نئے آئی جی سندھ کو درپیش چیلنجز

جمعرات 5 مارچ 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

نئے آئی جی سندھ پولیس مشتاق مہر کی تقرری کے بعد جو پریس ریلیز وزیراعلیٰ سندھ کے آفس سے جاری ہوئی وہ بہت دلچسپ دکھائی دی۔ جس میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ نئے تعینات آئی جی پولیس مشتاق مہر نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کی اور ان سے اپنی نئی تقرری کے حوالے سے ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت طلب کی۔


یہ اپنی نوعیت کا دلچسپ واقعہ ہوسکتا ہے۔ عموماً ماضی کی روایت رہی ہے کہ ایسی کسی اہم پوسٹ پر تقرری کے بعد، اعلیٰ انتظامی عہدے پر موجود شخصیت سے ملاقات کرکے ہدایات لی جاتی ہیں، لیکن یہاں معاملہ کافی حد تک شاہانہ لگتا ہے۔ ایسا تاثر ظاہر ہوا کہ جیسے کوئی بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر ہوا اور پھر کام کرنے کی اجازت طلب کی اور پھر ہدایات لے کر کورنش بجا لاتے ہوئے رخصت ہوگئے۔

(جاری ہے)


بہرحال اگر اس طرح وزیراعلی سندھ کی تشفی ہوئی ہو اور وہ آئی جی آفس کو اسی انداز سے کام کرنے پر بہتر خیال کرتے ہوں اور اس کے اثرات امن و امان کے قیام میں معاون و مددگار ہوتے ہیں تو صوبہ کے عوام کیلئے ایک خوشخبری سے کم نہیں۔
نئے تعینات ہونے والے آئی جی پولیس کو بہت سے مسائل کا سامنا ہوگا ۔ سب سے پہلے تو انہیں محکمہ پولیس کے افسران کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔

یقینا ایسی ٹیم جو صوبے میں امن و امان کے حوالے سے گذشتہ حالات سے بہتر کارکردگی دکھا سکے اور ساتھ ہی ساتھ برسراقتدار پارٹی کے اراکین اسمبلی کی امیدوں پر پورا اُتر سکے۔
ایک بڑا چیلنج جو نئے آ ئی جی پولیس کیلئے دکھائی دیتا ہے، وہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں کراچی بدامنی کیس ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب نئی صورتحال میں وہ عدالت عظمی کو کس طرح مطمئن کرپاتے ہیں۔


نئے آئی جی پولیس مشتاق مہر ایک باصلاحیت آفیسر ہیں، وہ آئی جی پولیس ریلوے بھی رہ چکے ہیں۔ کراچی سٹی پولیس چیف بھی تعینات رہے، موجودہ ذمہ داری ان کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سندھ حکومت اور وفاق میں اس سے بہتر تعلقات کی نوید بھی سنائی دیتی ہے۔
کرونا وائرس کی گونج چین اور ایران سے پاکستان میں داخل ہوئی تو ایک متاثرہ شخص کا تعلق کراچی سے بھی نکلا جو ایران سے پاکستان پہنچا تھا۔

اسی دن الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا نے ایک سراسیمگی پھیلادی ، اس پر سندھ حکومت نے فوری اقدامات کیے اور وفاقی حکومت کا کوئٹہ اور تفتان بارڈر پر متحرک اور فعال ہونا بھی بہتر ثابت ہوا ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ چین میں جب سے کرونا وائرس سے ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا نجانے پاکستانی میڈیا نے اموات کی خبروں کو بہت نمایاں طور پر کیوں پیش کیا، حالانکہ چین کے ساتھ ہماری بہت زیادہ تجارت موجود ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ایک عرصہ تک صحت یاب ہونے والے متاثرین کی تعداد نہیں بتائی جارہی تھی، فقط متاثرین اور اموات کو زیادہ نمایاں کرکے پیش کیا گیا۔
سندھ حکومت کا بے جا طور پر اسکولوں کو بند کرنے کا اعلان شہریوں کی طرف سے غیر ضروری قرار دیا جارہا ہے، کیونکہ کراچی میں تمام تقریبات معمول کے مطابق ہورہی ہیں، کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور ماسک پہنے بغیر لوگوں کا ایک دوسرے سے ملاقاتوں کا سلسلہ عروج پر رہا۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک میں پی ایس ایل کے میچ بھی جاری ہیں۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی میں ہونے والا کوئی میچ منسوخ نہیں کیا گیا، جو کہ خوش آئند ہے۔
کرونا وائرس پر اقدامات بہتر دکھائی دیئے، لیکن سکھر میں ریلوے ٹریک پر پاکستان ایکسپریس اور مسافر کوچ کی ٹکر سے ہلاکتیں ہوئیں، حیرت کی بات تھی کہ سکھر جیسے بڑے شہر میں سول ہسپتال میں ایمرجنسی کی سہولتیں ناکافی دکھائی دیں۔


پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان نے ریلوے حادثات کی وجہ وزیر ریلوے شیخ رشید کی نحوست قرار دیدی، حالانکہ اگر ان کی کارکردگی پر بات کرتے تو بہتر ہوتا۔ اگر یہ نظریہ درست ہے تو پھر پورے ملک کے مسائل کی وجہ گذشتہ کئی دہائیوں سے کس کس کی نحوست کی وجہ سے حل طلب ہیں۔ بعض راہنماؤں کا تنقید کا معیار بھی اتنا گر گیا ہے جس میں منطق نام کی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔


کراچی کے سابق میئر نعمت الله خان ایڈوکیٹ ایک تاریخی شخصیت جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ جماعت اسلامی کے شعبہ خدمت کو بھی انہوں نے اپنے دن رات ایک کرکے ایک اعلیٰ معیاری ادارہ بنایا۔ میئر کراچی کی حیثیت سے بہت سے منصوبے شروع اور مکمل کیے۔ وہ ایمانداری اور حب الوطنی کی اعلیٰ صفات کے ساتھ ساتھ ایک بے لوث شخصیت تھے۔ میئر کا عہدہ بہت ایمانداری سے نبھایا ، یہی وجہ ہے کہ ان کے بعد ان پر کوئی الزام نہیں لگایا جاسکا۔

کراچی میں بہترین ٹرانسپورٹ مہیا کرنا ان کا ایک خواب تھا، لیکن ان کے میئرشپ کے عہد میں کام مکمل نہ ہوسکا، اگر انہیں سیاسی مخالفت کا بے جا سامنا نہ ہوتا تو شاید کراچی سرکلر ریلوے وہ اپنے دور میں شروع کروادیتے ، ان کے جانے سے ایک شاندار عہد کا خاتمہ ہوا۔
ایک اور سابق میئر کراچی سید مصطفی کمال جنہوں نے اپنی نئی سیاسی جماعت پر بہت کام کیا ہے، اب ایک مضبوط تنظیم کی صورت میں نظر آنے لگی ہے۔

پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے خواتین کا ایک بڑا جلسہ کیا گیا ہے، بڑے پیمانے پر خواتین کی شرکت سے یہ واضح ہورہا تھا کہ ایم کیو ایم کی تنظیمی کمزوری کی وجہ سے پی ایس پی اپنا رنگ جمانے میں کافی حد تک کامیاب ہوگئی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اگر بلدیاتی الیکشن سے پہلے ایم کیو ایم کو اپنے دفاتر کھولنے کی اجازت مل گئی تو پھر پی ایس پی اپنی موجودہ حیثیت کس حد تک برقرار رکھ پائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :