اچھی یا بری خبریں۔۔ایک تقابل

جمعہ 5 نومبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ھمارے ھاں سچ ، جھوٹ کی کثرت میں کہیں گم ہو جاتا ھے، ایسے ہی اچھی خبریں، بری خبروں کی نظر ھو جاتی ہیں، موجودہ حکومت کی بدقسمتی ہے کہ اسے قرضوں کا بوجھ وارثت میں اور کورونا آفت کی صورت میں ملا، دونوں نے مل کر حکومت کے ھاتھ پاؤں باندھ دئیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہوشربا مہنگائی نے خرقہ پوش، سفید پوش اور کھاتے پیتے لوگوں کو ، مفلسی کا شکار کر دیا، اپوزیشن میں  جان نہیں تھی البتہ مہنگائی خوب اپوزیشن کر رہی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ معاشی بحران نے بڑی بڑی ریاستوں اور بادشاہتوں کو گرا دیا تھا، اللہ کرے ھمارے ملک کے ساتھ ایسا نہ ہو مگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کی تاریخ پر ابھی زیادہ گرد نہیں پڑی، اور تو اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کی اصل وجہ  بھی معاشی بحران تھا، آپ جنرل ضیاء الحق سے لے کر میاں نواز شریف تک کی حکومتوں، منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا تجزیہ کریں تو آپ کو یہ چیز بخوبی نظر آئے گی کہ پاکستان کی اتنی بڑی مینوفیکچرنگ، صنعت اور زراعت کو کس طرح تباہ کیا گیا،اور  پورے ملک کو درآمداتی معیشت میں دھکیل دیا  گیا، چیزیں درآمد کرکے خود بھی کھائیں اور ملک بھی چلائیں، اس معاشی نظام کا کئی دفعہ ایسا جھٹکا بھی لگا کہ ملک دیوالیہ ہونے تک پہنچا، دسمبر 2018ء میں بھی یہی حالت تھی، جس کو موجودہ حکومت نے سعودی عرب، چین اور دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہوئے بحران سے نکالنے کی کوشش کی،  ابھی کمر سیدھی ھوئی تھی کہ ساتھ ہی کورونا نے پنجے گاڑ لئے، کورونا کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ دنیا ہل گئی، دنیا میں پچاس لاکھ اور پاکستان میں تیس ہزار افراد جان سے گئے، کورونا سے حکومت نے اور قوم نے سخت مقابلہ، اچھے طریقے سے کیا، البتہ ایک غیر روایتی حکومت اور عوام کی تواقعات میں ہر اچھی چیز کہیں گم ہو گئی،کچھ ذرائع ابلاغ نے عمران خان کی دی ہوئی امیدوں پر سوال اٹھا دیئے، نتیجہ یہ ہوا کہ اچھا ہونے کی امید کم ھو گئی،
پاکستان 1960, 1970ء میں مینوفیکچرنگ، چھوٹی بڑی صنعتوں، اور زراعت کے شعبے میں دنیا میں منفرد تھا، ٹیکسٹائل انڈسٹری تو لاجواب برآمدات کا ذریعہ تھی، بجائے اس معاشی ترقی اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے، سابقہ حکومتوں نے اسے تباہ کر دیا، جس کا نتیجہ بے روزگاری، غربت اور محرومی کی صورت میں نکلا، درامدی معیشت سے ایک ھی مخصوص طبقہ اوپر آگیا، جو سیاست ، تجارت اور اقتدار پر  بھی قدم جما گیا ، آج معیشت جن حالات سے گزر رہی ہے وہ امراض پرانے زیادہ نئے کم ہیں ، موجودہ حکومت نے کورونا کے باوجود صنعت، زراعت اور صحت کے شعبوں کو نیا چہرہ دیا، جس کے نتائج یہ نکلے کہ برآمدات 40 فیصد تک بڑھ چکی ہیں، ریونیو کولیکشن میں بھی تیس فیصد سے زائد اضافہ ھو چکا ، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایک بڑے منافع کے قابل بنا دیا گیا ہے، جس کی طلب میں چالیس فیصد سے زائد کا اضافہ ھو چکا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے روشن ڈیجٹل اکاؤنٹس، گھروں کی تعمیر کے لیے قرضہ جات، جیسی کئی سکیمیں دیں جس سے معاشی اشاریے بلند ھو کر چار فیصد تک پہنچے،اسٹیٹ بینک کی خود مختاری پر سوال اٹھائے جاتے ہیں حالانکہ دنیا میں اسٹیٹ بینک اپنی پالیسیوں میں آزاد ھے تاہم یہاں لوگ ڈالر کی وقت بے وقت اڑان سے خوف زدہ ہیں،
کب نیچے آئے گا، اور مہنگائی کم ھو گی، کچھ دل جلے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ" نہ نو من تیل ھوگا، نہ رادھا ناچے گی" ان سب حقائق کے باوجود اچھی خبریں بھی موجود ہیں، حال ہی میں حکومت پاکستان اور اردن کے اعلیٰ حکام کا پاکستان سے گوشت کی برآمد کا ایک بڑا معاہدہ اور باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ھو چکا ھے، عمران خان نے پہلے سال لوگوں کو کٹے بچھڑے پالنے کا مشورہ ویسے ہی نہیں دیا تھا، ھماری بدقسمتی ہے کہ ھم ذات اور قومی معاملات میں راتوں رات ارب پتی بننے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ مشورہ خود انحصاری کی طرف بڑا قدم ھے، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان میں بھی گوشت پر بات ھوئی تھی مگر پاکستانی تاجروں پر عدم اعتماد اور  ملاوٹ، صفائی کا خیال نہ رکھنے کا الزام آڑے آگیا، انڈیا بھاری مقدار میں عرب ملکوں کو گوشت برآمد کرتا ہے، اب اسوقت طلب پوری کرنے کے لیے پاکستان میں لوگ پریشان ہیں، عمران خان دورہ سعودی عرب کے دورے سے تین ارب ڈالر کا زرمبادلہ اور تیل حاصل کیا، روس اور پاکستان کے درمیان تجارتی اور دفاعی معاہدے ہوئے ، آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ھوئے ان سب اچھی خبروں کا نام و نشان نہیں ہے، اب کیسے ھم معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں،پاکستانی سمینٹ اب دنیا کی مارکیٹ کے لیے بڑی ایٹریکشن بن چکا ہے، جے ایف تھنڈر کی مارکیٹ بھی افریقی ممالک کے لئے شاندار نتائج پیدا کر رہی ہے، دبئی ایکسپو پاکستان کے لیے کئی گنا کامیاب رہی اور کئی اچھی خبریں ہیں جو تنگی دامن کی وجہ سے بیان نہیں کی جا سکتیں، مگر دکھ یہ ہے کہ یہاں لوگوں کو کالعدم تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے تو یاد آتے ہیں یہ اچھی خبریں نظر نہیں آتیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :