مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جماعت اسلامی کے حکومت کو مشورے

ہفتہ 26 اکتوبر 2019

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے حکومت کو مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کے لیے اعلانیہ کچھ مشورے دیے ہیں۔ لگتا ہے حکومت ان مشوروں پر عمل نہیں کرنے کے لیے تیار نہیں۔حکومت کو مشوروں سے پہلے جماعت اسلامی کو کشمیر اور امت مسلمہ کی خیر خواہ ثابت کرنے کے لیے، پہلے جماعت اسلامی کی جد وجہد کا ذکر کرتے ہیں۔ کیا واقعی ہی جماعت اسلامی، کشمیر سے مخلص بھی ہے یا محض سیاسی اسکورنگ کے لیے حکومت کو ایسے مشورے دے رہی ہے۔

یہ بات پورے پاکستان ،کشمیر اور مسلمانوں کے دشمن جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہی کشمیر اورملت اسلامیہ کی حقیقی پشتی بان اور خیر خواہ ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابو اعلیٰ موددی نے اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اسلام کی اساس پر رکھی ہے۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی کا بنیادی کا م صرف سیاست ہی نہیں بلکہ اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے اپنی جد وجہد کرنی ہے جس میں کشمیربھی شامل ہے۔


جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ اللہ کی طرف سے جنتے بھی پیغمبر  اللہ کی مخلوق، یعنی حضرتِ انسان کی فلاح بہبود کے لیے ،اللہ کی طرف سے آئے، ہر پیغمبر  نے وقت کے لوگوں کو کہا کہ میں جوتمھاری اصلاح کی لیے تکلیفیں برداشت کر رہا ہوں۔مجھے اس کام کے لیے تم سے کوئی اجر نہیں چاہیے۔ یہ ہی بات جماعت اسلامی اپنے کارکنوں کو سمجھاتی ہے کہ صرف اللہ کی خوش نودی کے لیے سیاست کرو اپنی ذات کے لیے نہیں۔

پیغمبر  کہتا ہے کہ میرا اجرمیرے رب کے پاس محفوظ ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی اپنے ممبران کو یہ سمجھایا ہے ۔ اس کا کوئی بھی ممبر اقتدار میں آکرپلاٹ،پرمٹ، نوکر ی اورا قرباپروری کے حصول کے لیے کو شش نہیں کرتا۔ بلکہ جماعت میں شریک ہوکر اپنے رب سے اجر کی خواہش رکھتا ہے۔ اسی وعدے پر وہ جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہے۔جماعت کے ارکان اسی کا عہد ،عام اجتماع میں حلف اُٹھا کر کرتے ہیں۔

پیغمبر کہتا ہے کہ میں صادق اور امین ہوں۔ یعنی خیانت کار نہیں ہوں ۔ تمھارے اموال کی نگرانی کے دوران میں خیانت نہیں کروں گا۔ الحمد اللہ جماعت کے ممبران اقتدار میں رہ کراپنا صادق اورصادق ہونا ثابت کر چکے ہیں۔ پیغمبر  کہتا ہے کہ اللہ نے مجھے تمھاری اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔میرا کام اللہ کے احکاما ت تمھارے تک پہنچانے ہیں۔میں بھی اللہ کے احکامات پر عمل کرتا ہوں تم بھی اللہ کے احکامات پر عمل کرو۔

جماعت اسلامی اوّل روز سے پاکستان میں حکومت الہٰیا قائم کرنے کے مشن پر لگی ہوئی ہے۔ پیغمبر  نے لوگوں سے کہا کہ اللہ فرماتا ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ اللہ کے احکامات پر عمل کرتے، یعنی اپنے اپنے ملکوں میں حکومت الہیٰا قائم کرتے تو اللہ آسمان ست رزق نازل کرتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔لہٰذا تم میرے کہنے پر چلوں اور اللہ کی زمین میں اللہ کے بتائے ہوئے نظام حکومت چلاؤ۔

اسی قرآنی احکامات پر عمل کرتے ہوئے، جماعت اسلامی لوگوں کو اپنی جماعت کی طرف یا اپنے لیڈروں کی طرف نہیں بلاتی، بلکہ صرف اللہ کی طرف بلاتی ہے۔ اللہ کے حکم کے مطابق ہمارے پیارے پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی، فلاحی، جہادی ریاست قائم کر کے دکھائی۔ جس کے حاکم خود رسولاللہ تھے۔ داخلہ ، خارجہ، مقننہ، امور ریاست کے سارے محکمے رسول اللہ کے پاس تھے۔

ریاست کا خزانہ ریاست کی مخلوق کا تھا۔ رسول اللہ کی مدینہ کی ریاست میں جنتا بھی مال دولت آتی تھی، وہ اسی دن حقداروں کے درمیان تقسیم کر دی جاتی تھی۔ پانیچ وقتا نماز کا نظام قائم تھا۔
مسلمانوں کی معاشی فلاح و بہبود کے لیے زکوٰة کا نظام قائم تھا۔ انسانوں کے درمیان عدل و انصاب کے لیے تعزیرات کا نظام قائم تھا۔ انسان ہونے کے ناتے سارے انسان برابر تھا۔

لوگ خوش حال تھے ہر طرف امن و امان تھا۔ ریاست عوام کاخون نہیں نچوڑتی تھی بلکہ عوام کی خیر خواہ تھی۔
 سید مودددی نے جماعت اسلامی کے قیام سے پہلے محسوس کیا کہ ایسا نظام حکومت دنیا میں کہیں بھی قائم نہیں۔ اگرپاکستان میں ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو انسانیت دکھوں سے بچ جائے۔اسی سوچ کے مطابق جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی۔

جماعت کا کارکن بننے کے لیے سخت معیا رکھا ۔ جماعت کے کارکن لوگوں کے مسائل فی سبیل اللہ حل کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس کا اجر عوام سے نہیں بلکہ اپنے اللہ سے چاہییں۔جماعت کے ممبران سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی،بلدیات کے میئر اور حلقے کے ناظم یعنی سب کے سب اپنا صادق اور امین ہونا ثابت کرچکے ہیں۔ کہیں بھی کسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں رہے۔

بلکہ اب تو سپریم کورٹ نے بھی ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی دفعہ ۶۲۔۶۳ کو اگر سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں پر لاگو کیا جائے تو صرف جماعت اسلامی کے امیر ہی اس پر پورا اُتر سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی نے پاکستان کو بچانے کے لیے مشرقی پاکستان میں بھارت فوج کا پاکستانی فوج سے مل کر جنگ کی۔ پاکستانی فوج کی مدد کی پادائش میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کئی مرکزی لیڈروں کو بھارتی غلام، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد، پھانسیوں پرلٹکا چکی ہے۔

جماعت اسلامی نے افغانستان کے جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاجس سے چھ اسلامی ریاستیں آزاد ہوئیں۔مذہب بیزارروس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کی مدد کرنے کا بدلہ بھی لے لیا۔کشمیر،بوسینیا، چیچنیا،برما،دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں کی مدد کی۔ خود پاکستان میں قدرتی آفتوں میں مسلمان بھائیوں کی مدد کی۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو کشمیر پاکستان کا فطری،اخلاقی، قانونی ،تہذیبی ۔

ثقافتی ، معاشرتی اور خود بھارت کے تسلیم شدہ تقسیم ہندکے بین الاالقوامی فارمولے کے تحت پاکستان کا حصہ ہے۔ جب کشمیریوں نے جنگ آزادی شروع کی تو بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ،جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ گئے اور کشمیریوں کو بین لاقوامی طور پر تسلیم شدہ حق خوداداریت دینے کا وعدہ اقوام متحدہ میں کیا۔ مگر وزیر اعظم بھارت بعد میں اپنے وعدے سے مکر گئے۔

جبکہ کشمیر کوآئینِ بھارت میں خصوصی دفعہ ۳۷۰ /اور ۳۶ /اے دے کر عارضی طور پر اپنے ساتھ ملائے رکھا۔ اب بھارت کی ہٹلر طرز کی قومی برتری کی بنیاد پر قائم ، دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے بنیادی رکن اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ان خصوصی دفعات کو غیر آئینی طور پر ختم کے کے کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ کر، عملاًکشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا۔

کشمیری تکمیل پاکستان کی جنگ ۱۹۴۷ء سے لڑ رہے ہیں۔کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔وہ ہر سال بھارت کے یوم آزدی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اور پاکستان کے یوم آزادی کو پاکستان کے ساتھ مل کر مناتے ہیں۔ کشمیری ا پنے شہیدوں کو پاکستان کے قومی سبز جھنڈے میں لپیٹ کر دفناتے ہیں۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔

۱۹۴۷ء سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کر چکا ہے۔ گیارا ہزار کشمیری عزت ما آب بے قصور عورتوں سے بھارت فوجیوں نے اجتمائی آبروزیزی کی ہے۔ اقوام متحدہ میں اس پر تفصیل بیان کرتے ہوئے غیر مسلم فردنے دنیا کے سامنے آنسو بہائے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے جو مشورے حکومت پاکستان کو دیے ہیں وہ حقائق کی بنیاداور کشمیریوں سے خیرخواہی کے طور پر دیے ہیں۔

اس میں سیاست کادخل بل لکل نہیں۔حکومت کوان پر عمل کرنا چاہیے تھا۔مگر حکومت نے عمل نہیں کیا۔ عمران خان نے آزاد کشمیر میں کشمیریوں سے یکجہتی کا جلسہ کیا۔ اس جلسے میں پاکستان کی ساری سیاسی و مذہبی قیات عمران خان صاحب کے ساتھ ہوتی تو مودی کو سخت ترین پیغام پہنچتا ۔مگر وزیر اعظم کشمیر بارے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر پر ہی خوش ہے۔ عملاً کوئی بھی اقدام نہیں کرر ہے۔


صاحبو! مودی کی چال کا توڑ ا، کشمیر کی پشتی بان جماعت اسلامی کے امیر نے اپنی شوریٰ کے مشورے سے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب کومندرجہ ذیل اقدام کرنے کے مشورے دیے ہیں۔ اگر حکومت پاکستان ان اقدامات پر عمل کرے تو ہم دنیا میں کشمیر کا مقدمہ بہتر طریقے سے لڑسکتے ہیں۔نمبر:۱۔ عمران خاں پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں بین الاقوامی کشمیر کانفرنس منعقد کراکے بھارتی فوج کی سفاکیت ،تین ماہ سے جاری کرفیو اور موددی کے غیر قانونی عزاہم سے آشکار کرتے۔

مگرحکومت ابھی تک ایسا نہیں کر سکی۔ اب امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق صاحب نے پریس کانفرنس کر کے اعلان کیا ہے کہ وہ ۴ ۔ ۵ نومبر کو بین الاقوامی کشمیر کانفرنس خود منعقد کرنے کے انتظامات کر رہی ہے۔نمبر ۲:۔آزاد کشمیر کی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کی سیاسی لیڈر شپ کو شامل کر پوری کشمیر کی نمائیدگی مکمل کی جائے۔اس سے دنیا کے سامنے کشمیر کی نمائیندہ حیثیت سامنے آئے گی۔

نمبر۳:۔کشمیر کی یہ پارلیمنٹ اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے نیویارک میں اپنااجتماح کر کے، دنیا سے حق خود ارادیت کا اپنا بنیادی حق پوراکرنے کامطالبہ کرے۔نمبر۴:۔ آزاد کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم صاحب کو پور ے کشمیر کا وزیر اعظم مانا جائے وہ ہی کشمیری پارلیمنٹ کا اجلاس اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے منعقد کرائے۔نمبر۵:۔ لین آف کنٹرول پر جو بھارت نے جنگ پرپاہ کی ہوئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہمارے شہری شہید ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔اے کاش کہ موجودہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور پوری سیاسی قیادت اور پاکستان کے عوام کو ساتھ ملا کو کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ سے دعا ہے کہ کشمیر کو آزادی کا دن دکھائے ۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :