تین جون 2020ء کو ای سی ای کی میٹنگ میں پاکستان تحریک ا نصاف کی حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کے 9350ملازمین کو ایک ماہ کے نوٹس پر برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ ایک غیر منصفانہ فیصلہ ہے ۔ حکومت میں آنے سے پہلے خود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پی ٹی آئی کے اکلوتے تھنک ٹینک عمر اسد نے اسٹیل ملز ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے اسکی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔
تحریک انصاف کا موقف تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو پی پی پی اور نواز شریف حکومتوں نے تباہی کے دھانے پر پہنچایا ہے ۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان اسٹیل ملز کو نجکاری کئے بغیر بحال کریں گے اور ایک بھی ملازم بے روزگاری نہیں ہونے دیں گے۔ مگر تحریک انصاف کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اسکو کل کا کہا آج یاد نہیں رہتا یا وہ اپنی نااہلی کی وجہ سے یاد نہیں رکھنا چاہتی۔
(جاری ہے)
موجودہ فیصلے سے ملک بھر کے مزدوروں میں زبردست غم وغصہ پھیل گیا ہے۔پاکستان اسٹیل ملز کے متاثرہ مزدوروں نے آج 4جون کی سپہر اسٹیل ملز چوک سے احتجاجی تحریک کا پہلا جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کارباری اداروں ،کمپنیوں اور کارپوریٹ سرمایہ داری کیلئے ‘منڈیوں پر قبضہ‘ غالب جدید سرمایہ داری کا سب سے اہم حدف رہا ہے۔ کالونیل عہد کے پیچھے بھی کاروباری مقاصد غالب تھے۔
ماضی میں اس مقصد کیلئے اردگردکے ممالک پر براہ راست قبضے کئے جاتے تھے۔ تمام جنگوں کے پیچھے ذرائع پیداوار،وسائل اور منڈیوں پر قبضوں کا بنیادی مقصد دکھائی دیتا ہے۔ جدید سرمایہ داری اپنے سامراجی مقاصد کیلئے اپنے طریقوں کو جدت دے چکی ہے۔ اب براہ راست قبضوں کی بجائے دیگر ذرائع کو ترجیح دی جاتی ہے۔ منڈی پرقبضے کیلئے عالمی سامراج نے عالمی بنک،آئی ایم ایف،ورلڈاکنامک فورم کی طرح کے کئی ادارے قائم کرلئے ہیں۔
جو کمپنیوں کے مفادات کے حصول کیلئے ‘ممالک کے حکمرانوں کیلئے پالیسیاں تیارکرتے ہیں۔ اگرچہ تکنیکی جدت کی بدولت محنت کے شدید استحصال اور ایجادات کی بنا پر ملٹی نیشنل کمپنیاں پیدواری لاگت پرکشش حد تک کم کرنے پر قادر ہوچکی ہیں اور انکا مقابلہ مقامی صنعتیں اور ادارے نہیں کرسکتے ۔مگر بہت سی پالیسیاں،قوانیں اور جبری ضوابط عالمی اداروں کے ذریعے ”مقامی‘منڈیوں میں اس طرح سے وضع کرائے جاتے ہیں کہ ان ممالک کی صنعتیں،ادارے اور کاروبار دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔
”مقامی ممالک“ میں کامیابی سے چلنے والے ادارے، کارخانے، خدمات کے شعبوں کو برباد کرنے کیلئے مقامی حکمران طبقے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اداروں کی بربادی کاسب سے بڑا ذریعے وہاں ایسی انتظامیہ کومسلط کیا جانا ہے جو اس ادارے کو غیر منافع بخش بناتے بناتے تباہی کے دھانے پر پہنچادے۔پاکستان ان پالیسیوں کی بہت کامیاب لیبارٹری ثابت ہوا ہے۔
یہاں پر عالمی اجارہ داریوں کیلئے منڈی کو منافع بخش بنانے اور مقامی صنعتوں،خدمات کے اداروں اور کارخانوں کو خوفناک طریقوں سے بربادی کے دھانے پر پہنچا کر پھر پراپگنڈہ کیا گیا کہ پبلک سیکٹر اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ متذکرہ اداروں کو چلاسکے ،لہذا اسکی نجکاری کی جائے یا اسکو مکمل بند کردیاجائے۔ ہر ادارہ جب منافع سے خسارے تک پہنچتا ہے تو پھر اس پر قرض بھی چڑھتے ہیں اور ہر سال قومی بجٹ کا ایک حصہ ان خساروں اور قرضہ جات کو ادا کرنے میں خرچ ہوتا ہے۔
چنانچہ اس پراپگنڈے کو عوامی سطح پر ایک نظریاتی اور سیاسی حملے کیلئے استعمال کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے تمام خسارے والے ادارے ایک وقت میں بہترین پرفارمنس کے ساتھ منافع بخش تھے ۔پاکستان میں ضیائی آمریت میں پبلک سیکٹر کو تباہ کرنے کی کاوشوں کا آغاز ہوا مگروہ صرف NLCبناکر ریلوے کی تباہی کا اہتمام کرسکا۔مگر 1988ء سے سیاسی پارٹیوں کو نجکاری کیلئے نظریاتی طور پر تیار کیا گیا، بے نظیر بھٹو عالمی سامراجیوں کا آسان ہدف بن کر تھیچرائیٹ سکول آف اکنامکس کی پالیساں کو لاگو کرنے کیلئے تیارکی گئیں۔
پاکستان میں نجکاری کا تعارف کرایا گیا۔ اگلے سالوں میں بے دردی سے اداروں کو اجاڑا گیا،برباد کیا گیا اور انکو اونے پونے بیچا گیا۔ بہت سے (مسلم کمرشیل بنک، پاک سعودی فرٹیلائیزر کمپنی میرپورماتھیلو،لاڑکانہ شوگرملز،ٹھٹہ سیمنٹ فیکٹری وغیرہ) منافع بخش ادارے تھے، انکو بھی نہیں بخشا گیا۔اس تباہ کن پالیسیوں کے حقیقی ہدف بڑے ادارے رہے ہیں۔
انہی اداروں میں ایک ادارہ پاکستان اسٹیل ملز تھی جس کو بہت بڑی منصوبہ بندی سے تباہی کے دھانے پر پہنچایا گیا حتہ کہ چند سال پہلے یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ اداہ مکمل بندش کا شکا رہوگیا۔ کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی کیلئے اسٹیل ملز کا کردار صنعتوں کی ماں کی طرح ہوتا ہے۔صنعتوں کی تعمیر، صنعتی ، غیر صنعتی انفراسٹرکچر میں لوہے کے استعمال کا کلید ی حصہ ہوتا ہے۔
پاکستان کو ضروریات کیلئے 3.10ارب ڈالر کا لوہا اور اسٹیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ اسکی اپنی اسٹیل ملز پچھلے کئی سال سے بند کردی گئی ہے۔ یہ اسٹیل ملز پاکستان کی ضروریات کا ایک بڑاحصہ پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر اجاردہ داریوں کے مقامی ایجنٹوں کی سازشوں سے اپنی پوری صلاحیت پیداوار کے مطابق چل کر منافع دینے والی پاکستان اسٹیل ملز کو بندش تک پہنچا دیا گیا ہے۔
یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی منصوبہ تھا ۔ معاشی سال 2008 میں 3 ارب سے زائد ملز منافع کمانے والا ادارہ 2008 کے بعد ڈرامائی طور پر خسارے شکار ہونے لگا۔ مشرف دور میں ادارے کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی ،جسکو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ نے نج کاری کو کالعدم قرار دے دیا - پاکستان اسٹیل 2020 میں ایک مکمل غیر فعال ادارہ بنا دیا گیا ہے۔ پیداواری صلاحیت صفر ہوچکی ہے، درج ذیل شعبوں کے ملازمین تاحال ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔
1 ۔ٹاون شپ ڈپارٹمنٹ 2 ۔ آفیسر میس3 ۔ پاور ڈسٹریبیوشن نٹ ورک 4 ۔ لا ڈپارٹمنٹ 5 ۔ ایڈمن اینڈ پرسنل6 ۔ کارپوریٹ سیکٹر 7 ۔فنانس اینڈ اکاونٹس 8 ۔ سیکورٹی ڈپارٹمنٹ ۔ اوپربتائے گئے شعبوں سے تعلق رکھنے والے تقریبا 1000 ملازمین آج بھی کرونا وبا کے باوجود روزانہ ڈیوٹی پر آرہے ہیں۔مارچ 2020 میں موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد نے زردار عباسی پروموشن کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی عجیب صورتحال ہے’ ملزمین‘ ایک طرف ادارے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
حکومت ادارے کو چلانے میں خود قدم اٹھا سکتی ہے اور یہ اسے کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے حکومت کو ادارے کے ملازمین کو فارغ کرنے کا حکم دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز بہت سارے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ لگتا ہے پاکستان کا سارا بجٹ اس میں چلا جائے گا۔ حکومت پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو فارغ کرے ۔سیکرٹری صنعت و پیداوار معاملہ کو فوری طور پر دیکھیں۔
اسٹیل ملز کے 6 ہزار ریٹائرڈ ملازمین تاحال اپنے جائز واجبات کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔پاکستان اسٹیل کے تربیتی مرکز میٹلرجیکل ٹریننگ سنٹر سے ہر سال4500 ملازمین کو تربیت دی جاتی تھی مگر 2014 سے یہ مرکز غیر فعال ہو چکا ہے۔ اسٹیل ملز کی بحالی کی صورت میں تربیت یافتہ ماہرین موجود نہیں ہونگے جس سے یہ ادارہ ایک بار پھر بحرانی کیفیت کا شکار ہو سکتا ہے۔
صرف آؤٹ سورس ڈپارٹمنٹ کی بحالی سے ادارہ فعال نہیں ہوگا۔آوٹ سورس ڈپارٹمنٹ میں ایجوکیشن۔ میڈیکل ۔ ٹرانسپورٹ ۔ اسٹیٹ اور منٹینس ڈپارٹمنٹ ہیں۔ روسی وفد متعدد بار ادارے کا دورہ کر چکے ہیں اور اس طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ ادارے کی بحالی میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن حکومتی پالیسی مبہم اور غیر واضع ہے - حکومتروس صرف سرکاری سطح پر مذاکرات میں دلچسپی رکھتے ہیں- جبکہ حکومت اسٹیل ملز کو فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
ان دنوں اسٹیل ملز کے حاضر ڈیوٹی ’ملزمین‘ کو فارغ کرنے پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے۔ پاکستان اسٹیل کا افتتاح کاافتتاح وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 30 جون 1973 کو بہت ساری رکاوٹوں کے بعد کیا۔اپنی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ ''میں نے پاکستان اسٹیل ملز روس کے اشتراک سے بہت ساری اندرونی و بیرونی سازشوں کے بعد بنیاد ڈالی ہے اور پاکستان اسٹیل کو بنانے کے مقاصد یہ ہیں کہ یہ ادارہ فولاد سازی کے ذریعے ملک کی انجنیئر نگ انڈسٹری کو ترقی دے گا اورملک میں”ہنرمند مزدور“کے ذریعے بیروزگاری کا خاتمہ کرے گا''-یوں ملک میں پبلک سیکٹر میں چلنے والی بینکوں سے قرضہ لیکر پاکستان اسٹیل کو تقریباً 25 ارب کی لاگت سے مکمل کیا گیا۔
پاکستان اسٹیل ملز کراچی کی سب سے پرائم لوکیشن یعنی پورٹ قاسم انٹر نیشنل پورٹ، مین نیشنل ہائی وے، اور مین نیشنل ریلوے لائن کے بیچ میں موجود ہے۔بھٹو نے پاکستان اسٹیل کیلئے 19 ہزار ایکٹر زمین سندھ حکومت، لوکل سندھ کے قدیمی گوٹھوں کے رھواسی جوکھیو، گبول، کلمتی، قبائل کے لوگوں سے حاصل کی اور پاکستان اسٹیل 1980 میں مکمل ہوکر پیداواری عمل میں داخل ہوگیا۔
پاکستان اسٹیل ملز کا منصوبہ 11 لاکھ ٹن سالانہ پر شروع ہوا تھا اور ادارے کے پلانٹ میں یہ گنجائش موجود تھی کہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ادارے کی پیداواری صلاحیت کو اسی پلانٹ نے 33 لاکھ سالانہ تک لیکر جانا تھا۔جس کیلئے موجود پلانٹ پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے Equipment یعنی بلاسٹ فرنیس کے ساتھ دیگر فاؤنڈیشن تک Install کی گئی تھیں۔منصوبے کی اصل ڈیزائن کے مطابق پیداوار کے اگلے 5 سالوں میں Expand ہونا تھا لیکن شومئی قسمت کہ ایک طرف ملک کی فولادی ضرورت تقریباً 70 سے 75 لاکھ ٹن سالانہ تک پہنچ چکی ہے بدقسمتی سے فولاد سازی کا واحد ادارہ ملکی ضرورت کا 8 فیصد فولاد پیدا کرتا ہے اس چلتے ہوئے ادارے کو بھی ملک دشمن حکمرانوں نے سازشوں کے ذریعے 10 جون 2015 کو گیس روک کر‘ مکمل طور پر پیداواری عمل روک دیا ۔
پاکستان اسٹیل ملز تب سے اب تک بند ہے۔ کسی نے نہیں ان” مخفی ہاتھوں“ سے باز پرس کی جنہوں نے گیس بند کرکے اسٹیل ملز کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکے تھے۔ پاکستان اسٹیل کی تعمیر سے تکمیل اور پیداواری عمل تک دو قسم کے لوگوں نے مخالفت کی 1) ابتداء میں تو امریکی سامراج کے اس وقت کے طفیلی بنیاد پرست قوتوں، جماعت اسلامی، جمیعت علماء اسلام نے یہ منفی پروپیگنڈا شروع کیا کہ روس کافر ہے اس کے اشتراک سے بننے والا ادارہ حرام ہے اور روس اسٹیل ملز بنا کر ملک کے گرم پانی کے چشموں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
2) امپورٹر مافیا جن کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ سفید ہاتھی ہے اور ملک کی معیشت پر بوجھ بنے گا، مافیا کی مخالفت کی بنیادی وجہ تھی کہ یہ اسٹیل کی مصنوعات کی آڑ میں کسٹم حکامم اور ملک کے کرپٹ افسران سے ساز باز کرکے مختلف اور چیزیں اسمگلنگ کروانے تھے۔پاکستان اسٹیل ملز کو’روسیوں ‘نے Develop کیا تو سب سے پہلے ضروری انفراسٹرکچر جس میں 165 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا تھرمل پاور پلانٹ جس کی خوبی یہ ہے کہ جب ادارہ آپریشن میں ہوتا ہے تو اس کی اپنی Heavy Gasses جو فرنیس،Coke Oven اور Steel Making Department سے پیدا ہوتی ہیں ان Gasses کو پاور پلانٹ پر لے جاکر ملک کی سب سے سستی بجلی کی پیداوار کی جاتی ہے اور ادارے کا پیداواری عمل 100 فیصد ہوتا تھا اور 4000 گھروں پر مشتمل ملازمین کی رہائشی کالونی اسٹیل ٹاؤن اور 3000 ہزار سے زائد گھروں پر مشتمل گلشن حدید فیز1 کی ضرورت پوری کرنے کے بعد بھی سالہا سال اربوں روپے کی بجلی KESC کو یہ ادارہ دیتا رہا ہے اور پاکستان اسٹیل کو 110 ملین گیلن پانی کی ریزروائیر اور فلٹر پلانٹ ہے جس کی اسٹیل لیس اسٹیل کی 50 کلو میٹر کی پائپ لائن جو ضلع ٹھٹھہ کے کینجھر جھیل سے پاکستان اسٹیل کے بلک واٹر سپلائی ڈپارٹمنٹ تک ہے جس سے اپنے ادارے رہائشی کالونی کے علاوہ پرائیویٹ Down Stream Industry کو بھی فلٹر واٹر دیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ آکسیجن پلانٹ جو کہ تقریباً 15 سے20 ہزار کیوبک فٹ روزانہ آکسیجن پیدا کرتا رہا ہے ادارے کی ضروریات کے بعد ہزاروں کیوبک فٹ آکسیجن کراچی میں موجود پبلک سیکٹر کی ہسپتالوں کو سلنڈروں کے ذریعے مفت فراہم کرتا رہا ہے اور پاکستان اسٹیل ملک کا واحد ادارہ ہے جو Liquid Oxygen بھی تیار کرتا ہے۔پاکستان اسٹیل نے تقریباً 4000 ایکٹر زمین مکمل انفراسٹرکچر کے ساتھ نیشنل انڈسٹریل پارک کو دی ہے جس میں نجی شعبے کی اسٹیل فیکٹریوں کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا کار مینوفیکٹچرنگ کا ادارہ پاک سوزوکی اور YAMAHA MOTORS بھی ہے۔
اس کے ساتھ روڈ اور دیگر انفراسٹرکچر کے ساتھ پاکستان اسٹیل کا NLC کے بعد بہت بڑا ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ ہے جس میں تقریباً 850 گاڑیاں اور200 کے لگ بھگ Heavy Loading ڈمپر، ڈوزر ہیں اور انکی رپیئرنگ کیلئے مینٹیننس ورکشاپس بمعہ ماہر مکینک اور اپنا ریلوے ڈپارٹمنٹ جس میں 15 ریلوے انجن موجود ہیں۔پاکستان اسٹیل نے پورٹ قاسم پر Raw Material کے باہر سے آنے والے جہازوں کیلئے ایک ’گودی (Jetty)‘ بھی موجود ہے۔
جس سے مختلف ملکوں سے آنے والے بحری جہاز Un Load ہو کر بغیر کسی ٹرانسپورٹ کے اپنی کنویئر بیلٹ کے ذریعے تقریباً 7 کلومیٹر سفر طے کرکے پاکستان اسٹیل کے مختلف ڈپارٹمنٹ میں Un Load ہوتا ہے۔ پاکستان اسٹیل پتھر Raw Material سے اسٹیل بننے کے عمل میں فضلہ اور By Product یہ ادارہ ملک کی مختلف انڈسٹریوں کو بیچتا رہا ہے۔جس سے ادارے نے اربوں روپے کمائے ہیں اس قسم کے اور مختلف By Product جو پاکستان اسٹیل کے علاوہ اس ملک میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں
پاکستان اسٹیل کی تعمیر سے تکمیل تک کے تمام اخراجات 25 ارب بشمول سود مختلف بینکوں کو نہ صرف ادا کئے بلکہ ٹیکس کی مد میں ملکی خزانے کو سینکڑوں اربوں کا فائدہ پہنچایا پاکستان اسٹیل کا میٹالرجیکل ٹریننگ سینٹر MTC نے ابتدا سے مختلف شعبوں میں لاکھوں ہنر مند افراد تیار کئے جو نہ صرف پاکستان اسٹیل بلکہ دنیا بھر کی اسٹیل ملوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
2008ء میں پاکستان اسٹیل ملزکے ذمہ کسی قسم کا قرضہ یا ادائیگی نہیں تھی۔اسکے باوجود تب پرویز مشرف نے 9000مزدوروں کو برطرف کرکے”خریداروں“کیلئے پرکشش اور منافع بخش بنادیاتھا۔اس ادارے کے ملازمین کیلئے چار ہزار گھروں پر مشتمل خوبصورت اور جدید انفراسٹرکچر کے ساتھ رہائشی علاقہ اسٹیل ٹاؤن جو ملازمین کو مالکانہ حقوق کے ساتھ سستی ترین رہائش فراہم کرتا ہے۔
پاکستان اسٹیل کی تباہی کی وجوہاتپاکستان اسٹیل اپنے جنم سے تکمیل تک اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود خزانے میں اربوں روپے جمع کرائے جبکہ اس ادارے کے بنیادی ڈاکومنٹ میں یہ تحریر ہے کہ یہ ادارہ اپنی پیداوار پر ملک کی انجینئرنگ انڈسٹری کو سبسڈی کریگا اس کے باوجود ادارے نے منافع کمایا اور یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کرنے والے لاکھوں نوجوان اور ہنر مند بیروزگار افراد کو بالواسطہ اور بلاواسطہ روزگار فراہم کیا اور کبھی خسارے میں نہیں گیا اس ادارے کو امپورٹر مافیا نے وزارت پیداوار اور فنانس کی بیوروکریسی کے ساتھ ملکر ایک پلاننگ کے تحت انتہائی کرپٹ، نا اہل اور اسٹیل ٹیکنالوجی سے نابالغ بورڈ آف ڈائریکٹر، CEO'S مختلف قسم کے ڈائریکٹر اور جی ایم بھیجے گئے جنہوں نے مختلف وقتوں میں سیاسی حکومتوں کے ساتھ ملکر ادارے کی لوٹ مار کی یہاں تک کہ پرائم کوالٹی مصنوعات تیار کر کے کاغذوں میں اسکریپ دکھا کر اونے پونے بیچ دیا گیا ادارے کی تباہی کی ایک اور وجہ مختلف سیاسی اور فوجی حکمرانوں کی پاکستان اسٹیل سے دشمنی یہ تھی کہ اس کے توسیع کے منصوبے پر عمل نہ کرنے دیا گیا اگر اس عمل کو مکمل کیا جاتا تو موجود مین پلانٹ اور اسی مین پاور سیادارے کی پیداواری صلاحیت کو 30 لاکھ ٹن تک پہنچایا جا سکتا تھا جس سے پیداواری لاگت بھی بہت کم ہو جاتی۔
ایک اور وجہ جس کو امپوٹر مافیا مشرف دور میں لاگو کرانے میں کامیاب ہوگیا وہ SRO'S جو مختلف وقتوں میں جاری ہوئے جن کے ذریعے اسٹیل کی مصنوعات پر امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی کو 17 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد پر لایا گیا اور امپوٹر کیلئے ادارے کے CEO سے NOC کی شرط ختم کردی گئی اس سے چین کی زائد پیداوار ہونے اور اوپن مارکیٹ کی وجہ سے پاکستان اسٹیل کی سیل پالیسی بہت متاثر ہوئی اور ڈیلرز نے ادارے کی مصنوعات خریدنے سے انکار کر دیا۔
2008 سے 2012 تک کی تیار پیداوار اسٹیل یارڈ میں گل سڑ رہی تھی جس کو اس وقت کی مینجمنٹ اور سی بی اے یونین اور ڈیلر مافیا کے گھٹ جوڑ سے مختلف وقتوں میں تیار شدہ 12 ارب کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی گئی لیکن مارکیٹ میں فولادی مصنوعات سے بننے والی اشیاء کے ریٹ بڑھا کر اس تباہی میں موجود ٹریڈ یونین قیادتیں، سی بی اے اور انکی سیاسی پارٹیاں جوکہ نظریاتی طور پر دیوالیہ ہوکر سرمایہ داری کاٹول بن چکی ہیں برابر کی شریک تھیں۔
اس وقت کراچی اسٹیل ملز کی قیمتی زمین، گودی،رہایشی کالونی، سات کلومیٹر کا کنوینر بیلٹ ،بنا ہوا سامان اور (2008کے مارکیٹ نرخوں کے مطابق )تقریباََ 22ارب روپے کا بکھرا ہوا لوہا موجود ہے، اسکے علاوہ سارانفراسٹرکچر اورمختلف قسم کے پلانٹس پر لٹیرے سرمایہ داروں کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔غلط پالیسیوں اوروقت کے ساتھ ساتھ جس تکنیکی تبدیلی اور جدت کیلئے اس کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت تھی وہ نا کرکے موجودہ اسٹیل ملز کو جس طرح تباہ کیا گیاہے اس کو اب عہد حاضر سے مطابقت پیدا کرنے کیلئے ایک اندازے کے مطابق 100ارب روپے کی سرمایہ کاری درکار ہے۔
یہ سرمایہ کاری موجودہ حکومت اور ریاست کی ترجیحات دیکھتے ہوئے بہت بڑی رقم ہے ۔ حالانکہ اس سے بھی زیادہ رقم ہرسال سرکاری خزانے سے نجی شعبے میں چلنے والے انرجی اور شوگر سیکٹر میں پھینک دی جاتی ہے۔ ہر سال تخفیف غربت کے نام پر 140ارب روپے حقیقت میں ضائع کردیئے جاتے ہیں۔اسی طرح بہت سے شعبہ جات میں مختص رقوم میں معمولی ردوبدل کرکے پاکستان اسٹیل ملز کو جدید پیداواری یونٹ بنایا جاسکتاہے۔
پاکستان اسٹیل ملز کو بحال کرکے،اسکو وسعت دیکر سالانہ 3.10ارب ڈالر امپورٹ بل کم کرسکتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملزکوبحال کرکے چلانا صرف وہاں کام کرنے والے مزدوروں کی ہی ضرورت نہیں بلکہ یہ پاکستانی معیشت کے مفاد میں ہے،گویا یہ پاکستان میں سستا لوہا فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس وقت نا صرف پاکستان کے محنت کش طبقے کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ پاکستان اسٹیل ملز اور ساتھ دیگر پبلک سیکٹرز کے اہم اداروں کوبچانے کیلئے جدوجہد کا آغازکرے بلکہ اس اہم نظریاتی،سیاسی اور معاشی معاملے کو عام لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
حکمران طبقے کا یک طرفہ پراپگنڈہ جس میں پبلک سیکٹر کوملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ثابت کرنے کیلئے صبح شام نام نہاد”ماہرین “ ذرائع ابلاغ پر بیٹھ کر باشن دیتے پائے جاتے ہیں ‘ کا تدارک کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کو سستی اشیاء اورسستی خدمات صرف پبلک سیکٹر ہی فراہم کرسکتا ہے۔اسٹیل ملز کے تابوت میں تحریک انصاف کی حکومت آخری کیل ٹھونک رہی ہے۔
یہ ایک قومی ادارے کی موت ہوگی ۔ اسٹیل کی صنعت میں محتاجی اور امپورٹ بل میں عارضی اضافہ مستقل ہوجائے گا۔پاکستان اسٹیل کی بحالی اوربرطرف مزدوروں کاتحفظ‘ مزدوروں کا ہی نہیں عوام کا بھی فریضہ ہے ۔اس تحریک کا آغاز پاکستان اسٹیل ملز کے مزدوروں نے کردیا ہے۔اب سابق ملازمین ،متاثرین،کراچی بھر کے مزدوروں کی انجمنوں، ایسوسی ایشنزکو ”پاکستان اسٹیل ملز بچاؤ“ مہم میں شامل ہونا ہوگا۔اسٹیل ملز مزدوروں کی ملازمت کے تحفظ کی تحریک کی کامیابی سے ہی پاکستان کے پبلک سیکٹر کا تحفظ کی ضمانت بنے گا۔