جمہوریت ، اپنی مدد آپ پیدا کر۔۔۔!

بدھ 21 اکتوبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

سیاسی لڑائی اداروں کے کندھوں پر لڑنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے، جمہوریت کا حسن تو یہ ہے کہ حکومت کی کمزوریاں، یا غلط فیصلوں کو سامنے رکھ کر بات کی جائے، عوامی حمایت حاصل کی جائے، مگر یہاں نہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ھے اور نہ پارلیمنٹ میں کوئی جمہوری رویہ کبھی نظر آیا یہ فی زمانہ کوشش ھوتی رہی ہے کہ ملک کے جو ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، اپنا آئینی کردار ادا کر رہے ہیں ، انہیں زبردستی گھسیٹ کر سیاست میں لایا جائے ، پھر ان کے کندھوں پر بیٹھ کر "غیر جانبدار"سیاست کی جائے، گزشتہ ادوار میں یہ سب ھوتا رہا اور بدقسمتی سے آج بھی سیاسی جماعتیں اس انتظار میں ہیں کہ کب اداروں اور حکومت کے درمیان دوریاں پیدا ھوں اور ھم کرسی اقتدار پر قابض ہو جائیں، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ن لیگ 1985ء سے شریف خاندان کی ایک ایسی باندی ھے جسے چن چن کر اداروں کے کندھوں پر سوار کیا گیا اور مزے سے پینتیس سال تک حکمرانی کی گئی اس دوران پنجاب پولیس خصوصاً اور دیگر ادارے، بیوروکریسی، وکلاء، صحافی، کاروباری طبقات، اشرافیہ اور بدمعاشیہ کو جال میں ایسا پھانس لیا کہ اب اس سوچ اور عمل سے نکلنا خود ان اداروں کے لئے مشکل ہے، بالکل خوبصورتی سے یہ کام پیپلز پارٹی نے سندھ میں کیا، اور یہ ایسا خوبصورت کام تھا جو اس اسٹیٹس کو کا آج تک محافظ ھے۔

(جاری ہے)

ملک کا اعلیٰ دماغ اس دوران ایسا شکست خوردہ ھو گیا کہ پروفیشنل کام ٹھپ ہو کر رہ گیا، مراعات، بڑے بڑے دفاتر، پرتعیش زندگی، کام میں عدم دلچسپی اور ھمہ وقت ذاتی مفادات کو ترجیح دینا ہر عام و خاص کا معمول بن گیا، جس طرح ایک غیر خوش آمد پسند شخص کی مسلسل خوش آمد کی جائے تو وہ اس کا عادی ھو جاتا ھے ایسے ہی دولت، مرتبے اور مراعات کا حصول ایک نشہ بن گیا ہے، جس کے خلاف مختلف متلون مزاج شخصیات، یا غیر مستقل مزاج جماعتیں کوششیں کرتیں رہی ہیں مگر منزل سے پہلے ہی بھٹک گئیں ، سفر ادھورا کیوں رہ جاتا ہے، اس کی بڑی وجہ جدوجہد میں لغزش، استقامت کی کمی اور خوف یا مفادات کا اڑے آجانا ھے۔

اس لیے یو ٹرن بہت آئے، نقصان بہت پہنچا، خلفشار پیدا ہوئے، اداروں کا وقار داؤ پر لگا، سب کچھ ھوا، اس میں ن لیگ کا سب سے بڑا شئیر ھے جسے وہ دگنا  کرتی اور چار چاند لگاتی رہی، بڑے میاں صاحب، بساط بچھاتے رہے، باقی فایدہ اٹھاتے رہے، کوئی بد معاشیہ کا سرغنہ بن کر، کوئی اشرافیہ کا اور حد تو یہ ہے کہ کوئی شریفیہ کا بھی معتبر بنا، عوام ہر طرف سے خوش اور ترقی کی کمزور سیڑیاں چڑھتے رہے ، پھر گرتے رہے، آس و امید سے اوپر منزل کو دیکھتے رہے، مگر منزل دور ھوتی رہی کہ بس دور ھوگئی۔

اسی نظام کو چیلنج کیا تھا عمران خان نے اور 22 سال استقامت سے نوجوانوں کے ساتھ لے کر جدوجہد کرتا رہا اور آخر پہلی دفعہ اسٹیٹس کو کو دھچکا لگا، اسی کو بچانے کے لیے پی ڈی ایم تک بن گیا، بنے ضرور ملک میں مہنگائی ھے، اور کئی بڑے ایشوز ہیں مگر فوکس ادارے اور خبریں دوری کی عام ھونے لگیں ہیں، کسی نے جلتی پر تیل چھڑک ڈالا اور کیپٹن صفدر جیسا بالکل غیر مقبول، ناپسندیدہ شخص ھیرو بن گیا، بغاوت کے مقدمے میں بھی کسی اپنے ھی نے تخریب کر کے تعمیر کی بنیاد ڈال دی، افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومت میں ان سیاسی چالاکیوں کو درست جواب دینے والا کوئی نہیں رہا، یقیناً سندھ پولیس کا واقعہ افسوس ناک بھی ھے اور آرمی چیف کا نوٹس لینا حکومت کے لیے سبکی کا باعث بھی ھے مگر سمجھنے کی بات ہے کہ سندھ پولیس نے پہلے مقدمے کو قانونی، پھر دباؤ کا باعث بنا کر ایک خلیج قائم کر دی، سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے کورٹ میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کا دفاع بھی کیا اور بلاول بھٹو نے اسے بارگنگ چپ بھی اچھی طرح بنا لیا اپوزیشن کے بیانیے میں ایک نئی روح پھونک دی گئی، میں مسلم لیگ ن کے ایک دیرینہ کارکن کے پاس بیٹھا تھا اس نے چیختے ہوئے کہا کہ نواز شریف یقیناً مجرم ھے، زرداری مجرم انہیں پکڑیں ، کرپشن کو روکیں ، پیسہ واپس لائیں مگر غریبوں سے روٹی کا نوالہ نہ چھینیں، مہنگائی نے تو کمر توڑ کر رکھ دی ہے، سبزی بھی نہیں کھا سکتے، کیسے عمران خان کے ساتھ کھڑے ھوں؟یہ سوال بڑا درست ہے، نوٹس لینے سے کون اس کے خلاف سرگرم ھوتا ھے، حالات کس سمت جا رہے ہیں، عمران خان نے تو یہ کہہ کر بات ختم کر دی تھی کہ فوج بھی پاکستان کی ھے، حکومت بھی پاکستان کی پھر کیا دوری ھے، بات درست تھی مگر یہ اپوزیشن کا اکٹھ اداروں کے کندھے کیوں استعمال کرنا چا رہا ہے کیا اب پھر ملک وقوم کمزور سیڑھی سے گر کر پھر اوپر کی طرف آس و امید سے دیکھتے رہ جائیں گے، کیا پولیس کی قربانیاں انہیں عزت دیں گی یا اسٹیٹس کو بچانے والے پھر اداروں کے کندھوں پر ھوں گے، چونسٹھ فیصد نوجوانوں کا یہی سوال ھے اس کا جواب مریم دے یا بلاول، عمران خان تو دے چکا ہے، اب دیکھتے ہیں بات کس کی بنتی اور کس کی بگڑتی ھے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :