پاکستان کی سرحدوں پر بگڑتے حالات

جمعرات 7 مئی 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

قیام پاکستان سے لے کر آج تک شاید ہی کوئی عرصہ ایسا گزرا ہو کہ جس میں مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سکون کی کیفیت طاری رہی ہو۔دنیا کے حالات جیسے بھی ہوں ہماری یہ دونوں سرحدیں ہر وقت کشیدگی کا مرکز رہتی ہیں۔اس وقت بھارت کے ساتھ بین الاقوامی سرحد سندھ اور پنجاب میں مجموعی طور پر تقریبا 3323 کلومیٹر طویل ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان کنٹرول لائن کی لمبائی تقریبا 740کلومیٹر ہے۔

پاکستان اور بھارت کی سرحد مشرق میں واقع ہے جبکہ ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول قدرے شمال میں ہے۔ساتھ ہی شمال میں کشمیراور گلگت بلتستان سے پاکستان کی سرحد چین سے ملتی ہے اور اس سرحد کی لمبائی تقریبا 600 کلومیٹر ہے۔ افغانستان کے ساتھ بھی پاکستان کی طویل سرحدی پٹی ہے۔

(جاری ہے)

خیبر پختونخوا ہ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ سرحد کی مجموعی لمبائی تقریبا 2640 ہے یہ لائن 1893 میں برطانوی سیکرٹری ڈیورنڈ نے کھینچی تھی اس لئے اس سرحدی لائن کو انہی کے نام سے منسوب کیا گیا۔

ایران کے ساتھ پاکستانی سرحد کی لمبائی تقریبا 959 کلومیڑ ہے۔اعدادوشمار سے ہٹ کر بات کی جائے تو پاکستان افغانستان اور بھارت کی جانب سے کبھی بھی سکون میں نہیں ہوا۔ان دنوں جب کہ پوری دنیا کرونا سے نبرد آزما ہے۔ باہمی طور پر دوستی دشمنی کا معیاربھی بدل چکا ہے۔امریکہ اور چین آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔روس اور امریکہ میں روابط بہت بہتر ہو رہے ہیں۔

بہت سے ملکوں میں سیاسی حریف ایک دوسرے کے حلیف بنتے جارہے ہیں۔بین الاقوامی سیاسی منظر پر ایسی حیران کن تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے جارہی ہیں جن کا عام حالات تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے دونوں ہمسائے تعصب ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی میں اس حد تک آگے جاچکے ہیں کہ خطہ میں وبائی مرض کے باوجود سر حدوں پر پر کشیدگی بڑھانے سے باز نہیں آرہے۔

اس وقت خطہ میں بے یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔پاکستان کے اطراف میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔کئی بین الاقوامی جریدے اس بات کی پیشنگوئی کرچکے ہیں کہ آنے والے چند ماہ میں پاکستان اور بھارت کے مابین شدید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔یہاں تک کہ کرونا جیسی بیماری کو بھی انہوں نے مسلم دشمنی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے مسلم اقلیت کا قتل عام شروع کر رکھا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں حالات انتہائی ناگفتہ ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں کرونا متاثرین کو طبی سہولتیں دینے کے بجائے ان کو گولیاں ماری جارہی ہیں۔ خوراک دینے کے بجائے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت پابند سلاسل ہے۔بھارت کے اندر اور مقبوضہ کشمیر میں میں انسانی حقوق کی پامالی کاسلسلہ روز بروز تیز ہو رہا ہے۔غیرجانبدار ذرائع اس امر پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں کہ بھارت ان سنگین حالات میں بھی مسلم دشمنی سے باز نہیں آرہا اور اقلیتوں کی نسل کشی کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے جس طرح معمول کے حالات میں جاری تھا۔

لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بھی بڑھ چکی ہے۔روزانہ فائرنگ معمول کی بات ہے۔بھارت کی طرف سے پاکستان کی سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔بچے بوڑھے جوان مرد و خواتین بھارت کی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے بھارتی دراندازی کا منہ توڑ جواب دیا جارہا ہے۔بھارت میں جانے والی فوجیوں کی لاشیں بھارتی شہریوں کے اندر ایک اصطراب کی کیفیت پیدا کر رہی ہیں۔

لیکن اس ساری صورتحال کا نتیجہ انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔بھارت کی طرف سے کسی بھی مہم جوئی کا نتیجہ ایک سنگین جنگ کی صورت میں نکلے گا جو پورے خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوت سے مالامال ہیں اور اگر کسی مرحلے پر اس طرح کے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا یا تو ایک ایسی تباہی آئے گی جس کا تصور بھی محال ہے۔اس وقت کی بھارتی قیادت مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی میں اس حد تک اندھی ہوچکی ہے کہ وہ کوئی بھی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے۔

بھارت کی کئی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں شدید بے چینی اور اضطراب ہے جس کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت کی طرف سے سرحد پر کسی بھی قسم کی مہم جوئی خارج از امکان قرار نہیں دی جاسکتی۔مسلح افواج کے ترجمان کے مطابق پاکستان کی افواج بھارتی دراندازی کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔لیکن عالمی طاقتوں کو اس بات پر نظر رکھنا ہوگی کہ پوری دنیا اس وبائی مرض سے مقابلے کر رہی ہے لیکن یہ واحد ملک ہے جو وائرس سے مقابلہ کرنے کے بجائے کشمیریوں اور پاکستان کی سویلین آبادی کو مسلسل گولہ باری کا نشانہ بنا رہی ہے۔

آنے والے مہینے انتہائی خطرناک ہیں۔دفاعی ذرائع کے مطابق بھارت میں بڑے پیمانے پر جنگی سامان کی نقل و حرکت کی جارہی ہے بھارت کو یہ بات سمجھنا ہو گی بھی کہ جنگ کی صورت میں دونوں ممالک بے پناہ نقصان سے دوچار ہونگے جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔
    دوسری طرف افغانستان کے اندرونی حالات بھی خوش کن نہیں ہیں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے میں بھارتی لابی کی شکست نے انکو تلملا کر رکھ دیا ہے۔

اس معاہدے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔افغان رہنما عبداللہ عبداللہ کے مسلسل اشتعال انگیز بیانات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ اس امن معاہدے کو سبوتاز کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے میں پاکستان کے عام کردار بھارت کو ہضم نہیں ہو رہا لہذا وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے افغانستان میں مسلسل بدامنی میں مصروف ہے۔

حالیہ امن معاہدے نے بھارت اور بھارتی ارمی کو پاکستان میں اپنی کامیاب خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی حالات کے ساتھ مل کر غیرموثر کر دیاہے۔افغانستان میں اس وقت انتہائی کمزور حکومت قائم ہے۔جو خود کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔مختلف قبائلی گروہ طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔بھارتی لابی مسلسل اس بات کی کوشش میں مصروف ہے کہ پاکستانی سرحد پر کشیدگی کو فروغ دیا جائے۔

پاکستان کی مسلح افواج نے انتہائی جانفشانی کے ساتھ پوری افغان سرحد پر طویل باڑ لگا کر جہاں پر ایک ریکارڈ قائم کیا وہاں پر بھارتی دراندازوں کے لئے بھی تمام راستے مسدود کر دیے۔۔تقریبا 2400 کلو میٹر طویل ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگائی جا چکی ہے۔ اس لیے افغان سیکیورٹی فورسز بوکھلا کر ایسی کاروائیاں کرنے میں مصروف ہیں جس سے پاکستان کو اشتعال دلایا جا سکے اور سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہو۔

لیکن پاکستانی افواج کے ذمہ دارانہ طرز عمل کی وجہ سے ابھی تک کوئی بڑا نقصان دیکھنے میں نہیں آیا۔ باڑ لگانے کے دوران پاکستانی افواج نے جانوں کی قربانیاں پیش کیں اور ایک ایسا عمل سرانجام دیا جس سے اس سرحد کو مستقل طور پر محفوظ کر دیا گیا یا یہی بات افغانستان میں موجود بھارتی لابی کو برداشت نہیں ہو رہی۔قطر مذاکرات میں بھارت کی لاتعلقی اور پاکستان کی پذیرائی،پاک افغان بارڈر پر باڑ کی تنصیب میں مل کر پاکستان دشمنوں کو جنھجلا کر رکھ دیا ہے۔

۔سرحدی ذرائع کے مطابق پاک افغان سرحد پر افغان سکیورٹی فورسز کی طرف سے فائرنگ ایک معمول بن چکی ہے بھارت کی کمزور حکومت اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کوئی ایڈوینچر کر سکتی
ہے۔اس لیے پاکستان کے سرحدی علاقوں کی صورت حال کو کسی طور بھی تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔افغانستان سے داخلے کے تمام دروازے بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب سے باڑ لگانے کا عمل مکمل ہوا ہے تب سے پاکستان میں افغانستان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردی میں کافی حد تک کمی دیکھنے کو ملی ہے۔

پاکستان کی مسلح افواج پوری طرح چوکس ہیں اور اپنی سرحدوں کے دفاع کے لیے سرگرم عمل ہیں۔پاکستان مختلف عالمی فورمز پر یہ بات ببانگ دہل کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان کے اندر امن و امان کا خواہاں ہے۔قطر معاہدے میں پاکستان کے فعال کردار نے بین الاقوامی برادری کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان سمیت پوری دنیا کرونا سے جنگ لڑنے میں مصروف ہے افغانستان پاکستان کی سرحد پر سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے عالمی برادری کو اس امر کا نوٹس لینا ہوگا کیونکہ معمولی سی چنگاری کسی بھی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :