عرب ، اسرائیل قربتیں، وجوہات اور مستقبل!

بدھ 25 نومبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

امریکہ کی ریاست ورجینیا کے دیہی علاقے کیمپ ڈیوڈ میں مصر اور اسرائیل کے درمیان امریکی صدر جمی کارٹر، کی موجودگی میں امن معاہدہ ھوا تھا، مصر کی طرف سے انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم میخام بیگن نے اس معاہدے پر دستخط کیے، 1979ء میں یہ عرب ، اسرائیل پہلا معاہدہ تھا، اسی کے دیکھا دیکھی 1994ء میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا، ان دونوں ممالک کے باھمی تنازعات تھے، بلکہ مصر۔

اور اسرائیل میں دو جنگیں ھو چکی تھیں، جس کو کیمپ ڈیوڈ کے معاہدے کے بعد امن میں بدل دیا گیا، مصر اور اسرائیل باھم شیر وشکر ھوگئے، امریکہ اور اسرائیل نے مصر کے لیے امداد اور تجارت کے دروازے کھول دیے، مصر کو جو سب سے بڑا نقصان ہوا، اس کے اثرات آج تک موجود ہیں، انتہا پسندی  بڑھ گئی، جمہوریت ایک خواب بن گئی اور مصر آج تک معاشی اعتبار سے اپنے پاؤں پر  کھڑا  نہیں ہو سکا۔

(جاری ہے)

مصر کی تاریخ،ماضی کا قصہ بن گئی، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے بڑھی تیزی سے ناراضگی کا اظہار کیا، اور عرب لیگ سے مصر کو باہر کر دیا ، عرب لیگ کا صدر دفتر قاہرہ سے منتقل کر دیا، مصر اور اردن کی سرحد اسرائیل سے ملتی ہے مگر عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے  کی نوعیت یہ نہیں ہے بلکہ اس معاہدے نےخلیج میں ایک اور "خلیج"پیدا کر دی، 15 ستمبر 2020ء کو صدر ٹرمپ کی موجودگی میں اس معاہدے پر باقاعدہ دستخط  واشنگٹن میں ھوئے جس کو "ابراھم"معاہدے کا نام دیا گیا، قبل اس کے، اگست میں ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کا اعلان کر دیا تھا،  31 اگست کو تل ابیب اور ابو ظہبی کے درمیان باقاعدہ پرواز کا بھی آغاز ہوا،  امریکی سلامتی امور کے سربراہ، صدر ٹرمپ کے داماد اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی فلائیٹ میں موجود تھے، اس نئی پرواز نے مسلمانوں کے ہر دل عزیز ملک سعودی عرب کی فضائی حدود استعمال کی، اگرچہ یہ ایک محض واقعہ تھا لیکن پردہ راز میں سعودی عرب کی آمادگی ، اسرائیل سے برسوں کے خفیہ تعلقات اور اب عملی اظہار شامل تھا، یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب کے بغیر کوئی معاہدہ کر لے، تاھم سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عمل کی تردید کی، تردید اب بھی کی گئی ہے جس کا شور دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا میں موجود ہے، تردید اور میڈیا کی تائید کا عمل جانبدارانہ بھی ھو سکتا ھے تاکہ سعودی عرب کی مخالف قوتوں کو کوئی پیغام دیا جائے، تفصیلات کے مطابق اسرائیل سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر موجود سعودی شہر نیوھم جو جنوبی سعودی عرب میں نیا بسایا جا رہا ہے، وہاں  بنجمن نیتن یاہو، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے درمیان تین گھنٹے کی ملاقات ہوئی، تجزیہ نگاروں کے مطابق مائیک پومپیو کے ساتھ آنے والے میڈیا کے نمائندوں کو ائیر پورٹ پر ھی روک لیا گیا تھا، وہ خفیہ ملاقات جو "ھاں اور نا" کے درمیان کہیں موجود ہے ایک نئی سریز کا آغاز ھے، اگرچیکہ سعودی وزیر خارجہ اس کی تردید کر چکے ھیں مگر فضائی سفر تل ابیب سے سعودی عرب کے جنوبی شہر تک کی مکمل معلومات نظام پرواز میں موجود ہے، 2002ء میں شاہ عبداللہ نے ایک امن منصوبہ بیروت امن معاہدے کے نام سے پیش کیا تھا کہ اگر اسرائیل 1967ء کی پوزیشن پر واپس آ جائے تو عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے، جس کو زیادہ پزیرائی نہیں ملی، اسرائیل کے سابق صدر اسحاق رابن نے اپنے وزیر شمعون پیریز کو قطر اور عمان کے سرکاری دورے پر بھیجا تھا، اس کے بعد اسرائیل نے دونوں ممالک میں بغیر کسی تشہیر کے تجارتی دفاتر بنائے تھے، مگر اسحاق رابن کو ایک یہودی انتہا پسند نے قتل کر دیا جس کے بعد یہ سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، بنیامین نیتن یاہو کے وزیر اعظم بننے کے بعد تو کشیدگی مزید بڑھ گئی تھی، اسرائیل نے لبنان میں داخل اندازی کی، جس کے بعد فلسطین میں دوسرے انتفادہ کا آغاز ہوا،  مصر اور اردن کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لئے، عمان ، اور سعودی عرب بھی پر تول رہے ہیں،  متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدےکی وجوہات پر غور کریں تو کوئی زمینی یا جغرافیائی تعلق نہیں بنتا، یو اے ای اٹھ ملین ابادی والا ملک ہے جہاں مقامی باشندے کم غیر ملکی زیادہ ہیں، اسرائیل سات ملین پر مشتمل ملک ھے، دونوں کی ڈور  دفاع اور تعمیر امریکہ کے ھاتھ میں ھے، یو اے ای کو آباد ہی امریکہ نے کیا، اسرائیل تمام معاشی اور دفاعی معاونت امریکہ سے لیتا ہے ، 1972ء میں اسرائیل کابائیکارٹ کرنے والے یہ ممالک خود کیوں ھاتھ بڑھا رہے ہیں؟ ایک بڑی وجہ ایران ھے، جس سے ان تمام ممالک کو خوف ھے، جبکہ بائیڈن ایران سے نیوکلیئر معاہدہ بحال کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، ایران کے پراکسی گروہ شام، عراق یمن میں موجود ہیں، ان سب خطرات کو محسوس کیا جا رہا ہے ، ٹیکنالوجی اور اسٹراٹیجک مفاد بھی عزیز ھے چونکہ اسرائیل کے پاس جدید ٹیکنالوجی موجود ہے جس کو یو اے ای پہلے ہی اپنے شہریوں کے خلاف استعمال کرتا رہتا ہے، تیسری وجہ سیاسی اسلام اور بغاوت کا بھی خطرہ عرب ممالک میں نمایاں طور پر محسوس کیا جا رہا ہے، اخوان المسلمین، حزب اللہ، حماس کے کچھ خوف بھی پالے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے سعودی عرب امریکہ اور ایران کے درمیان کسی نئی ڈیل کے خلاف پوزیشن مضبوط کر رہا ہے، پومپیو جو آئندہ صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آنا چاھتے ہیں وہ افغانستان، سعودی عرب، کئی افریقی ممالک کے دوروں سے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں، ویسے بھی کورونا کی عالمی وبا میں یا اس کے بعد ایک نئی صف بندی شروع ھے، سب سے مشکل فیصلہ پاکستان کے لیے ھے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سعودی، اور امریکی دباؤ برداشت کر لے گا کہ نہیں اگر چہ وزیر اعظم عمران خان وضاحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ وہ فلسطین کے حقوق اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین کا مسئلہ حل ھونے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے، جس کے جواب میں یو اے ای، بھارت اسرائیل اور سعودی عرب کا ایک نیا محاذ یا پاکستان مخالف بلاک بننے کے خدشات موجود ہیں، چونتیس ملکی فوجی اتحاد جس کی قیادت جنرل راحیل شریف کر رہے ہیں وہ بھی آخری ھچکولے لے رہا اس بدلتی ہوئی صورتحال میں ایران، ترکی، پاکستان ملائیشیا، چین اور روس کے درمیان نئے تعلقات اور معاہدے ھونے کی امید ہے، گذشتہ عرصے میں آذربایجان میں اس کی ایک جھلک نظر بھی آئی نگارنو کاریباخ آزاد ھوا اور ترکی اور پاکستان کے جھنڈے لہرائے گئے، سعودی عرب ترکی یا ایران کی کسی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، ترکی اور ایران بھی اپنی جگہ اور آنا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، البتہ حیران کن بات یہ ہے کہ مسلم ملک کی بالادستی کی بجائے یہودی ریاست کی برتری کیوں قبول ھے، یہ سوال مسلم امہ کی مضبوطی دیکھنے والا ہر شخص سوال کرتا ہے، میرے ذاتی خیال میں امت کا تصور کہیں موجود نہیں، قومی ریاستیں اپنے قوانین کے مطابق ہی باقی رہ سکتی ہیں دوسری طرف حال ہی میں ایک نئی صورتحال بھی سامنے آئی کہ بھارتی دھشت گردی اور سی پیک کے خلاف اس کی منفی منصوبہ بندی کے ثبوت لے کر پاکستان او آئی سی میں جا رہا ہے اس کا جواب کیا ملے گا، افغانستان میں امن مذاکرات کے دوسرے دور اور پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے نئی منصوبوں کا حصہ ہیں، چین پندرہ ممالک کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کر چکا ہے جس کا مرکز سی پیک بن سکتا ہے کیونکہ وسط ایشیا اور افغانستان تک واحد راستہ پاکستان ھو گا، عرب ممالک کے اسرائیل سے بڑھتے تعلقات سے معاشرے پر بھی اثرات ھوں گے، جن کو نہ امریکہ روک سکے گا اور نہ ہی اسرائیل، سب سے زیادہ نقصان فلسطین کا ھورہا ھے اور یہ آگ بڑھتے بڑھتے پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، بروقت اور اچھے فیصلے ہی حالات کا رخ موڑ سکتے ہیں، کہیں بادشاہتیں آخری سانس تو نہیں لے رہیں؟یہ ھوا تو کیا ھوگا؟ اس پر بھی عرب ممالک کو سوچنا ھو گا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :