذاب کو ٹالنے کی بھی کوششیں جاری رکھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :