کشمیر‘اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں!

ہفتہ 2 فروری 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

حکومت کی جانب سے یوم یکجہتی کشمیر منانے کے لئے پروگرامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے ملکی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کی قیادت میں یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوان صدر کے سامنے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جائے گی مجوزہ پروگرام کے تحت وزیراعظم عمران خان ڈی چوک اسلام آباد میں کشمیر پر خطاب بھی کرینگے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پانچ فروری کو آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرینگے جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی لندن میں برطانوی پارلیمان میں ایک بین الااقوامی کشمیر کانفرس سے خطاب کے علاوہ لندن کے ایک مقامی ہوٹل میں خصوصی نمائش کے پروگرام میں بھی شرکت کرینگے جس میں بھارت کی جانب سے کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

جنت نظیر کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دہشت و وحشت کی فضا قائم کر کے بھارتی سرکار دبانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے اور بھارت آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے جو سفاکیت کیساتھ جبر کی تاریخ رقم کر رہا ہے اس پر عالمی قوتیں‘انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور اقوام متحدہ‘سلامتی کونسل جیسے فعال ادارے بھی خاموش رہ کر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے ظلم و بربریت کو تقویت دے رہے ہیں۔

پاکستان کے دورہ پر آنیوالی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی صدر ماریا فرنینڈا کیساتھ صدر‘وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے الگ الگ ملاقاتوں کے دوران کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی جانب توجہ مبذول کروائی لیکن ماریا فرنینڈا نے صرف اتنا کہا کہ انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہییے جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی بھارتی بربریت کیخلاف لب کشائی سے گریزاں ہے صیہونی قوتوں کو پاکستان اور مقبوضہ کشمیر سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں۔

1946ء کو جب قائد اعظم مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر گئے تو وہاں انہوں نے سیاسی‘دفاعی‘اقتصادی اور جغرافیائی زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا۔لیکن افسوس قائد اعظم کے بعد پاکستان کے کسی بھی حکمران نے قائد کے آہنی عزم کے تسلسل کو قائم نہیں رکھا۔1990ء میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی اپیل پر اس وقت کی حکومت نے کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے 5فروری کو یوم اظہار یکجہتی کشمیر منایا جو آج تک ہر سال پانچ فروری کو منایا جاتا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کا مجموعی رقبہ 84471مربع میل ہے جس میں سے باون ہزار مربع کلو میڑ پر بھارت جبری طور پر قابض ہے جبکہ 32ہزار مربع کلو میڑ رقبہ پر پاکستان کا کنٹرول ہے جس میں سے چار ہزار مربع میل کے رقبہ پر آزاد جموں و کشمیر واقع ہے۔کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس کرہ ارض پر بسنے والی انسانی حیات سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔

بھارت جس نے برطانیہ اور کانگریس پارٹی کی گود میں بیٹھ کر جمہوری سبق تو یاد کر لیا لیکن شاید یہ بھول گیا کہ جس دن بھارت کے طول و عرض میں یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے اسی دن مقبوضہ کشمیر کے قریہ قریہ میں بھارتی غاصب فوج کے جاری ظلم و بربریت کے خلاف یوم سیاہ منایا جاتا ہے جو بھارت کی جمہوریت پر بہت بڑا قدغن ہے۔بھارتی جمہوریت بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مصداق ہے بھارت میں بسنے والی مختلف نسلیں‘زبانیں اور مذاہب اس کے نقشے کو مکمل کرتے ہیں لیکن چالباز ہندو سیاسی پنڈتوں نے سیکولر ازم کی آڑ میں جمہوری ڈرامہ رچا کر آمریتی سوچ کے ساتھ بادشاہت قائم کی ہوئی ہے۔

کشمیر میں بسنے والے مسلمان بھارت کی آٹھ لاکھ غاصب فوج کیجانب سے نسل کش پالیسی اور مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور سیاہ پرچم لہرا کر دنیا کے سامنے جمہوریت کے لبادے میں چھپے اس کے آمریتی چہرے کو بے نقاب کر رہے ہیں۔بھارت کشمیر میں 1989ء سے جاری حق خود ارادیت کی تحریک کو سبو تاژ کرنے کے لئے جو استبدادی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے اب اس میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شدت آتی جارہی ہے۔

کشمیر ی مسلمانوں پر بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کے اعداد و شمار کا اگر جائزہ لیا جائے تو اب تک ایک لاکھ کشمیری مسلمان شہید ہو چکے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار ایسی شہادتیں ہیں جو رپورٹ نہیں ہو سکیں اس کے باوجود بھارت سرکار کشمیر میں جاری حق خودارادیت کی تحریک کو بیرونی دہشت گردی سے جوڑ کر بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہے۔

بھارت کی ہٹ دھرمی‘انا‘تکبر اور جبر کی انتہا کا نتیجہ یہ کہ 2016ء میں حریت پسند مجاہد برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیری نوجوانوں میں بھارت مخالف سرگرمیوں میں شدت دیکھنے میں آرہی ہے جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں موجود بھارتی فوج کے لئے آزادی کی تحریک سوہان روح بنتی جارہی ہے۔بھارتی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق کشمیر کی تحریک آزادی میں جو کشمیری نوجوانوں کے شامل ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ 2013ء میں اکتیس فیصد تھا جو گذشتہ سال 2018ء میں بڑھ کر چھیاسٹھ فیصد تک جا پہنچا ہے ۔

ان حالات کے پیش نظر عالمی میڈیا نے بھی زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تبصرے میں یہ سوال اٹھا دیا کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ کشمیر میں بھارتی فوج کا رویہ سفاکانہ اور بزدلانہ ہے ۔بھارت کشمیر میں جو مسلمانوں کے خون سے ہولناک تاریخ رقم کر رہا ہے اس سے بھارتی چہرہ بری طرح بے نقاب ہوتا جارہا ہے اب تو بھارتی میڈیااور دانشور طبقہ بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے پھسلتا جا رہا ہے بھارتی دانشور سنتوش بھارتیہ نے مودی سرکار کے نام ”اٹھتا ہوا کشمیر“کے نام سے کھلا خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ اگر چہ کشمیر کی زمین ہمارے ساتھ ہے لیکن کشمیری ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔

حکمران پارٹی کے رہنما سابق وزیر خارجہ یشونت سنگھ کی جانب سے یہ کھلا اعتراف کیا گیا کہ کشمیر کے متعلق نئی دہلی کی پالیسی کنفیوژن کا مجموعہ ہے اور کشمیری عوام جذباتی طور پر بھارت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔بھارت کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں نے کشمیر میں ہونے والے مظالم اور بھارت سرکار کی ہٹ دھرم پالیسیوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔

پاکستان میں موجود میڈیا اور دانشور طبقہ کو چاہیے کہ کشمیر میں ہونیوالے بھارتی مظالم کے خلاف بھر پور آواز بلند کرتے ہوئے بھارت کے غیر جمہوری چہرہ کی دنیا کے سامنے نقاب کشائی کرے تاکہ دنیا جان سکے کہ بھارت کا اصل چہرہ کتنا بھیانک ہے۔ موجودہ حکومت کو بھی یہ بات ازبر کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری تحریک آزادی کے حق میں بھر پور آواز بلند کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ ہموار کرے تا کہ بھارت اقوام متحدہ میں کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرنے پر مجبور ہو اقوام متحدہ جیسے ادارے کو کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لے کر تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دے۔

تاکہ جمہوری تقاضوں کے پیش نظر کشمیری مسلمانوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے اور کشمیری مسلمان آزاد اور خود مختار حیثیت میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :