مہنگائی اور والدین

پیر 15 مارچ 2021

Saif Awan

سیف اعوان

کافی دنوں کے بعد میری اپنی بڑی مامی جان سے بات ہوئی ۔میری مامی مجھ سے ملکی سیاسی صورتحال کے متعلق دریافت کرنے لگیں۔میں نے بتایا فی الحال یوسف رضاگیلانی چیئر مین سینیٹ کا الیکشن ہار گئے ہیں ۔صادق سنجرانی کو پیچھلے دفعہ اپوزیشن کے 14لوگوں نے ووٹ دیے اس مرتبہ اپوزیشن کے 7لوگوں نے سنجرانی کو ووٹ دینے کی بجائے غلط ووٹ کاسٹ کردیے جس کا قائدہ سنجرانی صاحب کو ہوا۔

اگر اپوزیشن جماعتیں تین سال قبل ان 14باغی لوگوں کو سزادیتی تو آج یہ دن دوبارہ نہ اپوزیشن کو دیکھنا پڑتا۔مامی جان مہنگائی کے حوالے سے بھی کافی پریشان تھیں۔وہ بتارہیں تھیں کہ ایوب خان کے دور میں ہم کراچی رہتے تھے اس وقت پیاز اچانک مہنگا ہوا تو لوگوں نے پیاز کا بائیکاٹ کردیا۔چند دنوں میں کچرے کے ڈھیرپر کوڑا کم تھا اور پیاز کے ڈھیر زیادہ لگے تھے کوئی پیاز خریدنے کو تیار نہیں تھا۔

(جاری ہے)

لیکن اب قوم بھی بے حسن ہو چکی ہے ۔عوام چار سو روپے کلو ٹماٹر اور بارہ سو روپے کلو ادرک خرید رہی ہے لیکن بائیکاٹ کرنے کو تیار نہیں ہے۔
ایکسپر یس اخبار کے نیوز ایڈیٹر مجتبیٰ باجوہ صاحب نے بتایا کہ کل میں اپنے بیٹے کے سکول گیا کیونکہ سکول والے امتحان سے قبل ہی پوری فیس جمع کرانے کا کہہ رہے تھے ۔کورونا وائرس کی پہلی لہر ختم ہونے کے بعد جب دوبارہ سکول کھولے تو بہت سے بچے سکول چھوڑ چکے تھے کیونکہ ان کے والدین کے پاس سکول کی فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں تھے۔

میرے بیٹے کی کلاس میں پہلے چا لیس بچے تھے اب پندرہ رہ گئے ہیں اس لیے سکول والے کہتے ہیں امتحان سے پہلے فیس جمع کرادیں۔عجیب و غریب قسم کی صورتحال بنی ہے ہر آدمی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے ۔
اگلے دن میں ٹی وی پر پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں ایک خاتون رپورٹر بزرگ شہری سے پوچھ رہی تھی کہ بابا جی آپ نے یہ مرغی کا گوشت خریدا ہے کتنے کا کلو لیا ہے؟بابا نے دکھی لہجے میں بتایا بیٹا یہ مرغی کا گوشت نہیں صرف 80روپے کلو مرغی کے پر خریدے ہیں ۔

اب تو مرغی کا گوشت بھی چار سو روپے کلو ہو گیا ہم جیسے غریب لوگ اب مرغی کا گوشت بھی نہیں خرید سکتے۔
یہ صرف تین لوگ کی کہانی ہے ایسے لاکھوں والدین ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں ان کو اپنے گھر کا کچن چلانے اور بچوں کے سکولوں کی فیس جمع کرانے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔کبھی کبھی ٹی وی چینلز کے پروگرام میں ایسے لوگ بھی مہمان آتے ہیں جن کو یہ بھی معلوم نہیں عثمان بزدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں یا شہباز شریف ۔

ہمارے معاشرے میں ایسے بھی بہت سے لوگ ہیں جن کو سیاستدانوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن وہ مہنگائی کی وجہ سے پریشان دیکھائی دے رہے ہیں۔صنعتکار سے لے کر بزنس مین تک اور ریڑھی والے سے کر دکاندار تک ہر کوئی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے ۔اگر مہنگائی سے کوئی پریشان نہیں تو وہ بس ہمارے وزیراعظم صاحب ہیں ۔جن کوتین سال بعد بھی ایک ہی بات کی فکر ہے کہ کسی طریقے سے ساری اپوزیشن جماعتوں کی لیڈرشپ کو جیلوں میں ڈال دوں۔

عمران خان جن کو چور ڈاکو کہتے رہے ہیں وہ سب باری باری جیلوں سے رہا ہوتے جا رہے ہیں ۔لیکن عوام کو مہنگائی سے رہائی نہیں مل رہی۔کچھ حکومتی ذرائع تو یہ بھی بتارہے ہیں شہبازشریف کی ضمانت ہونے والی اور مریم نواز دوبارہ گرفتار ہونے جا رہی ہے۔ویسے اس پکڑ دھکڑ سے عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے ہاں حکومت کو یہ قائدہ لازمی ہو رہا ہے کہ وہ عوام کی توجہ مہنگائی سے ہٹاکر اس احتسابی ڈرامے کی طرف مبذول کرانے میں لازمی کامیاب ہورہی ہے۔

لیکن یہ ایساآخر کب تک چلے گا؟ایک دن دوبارہ عمران خان کو عوام کی عدالت میں آنا ہے پھر کس منہ سے عمران خان عوام سے ووٹ مانگیں گے۔جناب وزیراعظم صاحب اب گرفتاری،جیل،عدالت اور ضمانت کاکھیل بند کریں ۔عوام کی اس مہنگائی سے چھٹکارا دلائیں ورنہ اگر عوام نے مہنگائی کا نوٹس لے لیا توایسا نہ ہو کہ عوام آپ کو کٹہرے میں لے آئیں ۔پھر یہ شہزاد اکبر،شہباز گل،شبلی فراز اور فردوس عاشق صاحبہ آپ کو عوام سے بچانے نہیں آئیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :