تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں شکست اور وجوہات

جمعہ 24 دسمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ھوا، جس میں 64 نشستوں پر انتخابات ہوئے اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو اپنے ھوم گراؤنڈ میں شکست سے دوچار ھونا پڑا، مجموعی طور پر جے یو آئی، ف نے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں اور تحریک انصاف دوسرے نمبر پر رہی یہی نہیں بلکہ صوبے کے بڑے شہروں پشاور، مردان، چار سدہ، بنوں اور کوہاٹ میں تحریک انصاف کو بڑی شکست سے دوچار ھونا پڑا، جس پر وزیراعظم عمران خان کا موقف سامنے آیا آیا کہ ھم نے غلطیاں کیں ہیں جس کی قیمت چکانی پڑی، ھم دوبارہ یہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے، وہ کیا غلطیاں اور وجوہات ہیں جو تحریک انصاف کو اس شکست تک لے آئیں جہاں انہوں نے 2013ء کے الیکشن میں کامیابی اور 2018ء میں کلین سویپ کیا تھا؟ وزیراعظم اور ان کی ٹیم اس کا گہرائی سے ادراک کرے تو وقت اب بھی موجود ہے، عمران خان کی شکست ماننے کی بہترین عادت جمہوریت کے لئے اچھی مثال ہے اور وہ یہ پہلے بھی ایسا طرزِ عمل رکھتے ہیں، جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے پر انہوں نے عوام کے سامنے معافی مانگی تھی، اسی طرح دوسری کئی غلطیوں پر معافی مانگی، لیکن کیا معافی مانگنا ہی کافی ہے یا اس کا گہرا ادراک بھی کیا جائے گا،
   کہتے ہیں کہ کام سے زیادہ پرسپشن الیکشن سانئس میں بڑا کام کرتی ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی پرسپشن میڈیا اور دوسرے ذرائع میں اچھی نہیں ہے، اس کی جائز وجوہات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے،  کیونکہ عوام جب مشکل میں ھوتے ھیں تو وہ میڈیا پر آنے والی چھوٹی سی خبر کو حکومت کی بڑی ناکامی کے طور پر دیکھتے ہیں، حکومت نے اس محاذ پر باوجوہ توجہ نہیں دی، یہاں تک کہ حامی لوگوں تک بعض وزراء کے غرور نے خان صاحب اور حکومت کے قریب پھٹکنے نہیں دیا، دوسری بلکہ بڑی وجہ مہنگائی ھے، جس کا بھرپور غصہ نکالا گیا نہ صرف یہاں بلکہ ضمنی الیکشن میں بھی اس کا چرچہ نمایاں تھا، آگر چہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے، کورونا اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں، پٹرولیم مصنوعات کی عالمی کی قیمتوں کی وجہ سے اس کے اثرات ہیں تاہم مقامی سطح پر قیمتوں اور منافع خوری کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، ہر دکاندار، تاجر، کاروباری حضرات یہی کہتے ھوئے عوام کو لوٹتے ہیں کہ "کیا کریں جی تبدیلی آ گئی ہے" یہ رویہ عام ھے، ضلعی، تحصیلی انتظامیہ اور حکومت اس کا کوئی توڑ نہیں نکال سکے، ڈی سی صاحبان قیمتوں کی فہرست لٹکا کر یہ گئے، وہ گئے، جو کام آسانی سے کئے جا سکتے تھے وہ بھی نہیں ہوئے، اور قوت خرید، آمدنی میں بڑی کمی واقع ھو گئی، سفید پوش، خرقہ پوش سب مجبور نظر آتے اور مانگنے پر مجبور ہیں، اس کے بڑے گہرے اثرات ہیں جس پر کام نہ کیا گیا تو بے جان اپوزیشن بھی جاندار ھو جائے گی، جیسے خیبرپختونخوا میں حکومت نے جے یو آئی۔

(جاری ہے)

اور اے این پی کو نئی زندگی دے دی ہے، وزراء بھی مانتے ہیں کہ مہنگائی شکست کی بڑی وجہ ھے، خیبرپختونخوا میں حکومت کو اٹھ سال ھو گئے، ںی آر ٹی، اور ھیلتھ کارڈ کے علاؤہ کوئی بڑا منصوبہ سامنے نہیں آیا، حکومت نے بنیادی اور اہم نوعیت کے بے شمار کام کیے جو کبھی نہیں ھو سکے مگر ان کی بھی تشہر نہیں کر سکے،
ایک بڑی وجہ تحریک انصاف بمقابلہ تحریک انصاف کا بھی ہے تنظمی سٹرکچر کی کمزوریوں کی وجہ سے یا اقربا پروری کے خطرناک ٹرینڈ نے کارکنوں کو نظر انداز کر دیا ہے، وہ شدید غصے میں ہیں، کئی لوگ آزاد حیثیت سے میدان میں آکر جیت گئے، مرکزی آرگنائزرز کو اس پر رجوع کرنا ھو گا، وزیراعظم عمران خان خود بھی کارکنوں سے دور ہیں، اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی کارکردگی بھی برائے نام ھے جن صلاحیتوں کا مظاہرہ پرویز خٹک نے کیا تھا، جس سیاسی انداز میں وہ سرگرم تھے، وہ کام محمود خان نہیں کر سکے، گویا کارکردگی پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے، میرے کچھ دوست اس بات پر بھی متفق ہیں کہ تحریک انصاف سے مائینس جہانگیر ترین نے بھی تحریکِ انصاف میں ںڑا خلا پیدا کر دیا ہے، کیونکہ جہانگیر ترین الیکشن کی سائنس اور ہر ایک سے مشورہ کرنے کا گر جانتے تھے، ان کی وجہ سے تحریک انصاف کو شدید دھچکا لگا ہے، ان کی پاکستان کے ہر حلقے کے بارے میں ایک سائنسی ریسرچ ھوتی تھی جس پر وہ ورکنگ کرتے تھے، الیکشن کے آخری دنوں میں حکومت نے جماعتی انتخابات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا جس پر فیصلے آنے تک امیدوار مکمل ھوم ورک نہیں کر سکے جب کہ اپوزیشن مہنگائی کے بیانیے کے ساتھ سرگرم رہی،  اگر ایک جملے میں بڑی وجوہات تلاش کی جائیں تو وہ، مہنگائی، تحریک انصاف بمقابلہ تحریک انصاف، اور مائنس جہانگیر ترین ہیں، ان تینوں شکست کی وجوہات پر مکمل ھوم ورک کرنا ھو گا، دوسری صورت میں اس کے گہرے اثرات پنجاب میں بھی ھوں گے،
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تحریک انصاف مکمل ناکام ہوگئی مگر شکست نوشتہ دیوار ضرور بن گئی، وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں خود اب نگرانی کروں گا، اچھی بات ہے مگر ان نمائندوں اور وزراء سے بھی پوچھیں جو تین سال میں مڑ کر اپنے کارکنوں اور عوام کے پاس نہیں گئے، اب ایک عالمی اقتصادی بحران، افغانستان کی صورتحال اور قومی سطح پر ںے شمار مسائل موجود ہیں کیا وزیراعظم اتنا وقت نکال سکیں گے کہ وہ خود نگرانی کریں؟ کبھی کبھی شکست بڑی کامیابی کا ذریعہ بن جاتی ہے تحریک انصاف نے سبق نہ سیکھا تو مشکلات مذید بڑھ جائیں گی،  باقی اضلاع اور پنجاب تو بدل دیں، آئندہ عام انتخابات میں اپوزیشن کی ضلعی اور تحصیلی حکومتیں بھی اثر انداز ھو سکتی ھیں، عمران خان کو عوام میں نکلنا ھوگا، اور عوام کا غصہ بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ھو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :