پی ڈی ایم کی تحریک اور ناکام نظام کی سیاست!!!

بدھ 14 اکتوبر 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

تحریک انصاف کی حکومت کو جس طرح سے لایا گیا ،یہ ابھی کل ہی کی بات ہے۔ انتخابات سے پہلے دھاندلی کی گئی ، انتخابی نتائج مرتب کرتے ہوئے تمام کسریں نکال کر مطلوبہ نتائج حاصل کرلئے گئے۔ چند الیکٹ ایبلز خاص طور پر جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے کٹھ پتلی سیاستدانوں کو الیکشن سے قبل اور ”آزاد “ جیتنے والوں کو الیکشن کے بعد تحریک انصاف میں شامل کرادیا گیا۔

جنرل مشرف حکومت میں بنائی گئی ق لیگ،جنرل ضیاء الحق دور میں کھڑی کی گئی ایم کیو ایم اور اسی طرح انگریز راج کے دور میں بنائی گئی گدیوں اور مزاروں کے سجادہ نشینوں، سرداروں،تمنوں کا اتحاد نئی پراڈکٹ یعنی تحریک انصاف کے ساتھ کرایا گیا۔اس طرح اسلام آباد دھرنے کے ایمپائیر سے لیکر نیب،عدالتوں،الیکشن کمیشن اور نگرانی کرنے والوں کی جانفشانی سے عمران خان کو وفاق میں چند ووٹو ں سے اقتدار نشین کرایا گیا۔

(جاری ہے)

پنجاب میں نون لیگ کی اکثریت کو بلڈوز کرکے بذدار حکومت بنوائی گئی۔ بلوچستان میں کئی دھائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہی حکومتیں بنتی چلی آرہی ہیں ۔اس دفعہ الیکشن سے پہلے ”بلوچستان عوام پارٹی“ کے نام سے ”وفاداروں“ کو جمع کیا گیا اور اقتدار سونپ دیا گیا۔اسٹیبلشمنٹ نے اس دفعہ بھی ایک نیا تجربہ کیا تھا مگر ایک شکست خوردہ نظام اور ناکام ہوتی سرمایہ داری پراستوار حکومت کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی تھی۔

چنانچہ تحریک انصاف کو بالکل شروع میں ہی پتاچل گیا تھا کہ کام کی بجائے الزام تراشیوں،دھمکیوں اور سیاسی انتقام کے ذریعے سب کی توجہ کسی اور طرف مبذول کرانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ چنانچہ الیکشن سے قبل سے جاری شدہ انتقامی اور یک طرفہ احتساب کے عمل کوزیادہ شور شرابے کے ساتھ الیکشن کے بعد بھی جاری رکھا گیا۔ گرفتاریوں اورطویل قید وبند کو کسی بھی نام نہاد قانونی تقاضے کے بغیر اپنا کر‘ ایسا سیاسی ہیجان پیدا اور اسکو طویل کیا گیا کہ ردعمل شروع ہوگیا۔

عمران خان مستقبل قریب میں اسی ”سیاسی ہیجان“ اور ردعمل کو اپنی ناکامی کے ایک جواز کے طور پربھی پیش کرسکتا ہے۔ اس سیاسی انتشارکو بنیادی ناکامی یعنی نظام کی ناکامی سے توجہ مبذول کرانے کیلئے استعمال کیا جانا پاکستانی راج نیتی کا بنیادی وصف ہے۔ اب بھی تاریخ سے پچھڑی ریاست،حاکمیت،حکمران طبقے اور زوال پذیر سرمایہ داری نظام کے قضئے کو ناکام حکومت کے خاتمے اورنام نہاد کامیاب حکومت کے قیام کے سراب سے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔


 ماضی کے حکمرانوں کے اتحاد پر مشتمل موجودہ اپوزیشن نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا پورا پروگرام مشتہر کردیا ہے۔ قبل ازیں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سرپرست اورتین دفعہ معزول کئے گئے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس تحریک کوپی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے والوں کے خلاف قراردیا تھا۔نواز شریف نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے بننے والے نئے اتحاد کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فوج پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاست میں مداخلت کر کے جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کرتی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار فقط منتخب نمائندوں کو ہونا چاہیے۔ انہوں نے سن 2016 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی وزارت اعظمی کے دور میں جب فوجی قیادت کو بتایا گیا کہ متعدد سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی برادری کے ساتھ ساتھ دوست ممالک بھی پاکستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تو فوج نے اسے ڈان لیکس کا نام دے دیا۔

نواز شریف نے ماضی میں بلوچستان حکومت کے خاتمے میں فوج کی بہ راہ راست مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت کا خاتمہ کر کے سینیٹ کے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی راہ اپنائی گئی اور اس معاملے کا ایک کردار تب فوج کی سدرن کمان کے کمانڈر لیفٹینٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ تھے۔ واضح رہے کہ عاصم سلیم باجوہ اس وقت وزیراعظم عمران خان کے خصوصی معاون برائے اطلاعات و نشریات اور پاکستان چین اقتصادری راہ داری اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔

نواز شریف نے کہا کہ پچھلے چند برسوں میں عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کی دولت اور اثاثوں میں اربوں روپے کے اضافے پر نہ میڈیا پر بات کی جا سکی اور نہ نیب نے کوئی نوٹس لیا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کو روایت سے ہٹ کا ایک مربوط اور ٹھوس لائحہ عمل وضع کرنا ہو گا۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ ملکی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ عوامی مینڈیٹ نہ چرایا جائے اور ہر حال میں عوامی رائے کا احترام کیا جائے۔


پاکستان کے عسکری حلقوں کے خلاف یہ بیانیہ نیا نہیں ہے۔ راکھ کے نیچے دبی ہوئی چنگاریاں‘ سلگتی ہی آرہی ہیں۔ جونہی گمان ہوتا ہے کہ مبادہ سلگتی چنگاریاں بڑھک نا اٹھیں‘ مقتدرحلقے شعلوں کو ہوادینے والے عوامل پر شراکت اقتدار کی مٹی ڈال کرچنگاریوں کو دبا دیتے ہیں۔ ان دنوں اسی قسم کی تقاریر کا گھن گرج بھی جاری ہے۔ مگر ساتھ ہی درمیانی راہ بھی لی جاتی ہے اور بھونڈے انداز میں افواج پاکستان کی تعریف بھی کی جاتی ہے اور اسکو اپناتے ہوئے اپنے پہلے تاثر کی نفی بھی کی جاتی ہے۔


اس امکان کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں موجود سیاسی اور غیرسیاسی عناصر کے مابین بظاہرسیاسی کشمکش کے پیچھے چینی اور امریکی سامراجی قوتوں اورعلاقائی حلیفوں کابھی کہیں نا کہیں اثر رسوخ ہو۔اس گمان کے پیچھے پاکستان کی 73سالہ تاریخ،سامراجی اطاعت گزاری وفوجی خدمات کیساتھ واقعات کا ناختم ہونے والا سلسلہ بھی ہے۔ اسی طرح موجودہ عہد میں پاکستانی حاکمیت اور امریکی حکام کی باہمی بدگمانی اور ایک دوسرے کے ساتھ بداعتمادی پر مبنی کیفیات ہیں تو دوسری طرف سی پیک پر بھی کئی طرفہ مسائل موجود ہیں۔

مگر یہ معاملے کا محض ضمنی پہلوہی ہوسکتا ہے۔ حقیقی وجہ یقینی طور پر ”عوام کامقدمہ“لڑنا مقصود نہیں ہے۔ پاکستانی اپوزیشن ساری زندگی جس عفریت کے ساتھ مل کر عوامی یا اکثریتی محنت کش طبقے کے مفادات سلب کرتی رہی ہے،اب اس کو اپنے قابو میں لانے کی خواہش کا اظہار کررہی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وہ (تاریخی عمل سے بہت پیچھے رہ جانے کے باوجود)قومی جمہوری حقوق کے اس حصے پر اپنے مطالبات کو استوار کررہی ہے جس حصے میں اقتدار پر حق فائق کا معاملہ طے کیا جاتا ہے۔

اپوزیشن اپنے مطالبات میں قومی جمہوری مملکت کے دیگر فرائض پر مکمل خاموش ہے ۔ مثلاََ سامراجی اثررسوخ اور مفادات کی بجائے قومی مفادات کو مقدم دینا،صنعتی انقلاب کے ذریعے قومی مملکت کے قیام کے تقاضے پورے کرنا، زمینوں کی تقسیم یا جیسی تیسے جاگیردارانہ تاثر کا خاتمہ،مذہب کو ریاست سے جدا کرنا، مذہبی اقلیتوں کے برابر کے شہری کا درجہ دیا جانا،چھوٹی یا شدید استحصال کا شکار قوموں کے حقوق کو تسلیم کرنا اور انکی حق رسی کرنے کے اقدامات کرنا،خواتین کے
 جملہ حقوق کی برابری،تعلیم ،صحت کی سہولیات،انسانی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے تقاضوں کو پورا کرنا جیسے معاملات پر ”اپوزیشن“ کا بیانیہ قومی جمہوری حقوق کی اس جنگ کے کسی حصے میں بھی موجود نہیں ہے۔

جہاں تک انکی جمہوری مانگوں کا تعلق ہے تو یہ بھی اتنی ہی” جمہوری“ ہیں جتنے ان سیاسی پارٹیوں کے ڈھانچے اور طریقہ کار جمہوری ہیں۔
تشکیل دیئے جانے والے ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ “میں اگرچہ شریک تو گیارہ پارٹیاں ہیں مگر انکے پاس مثالے پورے بارہ ہیں۔مثلاََ جیسے جمہوریت پسند سیاسی پارٹیاں، مذہبی قوتیں جن کی مبینہ طور پرسٹریٹ پاور کی وجہ سے انکی غیر جمہوری عزائم سے یکسر صرف نظر کیا جارہا ہے۔

ایسی چیدہ چیدہ قوم پرست پارٹیاں بھی ہیں جن کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی قوموں کے استحصال کے خلاف پروگرام اور مانگوں کی پرچی جیب میں ڈال کر استحصالی قوتوں یا پھر ایسی قوموں کے حکمران طبقے کے ساتھ شامل اقتدار ہوجاتی ہیں جن پر چھوٹی قوموں کے حقوق غصب کرنے کے الزامات تواتر سے لگتے چلے آرہے ہیں۔کچھ ایسی ”انقلابی قوتیں“بھی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنے کی دعوے دار ہیں مگرلینن اور مارکس کے سارے سبق بھول کر اسی نظام کے کارندوں کا کام دینے والی پارٹیوں کے ساتھ چمٹنے میں مشغول ہے۔

اگر چہ بائیں بازو کے اس فرقے کے پاس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد کے ایک نکتے پر اتفاق کا استدل موجود ہے، مگروہ محنت کش طبقے کے متحرک ہونے تک انتظار نہیں کرسکتے۔ دراصل یہ(اپنی سیاسی زندگی کے چند سالوں میں ہی) طویل اور صبرآزما انتظار سے اکتاچکے ہیں۔وہ محنت کش طبقے پر انحصار اور انکو انقلاب کیلئے تیار کرنے کی طویل اوراستقامت سے بھر جدوجہد کی بجائے چورراستوں پر انحصار کی طرف گامزن ہورہے ہیں۔

ایک دو درجن اراکین پر مشتمل قومی پرست پارٹیاں بھی ”پی ڈی ایم“ کے اراکین کی فہرست میں پارٹیوں کی تعداد کو بڑھانے کی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اقتدار کی رسہ کشی کے اس مقابلے میں بہت سے ظاہر کردہ اور ظاہرشدہ سے بھی زیادہ بدنام ہوچکے پس پردہ مقاصدپنہاں ہیں۔ پس پردہ مقاصد کازیادہ چرچا ہے۔ اسکو مخالف حکومتی زعماء کا پراپگنڈہ قراردے کر مسترد کیاجاسکتاہے ۔

مگر ماضی قریب کی کئی تحریکوں کا ”آغاز اورانجام“،گواہ ہے کہ ہر تحریک کا ظاہر کردہ ایجنڈا ‘ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور پس پردہ ”مفاہمتی “ عمل سے مطلوبہ نتیجے کے بعد”احتجاجی تحریک“ کسی سڑک پر تنہا ٹھٹھر ٹھٹھر کر دم توڑ دیتی ہے۔ نوازشریف کو ”علاج معالجے کیلئے جیل سے نکال کرلندن کی پررونق فضاؤں میں پہنچانے والے تحریک پچھلے سال کا مشہور واقعہ ہے۔

اس تحریک کے بیان کردہ مقاصد بھی تقریباََ موجودہ اے پی سی کے مقاصد سے ملتے جلتے تھے۔ پچھلے سال کی تحریک جس کا نام”آزادی مارچ“ رکھا گیا تھا کے روح رواں بھی مولانا فضل الرحمان تھے،جو موجودہ ”پی ڈی ایم “کے سربراہ بنا دیئے گئے ہیں۔ بظاہر اس تحریک کو ناکام قراردیا گیا تھا ،یہ درست تجزیہ تھا‘ مگر ظاہر کردہ مقاصد کے اعتبار سے۔ مگردرپردہ معاملات جو بھی ہوں نتائج کے اعتبار سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف جو جیل میں بطور سزا یافتہ مجرم کے طور پر بند تھے،انکوکچھ سکرپٹ بدل کر تقریباََ پرویز مشرف کے طرز سے بیرون ملک بھجوادیا گیاتھا۔

اب اکثر وہ لندن کے کسی نا کسی ریستوران میں کھابے اڑاتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف اقتدار کی میوزیکل چیئر کے اس کھیل میں اقتداردینے والوں نے اس دفعہ بندوبست مختلف قسم کا کیا ہے ۔ گو اسمبلی کے ہال کو ”اراکین“ سے بھرنے کا اہتمام باقاعدہ الیکشن کراکے کیا گیا تھا، جس پر پورے 21ارب روپے (11ارب روپے پرنٹنگ ،ٹریننگ، عملے ،نقل وحمل وغیرہ اور باقی 10ارب روپے کے قریب ‘ان معاملات کی حفاظت پر) خرچ ہوئے تھے۔

مگر الیکشن کے نتائج‘اس دفعہ ہارجانے والی وہ پارٹیاں کیسے مان سکتی ہیں جن کے علم میں ہے کہ ماضی میں انکو اسی طرح کے ”الیکشن کھلواڑ“ میں دوتہائی اکثریت بھی دی جاتی رہی ہے۔یہ سب گھر کے بھیدی ہیں۔ لہذا کسی ایسے انتخاب کو جس میں انکے نمبرز کم کردیئے ہوں ”جمہوریت“ پر شب خون قراردینے میں حق بجانب ہوتے
 ہیں۔ پالیسی ساز بھی ایک جیسے کام کرکر کے تھک جاتے ہیں لہذا انہوں نے اس دفعہ ندرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئے طرز کا حکومتی ڈھانچہ تیار کیا ہے۔

نامکمل مارشل لاء ہے اور نا ہی جمہوریت کی کوئی رمق کہیں پر نظر آرہی ہے۔سارے اختیارات کا قانونی حق دار وزیر اعظم کا منصب ہے مگر ان اختیارات کے استعمال کی صعوبت سے بھی اسکو بچانے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کو ورزش اور نجی مصروفیات کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت مہیا کرنے کیلئے پانچ چھ درجن مشیر۔وزیررکھے گئے ہیں اسی طرح کئی درجن ترجمان بھی ہیں، ایک ہی پیج پر ہونے والی سرگرمیوں کو منظم رکھنے کیلئے ”معروف“ ریٹائیر جنرل‘ عاصم سلیم باجوہ بھی وزیراعظم کے ساتھ منسلک کردیئے گئے ہیں۔

موجودہ مفلوج ذہن اوراحساسات سے یکسرمحروم حکومت اور انکے سرپرست اپنی بالادستی کااستقرارچاہتے ہیں۔دوسری طرف حکمرانی کے مراکز کے کھونٹے سے رسی تڑوانے والے ، لولے لنگڑے،شکست خوردہ اور مقتدرہ کیلئے فل حال بے کار ہوجانے والے عناصر کا گیارہ رکنی اتحاد ہے۔بھان متی کے اس وسیع کنبے میں ‘ایک آدھ گروہ نیا یا نیم سیاسی بھی دیکھا جاسکتا ہے․ مگر ایسے نووارد سیاسی مشاہیر کسی سیاسی یکسوئی سے یکسر بے نیاز صرف خود کو مان لئے جانے کی شادمانی سے مخمور ‘یہاں پر موجود ہیں۔

جملہ معترضہ کے طور پرسرائیکی وسیب کی محرومی دورکرنے کا عزم رکھنے والی اور پچھلی دودھائیوں سے چپ سادھے‘ ”سرائیکی نیشنل پارٹی“ بھی ملکی سطح کے اس بڑے اتحاد میں موجود ہے،ناقدین کے مطابق ایس این پی کی کل ممبر شپ تین یازیادہ سے زیادہ چارکے قریب ہے۔
 یہ اتحاد اخلاقی اور سیاسی جواز سے محروم اور نظریاتی بے سمتی کا شکارہے۔ اقتدار کی محرومی نے اسکو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جس پر چلنا اور نا چلنا دونوں ہی انکے لئے محال ہیں۔

پیپلز پارٹی کچھ عرصہ پہلے ہی تو”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ سے تائب ہوکر ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہے“سے منہ موڑ چکی تھی۔اب عوام سے اسکا رابطہ زبانی کلامی ہی رہ گیا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی پی پی نے بلوچستان کی حکومت گرانے اور مجوزہ مشترکہ سینٹ کے چیئرمین کیلئے رضاربانی کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے سنجرانی کا انتخاب کیا تھا۔ پارلیمنٹ کی ہرقانون سازی ،انتخاب یا عدم اعتماد کی تحریک میں متحدہ اپوزیشن کی گنتی ووٹنگ سے پہلے اکثریت میں ووٹنگ کے دوران اقلیت میں بدل جاتی ہے۔

جلسوں میں یہ فوجی قیادت سے عدم مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں مگر غیر آئینی اور غیر قانونی طو ر پر رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں ملاقاتیں اور فرمائشیں کرتے پائے جاتے ہیں۔ دیہی اشرافیہ جن کو غلط العوام اصطلاح کے مطابق جاگیر دار کہا جاتا ہے ۔ ان سیاسی خانوادوں کی سیاسی تقسیم یعنی ایک بھائی ایک پارٹی میں دوسرا مخالف پارٹی میں ، ایک
آدھ بھانجا بھتیجا کسی ممکنہ تیسری پارٹی میں ہوتا ہے۔

اسی معصومانہ چالبازی مسلم لیگ نوازشریف گروپ نے اختیار کیا ہوا ہے۔ بڑا بھائی اسٹیبلشمنٹ کا مخالف ہے مگر چھوٹا بھائی ہفتے میں دودفعہ فوجی میس کاکھانا نا کھائے تو ہاضمہ خراب ہوجاتاہے۔اب ان چالاکیوں کو چھپانا مشکل ہوچکا ہے۔ شیخ رشید جیسے ڈبل ایجنٹ بیچ چوراہے میں بھانڈا یونہی نہیں پھوڑتے ، یہی انکی ڈیوٹی اوروفاداری کا تقاضا ہے ۔

مگر دوسری طرف آرمی چیف کے عہدے اور مدت ملازمت میں توسیع کی کشمکش پر اور مولانا فضل الرحمان کے دعووں کے مطابق پچھلے سال کے انکے ”آزادی مارچ“ میں ان سے کئے گئے مذاکرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن ایک اکائی نہیں ہے تو مدمقابل قوتیں بھی کافی منقسم ہیں۔منقسم گروہوں میں طاقت ور گروہ ابھی تک کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ مگر ناکام ”طاقت وروں “ کی محرومی انکے حلیفوں کی تعداد میں اضافہ بھی کرسکتی ہے ، یوں توازن بدل بھی سکتا ہے۔

گو اب شدت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے مگر ماضی قریب میں نون لیگ اور پی پی کی حکومتوں میں بھی عوام مہنگائی،بے روزگاری،لاقانونیت کا شکار تھی۔ ان ادوار میں بھی آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق شوق سے گلے میں ڈالا جاتا تھا۔ نجکاری ،نیو لبرل پالیسیز کا نفاذ اور عوام دشمن اقدامات تسلسل سے جاری تھے۔ اب ماضی کے حکمران اپوزیشن میں ہیں تو اپنے دور کے اقدامات کی شدت میں اضافے کے مخالف ہیں۔

انکی چالاکی یہ ہے کہ وہ مہنگائی ،بے روزگاری،لاقانونیت،غیرجمہوری اقدامات ،جبری گمشدیگیوں،متوازی حکومتوں یا ماوراء ریاست ،ریاست کے قیام کے خلاف ہیں مگران غیرپسندیدہ اور ظالمانہ اقدامات کی وجوہات کے خاتمے کے خواہاں نہیں ہیں۔انکے پاس کوئی متبادل پروگرام نہیں ہے جو محنت کش طبقے کو انکے ہم رکاب کرنے کی کشش پیدا کرسکے۔ انکے پاس کوئی حل نہیں ہے جو سامراجی معاشی یلغار کا راستہ روک سکے ، جو مہنگائی سمیت ہر معاشی حملے کا بنیادی محرک ہے۔

غیر جمہوری قوتوں کا ریاست کے اوپر ریاست بننے کی سادہ سی وجہ تو قومی جمہوری مملکت کے قیام کی ناکامی ہے۔ خلاء تو نہیں رہ سکتا ،اگر حقیقی سرمایہ دارطبقہ اور حکمران طبقہ نہیں ہوگا تو کوئی تو اس خلاء میں کردار ادا کریگا۔فوج اگرچہ کوئی طبقہ نہیں ہے اور نا ہی بن سکتا ہے مگر تاریخی کمزوری سے سب سے فائدہ اسی کو پہنچ رہا ہے۔ ایک قومی جمہوری حکمرانی کا ادھورا کردار اسکی کے تصرف میں ہے۔

یعنی وہ عوام کو مطلوبہ حقوق کی ادائیگی کرنے پر یقین نارکھتے ہوئے بھی ریاست کے وسائل کے بیشتر حصے پر اپنا حق جمائے ہوئے ہے۔ اس مملکت کی بھینس کا سارا دودھ اسکی کے تصرف میں ہی ہے۔ ایک طبقاتی جدوجہد اور نظام کی تبدیلی کی لڑائی کے بغیر موجودہ توازن کو بدلنا بہت مشکل ہے۔
 دوسری طرف جمہوری حقوق کو سامراجیت کے موجودہ عہدمیں کسی قومی جمہوری جدوجہد سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

یہ اجارہ داریوں کا دور ہے۔ جن سے مقابلہ مقامی(طفیلی) سرمایہ دارطبقہ نہیں کرسکتا۔ قومی جمہوری انقلابات کا دور کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ اب قومی جمہوری حقوق کی ادائیگی کافریضہ بھی صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ادا کیا جاسکتاہے۔ اسکے لئے ایک انقلابی پروگرام کی ضرورت ہے۔ایک انقلابی متبادل ہی سامراجی حملہ آوری اور غیر جمہوری قوتوں کو شکست دینے کی نظریاتی،سیاسی سمت دریافت کرسکتا ہے۔

اکثریتی محنت کش طبقے کو ملائے بغیر یہ کئی طرفہ لڑائی جیتنا ممکن نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نعرے بازی سے صرف سودے بازی ہوسکتی ہے جو کہ بادہ النظرمیں اپوزیشن کا مطمع نظر ہے۔ اگرچہ نعرے بازی کبھی کبھی زیادہ بڑھ جاتی ہے مگر پارٹیوں کے حقیقی مالکان جلد ہی اپنے کسی نا کسی فقرے سے اس قسم کی گستاخی کا تدارک کردیتے ہیں۔ایک طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کے مخالف ہیں تو دوسری طرف وہ مارچ 2021ء میں سینٹ کے الیکشن اور اگلے عام انتخاب میں اپنی حصہ داری کے تناسب پر یقین دھانی چاہتے ہیں۔

اس اتحاد میں جمہوری قوتیں اگر ہیں تو انکی سربراہی طالبان کو خلق کرنے والی بنیاد پرستی فرمارہی ہے۔متذبذب،تضادات اور سامراجی عزائم سے ہم آہنگ ،یہ موجودہ سیاسی عہد کا حقیقی چہرہ ہے۔ نام نہاد اپوزیشن جو گزرے’ عہدوں‘ کے مطالبات کو بغیر کسی انقلابی پروگرام کے منوانا چاہتی ہے کے پاس عوام کی نمائندگی کیلئے ایک بھی نکتہ نہیں ہے۔ فیصلہ کن لڑائی کا حقیقی فریق محنت کش طبقہ ہے ‘باقی سارے برسرپیکار گروہ ایک ہی فریق کے مختلف حصے ہیں۔مگرتحریکیں خواہ جتنی بھی جعلی ہوں ،لڑائی خواہ جتنی بھی مصنوعی ہو، اگر شروع ہوجائے توانکی چنگاریاں سماج میں دبے تضادات کے بارود میں آگ لگاسکتی ہیں۔ایسی آگ پھر سوئے ہوئے محنت کش طبقے کو بھی جگاسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :