شہبازکرواڈ پلر لیڈر

بدھ 1 ستمبر 2021

Saif Awan

سیف اعوان

حزب مخالف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم)نے خلاف توقع کراچی میں ایک بڑا پاور شو کر کے مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کو حیران کردیا ہے۔اس کی سب بڑی وجہ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے اس مرتبہ مریم نواز کی جگہ شہبازشریف پی ڈی ایم میں مسلم لیگ(ن) کی نمائندگی کررہے ہیں۔حکومتی حلقے،غیر جانبدار تجزیہ کار،ایجنسیاں اور مسلم لیگ(ن) کے اپنے کارکن بھی پی ڈی ایم کے کراچی جلسے کی کامیابی اور ایک بڑے اجتماع کی توقع نہیں کررہے تھے کیونکہ اکثریت کی رائے یہی تھی کہ شہبازشریف صرف خانہ پوری کیلئے پی ڈی ایم کے جلسے میں جارہے ہیں لیکن شہبازشریف نے سب کو ششدر کرکے رکھ دیا ۔

پہلے شہبازشریف کو لوگ شہباز سپیڈو کے نام سے جانتے تھے لیکن اب ان کے ناقد بھی شہبازشریف کوکراؤڈ پلر لیڈر ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

پی ڈی ایم کے کراچی جلسے میں سب کی نظریں شہبازشریف پر ہی تھی کہ وہ کیا تقریر کرتے ہیں ۔شہبازشریف نے اپنی تقریر میں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے ایک دھڑے کے کارکن شہبازشریف سے ایسے اعلان کی ہرگز توقع نہیں رکھ رہے تھے لیکن شہبازشریف نے ثابت کردیا ہے کہ وہ جب فیصلہ کرلیں تو پیچھے نہیں ہٹتے۔میں تو شہبازشریف کو ذاتی طور پر 2011سے جانتا ہوں کہ جب پنجاب میں ڈینگی آیا تو انہوں نے ڈینگی کے خاتمے کیلئے نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی۔شہبازشریف کی ڈینگی کے حوالے سے میٹنگ سے بیوروکریسی اور ان کی اپنی ٹیم بھی پریشان تھی کہ شہبازشریف ڈینگی کے معاملے میں اتنے سنجیدہ کیوں ہیں۔

آخر کار شہبازشریف نے ڈینگی کا خاتمہ کرکے ہی دم لیا۔
کراچی کے جلسے میں سب سے حیران کن میاں نوازشریف کا خطاب تھا ۔میاں نوازشریف نے خطاب کرکے جلسے میں مزید جان ڈال دی ۔پیپلزپارٹی کے پی ڈی ایم سے نکلنے کے بعد جمعیت علماء اسلام ف اور مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کی اکثریت کافی خوش اور مطمئن بھی دیکھائی دے رہی ہے ۔کیونکہ اس وقت پی ڈی ایم کی یہ دونوں جماعتیں ہی بڑی ہیں ۔

بعض غیر جانبدار سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم سے نکل کر تاریخی غلطی کی ہے۔پیپلزپارٹی کے بانی لیڈر ذوالفقار بھٹو اور بینظیر بھٹو نے ساری عمر غیر سیاسی قوتوں اور غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کیخلاف جدوجہد کرتے گزار دی ۔پیپلزپارٹی کے دونوں رہنماؤں نے عوام کے حق کی بات کرتے کرتے اپنی جانیں بھی گنوادی لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے لیکن ذوالفقار بھٹو کے داما آصف زرداری اور ان کا نواسہ بلاول بھٹو اب انہی غیر جمہوری قوتوں کے اشاروں پر چلنا شروع ہو گئے ہیں ۔

جس کا برملا اظہار پیپلزپارٹی کی سینئر ترین رہنما رضا ربانی نے بھی کیا۔جب بلاول بھٹو نے سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کواپوزیشن لیڈر بنانے کیلئے بلوچستان نیشنل پارٹی (باپ )کی حمایت حاصل کی تو رضا ربانی نے کھل کر اپنی جماعت کے اس اقدام پر تنقید کی۔اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔گزشتہ سال نومبر دسمبر میں جو ہیجان کی کیفیت تھی وہی دوبارہ پیدا ہونے جارہی ہے۔

پی ڈی ایم نے جو لانگ مارچ گزشتہ سال دسمبر یا جنوری میں کرنا تھا وہ اب اس سال دسمبر یا جنوری میں ہوگا۔کیونکہ موسم فی الحال گرم مرطوب ہے اتنے سخت موسم میں لانگ مارچ ممکن نہیں ہے۔شہبازشریف نے تو لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس لانگ مارچ میں لاکھوں افراد شریک ہونگے۔مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام ف پیپلزپارٹی کے بغیر بھی ایک بڑا مارچ اسلام آباد کی جانب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

کیونکہ پیپلزپارٹی کی افرادی طاقت صرف سندھ تک محدود ہے۔کچھ حد تک جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ ہے لیکن سینٹرل پنجاب جو لانگ مارچ کا فیصلہ کن روٹ ہے یہاں پیپلزپارٹی کی افرادی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔میں نے اپنے کسی پیچھے آرٹیکل میں آگا ہ کیا تھا کہ آنے والے سات ماہ پاکستان کی سیاست کے مصالحے دار اور چٹ پٹی خبروں والے بننے جارہے ہیں ۔

لانگ مارچ سے قبل مریم نواز بھی شاید دوبارہ اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں ۔لیکن فی الحال فوری سرگرمیاں شروع کرنے کا امکان نظر نہیں آرہا ہے۔دوسری جانب حکومت بھی لانگ مارچ کے اعلان سے کافی پریشان ہو چکی ہے۔اوپر سے سب حکومتی لوگ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو اسلام آباد آنے پر ویلکم بھی کرینگے اور ساتھ ہی کورونا ایس او پیز سے بھی آگاہ کریں ۔

قوی امکان ہے کہ حکومت لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان ہونے سے قبل پھر لاک ڈاؤن کا بھی اعلان کر دے ۔لیکن پی ڈی ایم نے کراچی میں جلسے میں قرارداد پیش کی ہے کہ کورونا کی آڑ میں لاک ڈاؤن جہاں جہاں لگائے گئے ہیں ان کو فوری ختم کیا جائے ۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک اس بار بیچ راستے میں ختم نہیں ہو گی اور نہ اس کو بریک لگے گی۔اب بال باقاعدہ مقتدر حلقوں کی کوٹ میں ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :