میں خوش ہونا چاہتا ہوں

پیر 18 نومبر 2019

Rehan Muhammad

ریحان محمد

مایوس اور اداس لوگوں کا سروے کراے جاے تو بلا تامل بلا جھجک اول پوزیشن میری ہو گی۔میرا حلقہ احباب مجھے مایوسی پھیلانے والوں میں بھی پہلا نمبر دیتے ہیں  ۔مایوسی اور اداسی نے چاروں اطراف سے  مجھے گھیرا ہوا ہے۔اگر  مایوسی اداسی  تھوری دیر کے لیے  ہٹ بھی جاے تو واپس اس طرح آتی ہے۔ جیسے بہت گہرے کالے  بادلوں میں سے  چند لمحوں کے لیے چاند  نکلے اور پھر  دوبارہ گہرے  بادل اپنی  قید میں کر لیں۔


 جب سے ہوش سنبھالہ ہے (بہت سوں کا خیال ہے مجھے ہوش آیا ہی نہیں)۔ یہی سنا  ملکی  سالمیت خطرے  میں  ہے ملک  کو اندرونی بیرونی  خطرات لاحق ہیں۔اپنے ارگرد ناانصافیاں ،ظلم و جبر  ،جھوٹے وعدے دعوے دیکھیں ہیں۔اب  تک  جتنی  بھی حکومتیں آی ہیں، عوام سے انصاف، تعلیم ،روزگار ، فلاح و بہبود کے دعوے  کر کے آی ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان پیپلز پارٹی چار بار برسراقتدار  ای ہے۔

میری ناامیدی کیا دور کرتی کہ اپنے روٹی کپڑے مکان کے دعوے میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ کر سکی ۔بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اندھیرے میں دکھیل گیی۔اسی طرح مسلم لیگ  کی حکومت حروف تہجی بدل بدل کر چار مرتبہ حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔نتیجہ امیر مذید امیر اور غریب مذید غریب ہو گیا۔ کئی مرتبہ  فوج نے حالات سے فاہدہ اٹھا کر باری لی ۔لیکن  اس کی ساری توجہ  اپنی باری لمبی کرنے  پر تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کی اس نظام کے خلاف اور اقتدار میں آنے کے لیے بائیس سال جدوجہد  کی۔عمران خان کی نظام کی تبدیلی کے منشور نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے پر اور اس کے عزم و استقلال نے میری مایوسی میرے اندھیرے کچھ کم کیے۔مجھے نیی سوچ کے ساتھ روشنی کی کرن نظر  آنے لگی۔آخر کار وہ وقت بھی آگیا کہ تحریک انصاف کی حکومت آ گیی۔میری امیدوں کے چراغ روشن ہو گے۔

نیے سورج کے ساتھ نیا دن نکلا یے۔اب سوا سال سے وطن عزیز  پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت  ہے۔اس تمام عرصے میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تبدیلی کے دعوے محض دعوے نکلے۔جسے میں روشنی کی کرن سمجھا وہ صرف چمک نکلی ۔روشنی کا لشکارہ تھا۔ایک بار پھر پہلے سے بھی زیادہ قنوطیت کا شکار ہوں۔میرے لیے عفریت کی گھڑی ہے۔حکمرانوں کی کارکردگی کے علاوہ بھی کسی دوسری طرف سے ٹھنڈی ہوا کا کوی جھونکا نہیں آیا۔

جہاں نظر پڑتی ہے وہاں تباہی و بربادی بدحالی نظر آتی ہے۔
ملک میں نظام صحت کا یہ حال ہے کہ سرکاری ہسپتالوں  میں مریض کے علاج پر کوی توجہ نہیں دی جاتی۔ہسپتالوں میں ٹیسٹ کرنے والی مشینیں خراب پڑی ہیں۔ایک بیڈ پر چار چار مریض ہیں۔ڈاکٹر حضرات پوچھتے نہیں۔خراب حالت زار کے باعث عورتیں ہسپتال کے فرش پر بچے جن رہی ہیں ہیں۔سانپ کے ڈسنے کتے کاٹنے کی ویکسین نہیں۔

حالیہ سانپ اور کتے کے کاٹنے کے پہ در پہ واقعات  نے حکومتی دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔یہی مریض علاج کے لیے پرئیویٹ ہسپتال جائیں  تو ڈاکٹر کا رویے اور علاج  بہتر ہو جاتا ہے۔ vip  طبقہ  غریب عوام کے دیے  گے ٹیکس کے  پیسوں سے اپنا vip علاج کرواتا  ہے۔
نظام تعلیم کی صورت حال بھی نظام صحت جیسی ہے۔جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔اچھا موثر  نظام تعلیم نہیں  بنا سکے۔

  اٹھارویں صدی سے باہر نہیں نکلے۔ سرکاری سکول کالجوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے نہیں بڑھی۔آج بھی ملک کی کثیر آبادی تعلیم سے محروم ہے۔کیی سکولوں کی حالت زار ناقابل بیان ہے ۔سکول کی چھت نہیں استاتذہ نہیں۔پینے کا صاف پانی نہیں۔اس صورتحال کا فائدہ پرائیویٹ  سکول  سسٹم نے اٹھایا ہے۔جہاں تعلیم کے نام پر من مانی فیسوں ،لے کر کھلی لوٹ مار مچا رکھی ہے۔

اب تعلیم کا کاروبار پاکستان میں بڑے کاروبار میں شمار ہوتا ہے ۔باقاعدہ صعنت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
نظام انصاف کی بات کی جاے تو تعلیم اور صحت سے دو ھاتھ آ گے ہے۔مظلوم کی ساری عمر انصاف کے حصول کے لیے گذر جاتی ہے۔چھوٹے سے جرم میں ضمانت نہیں ہوتی اور جیل میں عمر گزار دیتا ہے۔انصاف کے حصول کے لیے ناصرف اپنی ساری جمع پونجی زمین جایداد لگا دیتا ہے بلکہ اپنی اگلی نسل کو بھی مقروض کر جاتا ہے ۔

عوام کا انصاف پر یقین نہیں رہا۔سانحہ ساہیوال ،سانحہ ماڈل ٹاون، صلاح الدین کا پولیس قتل ،ورثا کو آج تک انصاف نہیں ملا۔اس کے برعکس ملک کے طاقت ور  VIP  طبقہ کے لیے عدالتیں 24/7  کھلیں ہیں ۔انھیں من مانا انصاف مل رہا ہے۔
پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہو گا جہاں اچھی تعلیم صحت اور انصاف ریاست نہیں دیتی ۔بلکہ عوام کو خود خریدنی پڑتی ہیں۔

ملک میں مہنگای کا اژدھا بےقابو ہے۔ہوشربا یوٹیلٹی بل جن کی اداییگی عوام کی سکت سے باہر ہو گی ہے۔  دیکھا جاے تو ہمارا سارا سال آفات سے ،حادثوں سے،موسمی اثرات سے بچنے بچانے رنج و غم اور خوف میں گذرتا ہے۔سارا سال ہی ہم اسی میں مصروف رہتے ہیں۔
سردیوں کے موسم کا آغاز ہو یا اختتام۔ڈینگی مچھر خوشآمدید اور الوداع کرنے ایک عرصے سے باقاعدگی سے آ رہا ہے۔

ڈینگی مچھر انتہای خطرناک جان لیوا مچھر ہے۔حکومت وقت کی لاپرواہی اور بر وقت اقدام نہ کرنے کی صورت میں یہ تشویشناک حد تک پورے  ملک میں  پھیل  جاتا  ہے۔جو بے شمار قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتا ہے۔
اسی کے کچھ عرصے بعد ہمارا پیارا متبرک رحمتوں والا مہینہ رمضان المبارک آجاتا ہے۔میں اس مہینے کے خلاف نہیں اس میں جو لوٹ مار کرتے ہیں،اپنے عمل سے اعمال کو اپنی عبادات کو ضائع کرتے ہیں،روزہ رکھ کر جس طرح سارا دن طیش کی حالت میں رہتے ہیں ان کا زکر کروں گا   ۔

برکتوں والے اس مہینے میں پورے ملک میں مہنگای زخیرہ اندوزی بےایمانی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔روزمرہ اشیا پھلوں سبزیوں کی قیمتیں عام عوام کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں۔بےشمار اشیا مارکیٹ سے ناپید ہو جاتی ہیں۔اور منہ مانگے داموں پر ملتی ہیں۔سارا سال تیس چالیس روپے بکنے والا کیلا ڈھای تین سو روپے درجن بکتا ہے۔اس سارے کھیل میں انتظامیہ اور حکومت کا خاموش تماشای کا کردار ہوتا ہے بہت زیادہ کاروای کرے گی تو ایک ادھا نوٹس لے لی گی۔

جس کا آج تک کوی نتیجہ نہیں آیا۔کاروباری حضرات کے علاوہ نوکری پیشہ لوگ جو دفاتر میں عوام کی سہولت ان کے مسایل کے حل کے کیے بیھٹے ہیں ۔کوی بھی آپنی ڈیوٹی ایمانداری سے ادا نہیں کرے گے۔بےزارگی  چہرے سے ٹپک رہی ہوگی۔کس کام۔کے لیے جاو تو آگے سے جواب ملے گا رمضان کے بعد چکر لگاییں ۔الللہ تعالی کے اس بابرکت مہینے میں بھی بے ایمانی سے باز نہیں آتے ۔

اللہ کی نیکیوں کی لوٹ سیل سے فیضیاب نہیں ہوتے۔
ماہ رمضان گزرنے کے تھوڑے عرصے بعد مون سون کا سیزن شروع ہو جاتا ہے ۔اور پورے ملک میں بارشوں کا سلسلہ شروع یو جاتا ہے۔بارشوں کی شدت سے ملک میں سیلاب آ جاتا ہے ۔لوگوں کی املاک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔بڑی تعداد میں  انسان اور جانور سیلاب سے، کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں ۔

اس ساری تباہی کی زمہ داری حکومتوں کی ناقص حکمت عملی ہے اور  بروقت انتظامات کا نہ کرنا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پانی کی قلت کا مسئلہ شدت سے سر اٹھا رہا ہے وہاں سیلابی آفت کی صورت میں  سیلابی  پانی  الللہ کی  طرف کسی غیبی خزانے سے کم نہیں۔پر حکومتوں اداروں کی
 وہی نالائقی ناقص حکمت عملی لاپروہی بے فکری پانی کے اتنے بڑے خزانے کو محفوظ کرنے کے بجاے ضائع کر دیتے ہیں۔


ڈینگی مچھر، رمضان ،سیلاب کے درمیانی عرصے میں یا تو زلزلہ آ جا ے گا ۔جس سے ایک بار پھر بڑے پیمانے پر تباہی ہو گی۔ہزاروں لوگ بےگھر دربدر ہوں گے۔یا کوی بڑا دہشت گردی کا واقع ہو جاے گا۔پورا ملک سوگ کی کفیت میں ڈوب جاے گا۔دہشت گردی ہمیں معاشی سماجی طور پر   دنیا سے بہت پیچھے لے جاتی ہے۔یا پھر سیاسی دھرنے جلسے جلوس احتجاج بھی کسی آفت سے کم نہیں ۔

سیاسی دھرنے سیاسی جماعتوں کے اپنے مطالبات منوانے کا طریقہ کار ہے۔دھرنے نظام زندگی مفلوج کر دیتے ہیں۔سڑکوں کی بندش سے ایمبولینس کو راستہ نہ ملنا انسانی زندگی کے ساتھ کھلواڑ  ہے۔سکول کالج جانے والی شاہراہ بند ہونے سے طالب علموں کا تعلیمی حرج ۔ معاشی  بحران ۔بےروزگاری اور مہنگای کے اضافے کا سبب بنتا ہے۔
یہ سب وہ اسباب ہیں۔جو مجھ پر شدت سے اثر انداز ہوے ہیں۔

جس سے میرے اندر مایوسی اداسی سرائیت کر گی ہے۔اپنے ملک کے ان حالات نے مجھے ناامیدی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔میں جب اپنے ملک کے حالت زار کا مقابلہ دوسرے ممالک سے کرتا ہوں تو میرا دل بھی بےاختیار خوش ہونے کو چاہتا ہے،میں اندھیرے سے نکلنا چاہتا ہوں میرے وطن میں بھی روشنی ہو لوگ  خوشحال  ہوں امن و امان ہو,آپس میں بھای چارہ ہو۔اب میں خوش ہونا چاہتا ہوں ۔

ہر قیمت پر خوش ہونا چاہتا ہوں۔اور اس خوشی کو ڈھونڈنے کی خریدنے کی بھی ضرورت نہیں،صرف ہر ایک  کو ان کے درست مقام پر رکھنا ہے۔ایک دوسرے کی ٹانگ نہیں کھنچنی راستہ دینا ہے۔تا کہ مجھے اب خوش ہونا ہے۔
کالم کا اختتام احمد ندیم قاسمی کے اس شعر سے
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :