افغانستان ،کون کہاں کھڑا ہے؟

منگل 13 جولائی 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے انخلاء میں جتنی جلدی کی اس کے پیچھے طویل امریکی پالیسی کارفرما ہے، رات کی تنہائی میں بگرام ایئر بیس خالی کرنا اور 31 اگست تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا سب کے لیے حیران کن اور تشویشناک ہے مگر امریکہ تھینک ٹینکس اور پینٹاگون 2017 ء میں اس کا فیصلہ کر چکا تھا کہ امریکہ دائمی جنگوں سے تنگ آچکا ہے، 45 ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد عراق، افغانستان اور شام میں اس نے کیا حاصل کیا اس پر طویل بحث ہوتی رہے گی،  البتہ ایک مقصد انتشار اور نیشنل ازم کا خاتمہ تھا جو بخوبی حاصل کر لیا، افغانستان میں اس کے 2300 سو فوجی مارے گئے اور کھربوں ڈالر کا معاشی نقصان پہنچا ، اس نے خطے کو تنازعات میں دھکیل کر،  اور داعش کے لیے راستہ ہموار کرکے اپنا مقصد حاصل کر لیا، امریکہ اس صورتحال کے بعد ایک نئی مہم پر جارہا ہے، وہ چین اور روس کی بڑھتی ہوئی طاقت سے سخت پریشان ہے، اس لئے ایک  بڑا اور اگلا ھدف تائیوان اور یوکرین ھے جہاں سے وہ چین اور روس پر نظر رکھ سکے، بحیرہ جنوبی چین میں اس کے بحری بیڑے مسلسل گشت پر ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو فیصلہ کیا تھا جو بائیڈن نے اس میں تیزی لائی اور افغانستان کو وار لارڈز کے حوالے کر کے نکل گیا، اپنے اس عمل کا سارا ملبہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک پر ڈال رہا ہے، بیس سال کی کوششوں کے باوجود وہ افغان سیکورٹی فورسز کی تربیت نہیں کر سکا جس سے طالبان کو اور آسانی ہو رہی ہے، حال ہی میں تہران میں ہونے والے معاہدے، جس میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندے شریک ہوئے کچھ آمید تو پیدا ہوئی ہے تاہم جس تیزی سے طالبان آگے بڑھ رہے ہیں افغان حکومت کاغذی لگتی ہے، چین نے واضح کہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال کا ذمہ دار امریکہ ہے،" بے وجہ آنا اور بلا وجہ جانا "دونوں افغانستان اور اس کے پڑوسیوں کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو رہا ہے، پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ بندوق فیصلہ نہیں کر سکی، امن کا راستہ افغان عوام خود تعین کریں گے، افغان معاشرے پر فارس، روس اور پاکستان کے گہرے اثرات ہیں۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ عوام ایران اور پاکستان پر بھروسہ کرتے ہیں، اس مرتبہ ایک نیا کھلاڑی ترکی بھی میدان میں اتر چکا ہے جس کی وجہ سے سوالات جنم لے رہے ہیں چونکہ ترکی کا اس معاملے پر امریکہ سے مکمل رابطہ ہے، بگرام ایئر پورٹ کی سیکورٹی ترک فورسز سنبھال رہی ہیں، طالبان بھی اس پر راضی ہیں، پاکستان بھی راضی ھے لیکن کیا چین اس پر راضی ھے کہ نہیں اس پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا؟.ایک بڑا کھلاڑی بھارت ہے, جو طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور پیش قدمی سے سخت خوف میں مبتلا ھے، قندھار میں قونصل خانہ بند کر دیا گیا، خطرناک بات یہ ہے کہ بھارت امریکہ کی جنگ لڑنے کی حامی بھر چکا ہے، مگر عملاً اس کی فوج یہ جنگ لڑنے کے قابل نہیں، اس نے جہاز بھر بھر کر اسلحہ افغانستان بھیجنا شروع کر دیا ہے، را کے کارندوں کو محفوظ بنانے کے لیے بھی سر توڑ کوششیں کر رہا ہے، امریکہ جہاں بھی گیا خلفشار اور انتشار چھوڑ کر نکل جاتا ہے، لوگ اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ سے دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ھے، تو میرا ان سے کہنا ھے کہ کیا امریکہ جس کی سوچ اور تاریخ بے وفائی اور تباہی سے بھری پڑی ہو، اس کے ساتھ "ایک پالیسی" چلائی جا سکتی ھے؟ کیسے اعتبار کیا جائے گا؟ رہی بات ڈومور کی تو پہلی مرتبہ سیاسی اور عسکری قیادت سے ایک ہی جواب مل رہا ہے" نو مور" اس کے نتائج اچھے، برے دونوں ھو سکتے ہیں مگر حقائق، خود مختاری، خود داری اور سالمیت تو اسی میں ہے،  اس وقت سب سے بڑی ضرورت افغانستان میں امن کی ہے جو افغان عوام، حکومت اور طالبان کی ذمہ داری ہے اس سے ہٹ کر کوئی بھی قدم پہلے افغان عوام کے لیے خطرناک ہوگا پھر خطے کے دوسرے ممالک پر اور خصوصاً پاکستان پر اثرات ھوں گے، پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے طویل باڑ لگا کر، اور تقریباً 114 چیک پوسٹیں بنا کر بڑا قدم تو اٹھایا ہے مگر انسانی ھمدردی، برادرانہ تعلقات، اور پڑوسی کا جذبہ افغان مہاجرین کا راستہ ھموار کر دے گا، جو فی الحال پاکستان کے مفاد میں نہیں، اولین کوشش افغانستان میں امن و استحکام ھونا چاھیے، جس کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت اور دفاعی ادارے کوشش کررہے ہیں، امریکہ اپنے نئے اھداف کی وجہ سے مکمل سرد مہری دیکھا رہا ہے، یہی اس کی پالیسی کا حصہ ہے جو نئی نہیں 2017ء سے زیر بحث ھے۔

روس، چین، ایران اور پاکستان مل کر کوئی فیصلہ کریں تو اچھے نتائج نکل سکتے ہیں، ادھر سے یہ جنگ آزاد روسی ریاستوں تک پہنچ جائے گی، ادھر پاکستان میں اس کے اثرات اور چین کے تجارتی راستوں کو مسدود کرے گی، اس لئے ان ملکوں کو مل کر حکمت عملی بنانی چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :