اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے درمیان ڈائیلاگ

ہفتہ 24 اکتوبر 2020

Mohammad Bashir

محمد بشیر

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے درمیان بڑہتی ہوٸ کشیدگی کے تناظر  میں اس بات پر زور دیا ھے کہ عسکری اور سیاسی شخصیات کو اکٹھے بیٹھ کر ایک ایسا چارٹر بنانا ہوگا جو ملک کو موجودہ بحران اور ٹکراٶ کی کیفیت سے نکال سکے کیونکہ طاقت اور ہٹ دھرمی کے اس کھیل کو منطقی انجام تک پہنچانا ازحد ضروری ہوگیا ھے۔

ایک ٹی وی انٹرویو میں ایک سابق أرمی جنرل نے بھی فریقین کے درمیان ڈاہیلاگ کی ضرورت پر زور دیا ھے۔  سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی أپس کی لڑاٸ نے ایک طرف معیشت کی کشتی کو بھنور میں ڈال دیا ھے اور دوسری طرف بیرونی دنیا خصوصا“ بھارت میں اسے مذاق کا نشانہ بنایا جارہا ھے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ھے کہ ہماری اشرافیہ أنکھیں بندھ کٸے اپنی اپنی ڈفلیاں بجانے میں مصروف ھے. یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ اس بڑھکتی ہوٸ أگ پر کون پانی ڈالے گا۔

(جاری ہے)

دور دور تک کوٸ ایسی غیر متنازعہ اور غیر جانبدار شخصیت دکھاٸ نہیں دیتی جو فریقین کے درمیان ثالثی کراسکے۔ بدقسمتی کی بات یہ ھے کہ پاکستانی نظام حکومت میں بےتحاشہ جاہ و جلال اور طاقت اور پروٹوکول کے نشے نے اعلٸ عہدوں پر فاہز شخصیات کے مزاج کو بگاڑ کر رکھ دیا ھے جس کی وجہ سے ہر ایک اپنے أپ کو عقل کل سمجھنے ہوٸے  اپنے داہرہ کار سے باہر نکل کر دوسروں کے امور میں مداخلت کرنے میں مصروف ھے۔

اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کو مفاد پرست, بدعنوان  اور ناتجربہ کار سمجھتی ھے جبکہ سیاستدان طاقتور حلقوں کی حکومتی امور میں بےجا مداخلت پر نالاں دکھاٸ دیتے ہیں۔ ماضی میں طاقت کے اس کھیل میں عدلیہ بھی شامل رہی ھے  افتخار محمد چوہدری اور میاں ثاقب نثار  بطور چیف جسٹس اپنی تعیناتی کے عرصے میں ایگذیکٹو کے  امور میں دخل اندازی کرتے رہے۔

دونوں شخصیات ہر دوسرے دن   اعلٸ سرکاری افسران, وزرا اور چیف منسٹر صاحبان کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے اور ان کی تذلیل کرکے خوشی محسوس کرتے۔ سپریم کورٹ میں مقدمات کی بھرمار ہونے کے باوجود موصوف أٸے دن ہسپتالوں کے دورے کرتے رہتے جیسے وہ چیف جسٹس نہ ہوں وزیر صحت ہوں۔
 2018 کے عام انتخابات کے بعد وزیراعظم کا منصب اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں کافی  حد تک پسپا ہوچکا ھے۔

عمران خان پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے سب سے کمزور وزیراعظم کی حیثیت رکھتے ہیں۔  ان کی بعض اہم  ذمہ داریاں أرمی چیف نے سنبھال رکھی ہیں۔ موجودہ حکومت جس طرع اور جس چور دروازے سے اقتدار کے ایوان تک پہنچی ھے وہ اظہر من اشمس ھے۔ اسی وجہ سے عمران خان خاموشی اختیار کٸے ہوٸے ہیں۔ انہیں اپنے اختیارات چھن جانے کا کوٸ افسوس نہیں۔
طاقت کا  ایک ایسا ہی مظاہرہ چند دن پہلے کراچی میں نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے وقت دیکھا گیا۔

صبح سویرے چند ”نامعلوم“ افراد نے سندھ پولیس کے أٸ جی کو اغوا کرنے کے بعد ان سے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے وارنٹ پر دستخط کراٸے ۔ اس واقعے نے ایک طرف قانون اور أہین کی دھجیاں اڑا دیں اور دوسری طرف سندھ پولیس کے مورال کو ڈانواں ڈول کردیا۔ علاوہ ازیں  سندھ کی مہمان نوازی کی اعلٸ راوایات کو بھی بری طرع پامال کیا گیا. کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے وقت مریم نواز اپنے شوہر کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں موجود تھیں اور  پولیس نے  مہمان خاتون کی عزت کا بھی لحاظ نہیں کیا اور دروازہ توڑ کر ان کے کمرے میں داخل ہوگٸ۔

یہ بہت شرمناک  اور افسوس ناک صورتحال تھی جو ریاست کے لٸے ایک بدنما داغ بن گٸ ھے۔  بلاول بھٹو زرداری نے ایک نیوز کانفرس سے خطاب کرتے ہوٸے  شریف خاندان سے دلی افسوس اور معذرت کا اظہار کیا اور دوسری طرف أرمی چیف سے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس افسوس ناک واقعے کی وجہ سے سندھ میں خطرناک حد تک بحران کی کیفیت پیدا ہوچکی ھے اور پولیس کے کٸ افسران نے اس نازک صورتحال میں کام کرنے سے معذرت کرتے ہوٸے لمبی چھٹیوں کی درخواستیں جمع کرادیں ہیں۔

ماضی میں عام افراد کے علاوہ صحافت پیشہ لوگوں کو تو اغوا ہوتے تو سنا تھا لیکن کسی صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کو اغوا ہو جاہیں یہ پہلی بار سنا ھے۔ کراچی میں پیش أنے واقعہ دونوں فریقین کے درمیان کٸ عشروں سے جاری جنگ کا  کلاہمکس سین ھے ۔
جیسا کہ کالم کے شروع میں اس بات کا ذکر ہوچکا ھے کہ طاقت کے نشے میں أکر بعض شخصیات اپنے أپ کو دانا اور برتر سمجھتی ہیں جس کی وجہ سے اداروں کے درمیان محاذ أراٸ کی کیفیت پیدا ہونے کا احتمال رہتا ھے۔

کراچی میں پیش أنے والا حالیہ واقع اس سلسلے کی ایک کڑی ھے۔ مقتدر حلقوں اور سیاستدانوں نے اگر فہم و فراست کا مظاہرہ نہ کیا اور معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش نہ کی تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں أٸے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ اس بحرانی کیفیت سے کیسے نبروأزما ہوا جاٸے تاکہ جگ ہنساٸ سے چھٹکارہ مل سکے ۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ھے جب تک فریقین اپنی ضد اور انا کے خول سے باہر نہیں نکلیں گے۔

جب تک قومی مفاد کو ذاتی مفاد پرترجیح نہیں دی جاٸے گی۔ جب تک جوش کے بجاٸے ہوش سے کام نہیں لیا جاٸے گا۔ جب تک عوامی مساہل کو ترجیح نہیں دی جاٸے گی اس وقت تک  مساہل کم ہونے کے بجاٸے بڑہتے رہیں گے اور ملک کے معاشی , اقتصادی اور معاشرتی امور کبھی بہتری کی طرف نہیں جاہیں گے۔ ملک کی معاشی صورتحال اس وقت شدید ابتری کا شکار ھے اور معاشی امور کے ماہرین کے مطابق أہیندہ 6 ماہ میں صورتحال مذید ابتر ہونے کا اندیشہ ھے۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت موجودہ صورتحال سے پریشان دکھاٸ دیتی ھے۔
اس وقت تمام کالم لکھنے والوں کا موضوع نواز شریف کا بیانیہ اور پی ڈی ایم کے جلسے اور مقتدر قوتوں اور سیاستدانوں کی لڑاٸ کے گردگھومتا ھے لیکن اس سنگین مسہلے کا حل کوٸ نہیں پیش کرتا۔
بالادست قوتیں ماضی کے مقابلے میں اب بڑی حد سیاسی اور انتظامی امور  پر حاوی ہوچکی ہیں۔ اسی لٸے سول راج یا مکمل جمہوریت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا جوٸے شیر لانے سے کم نہ ہوگا۔ ایک کالم نگار کے مطابق کراچی واقعے کے بعد سول بالادستی کی طرف ہزاروں میل کا سفر اب شروع ہوچکا ھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :