امن دوست پاکستان

پیر 6 جنوری 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

عالمی حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان نے اقوام عالم پر واضح کر دیا پاکستان صرف امن کا پارٹنر ہے اپنی سر زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو نے دے گا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے واضح کیا جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد حالات میں تبدیلی آئی ہے۔ آرمی چیف نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو کو بتایا ہے کہ خطہ امن کی طرف بڑھ رہا ہے۔

بغداد جیسے واقعات سے ایسی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ خطے کے ممالک میں کشیدگی کم ہونی چاہئے اور ہم امن کیلئے بھر پور کردار ادا کریں گے۔
گزشتہ روز پاکستان میں عراق میں امریکی حملوں کے خلاف ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔کراچی میں شرکاء ریلی امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے پولیس حصار کو توڑنے کی کوشش کر کے امریکی قونصلیٹ کی طرف بڑھنا چاہتے تھے، پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کی تعیناتی سے کوئی نہ خوشگوار واقع پیش نہیں آیا۔

(جاری ہے)

پاکستان میں اس طرح کے رد عمل کا آنا فطری تھا۔ کیونکہ ایران اور پاکستان کے تعلقات سفارتی سطح پر ہی نہیں،دونوں ممالک کی عوام میں مضبوط مذہبی اور ثقافتی رشتہ قائم ہے۔ عام پاکستانی امریکہ پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں جبکہ ایران ہمارا ہمسایہ ہی نہیں برادر اسلامی ملک ہے اور پاکستان کو سب سے پہلے ایران نے تسلیم کیا تھا۔ امریکہ نے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔

پاکستان ہی نہیں امریکہ کے 70سے زائد شہروں میں مظاہرے ہوئے، مظاہرین کا موقف ہے امریکہ نے ایرانی کمانڈر کو مار کر غلط اقدام اٹھایا۔ ہم اپنے ملک کو ایک اور تباہ کن جنگ میں دھکیلنے نہیں دیں گے۔ نیویارک میں ٹائم سکوائر کے سامنے اور امریکی صدر کے ذاتی ہوٹل ٹرمپ انٹرنیشنل کے سامنے بھی احتجاج ہوا۔برطانیہ او ر سعودیہ عرب نے واضح کیا کہ فضائی حملہ کرتے وقت امریکہ نے کوئی مشاورت نہیں کی۔

روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی ممکنہ جنگ کو روکنے کیلئے متحرک ہیں۔ امریکی اتحادی اٹلی نے بھی اس حملے کی مذمت کی۔
روسی وزیر خارجہ سر گئی لاروف نے چینی ہم منصب وانگ ژی سے رابطہ کیا اور امریکی اقدام کو کشیدگی کی وجہ قرار دیا۔ چین نے کہا امریکہ اپنی طاقت قابو میں رکھے۔
قارئین کرام! بغداد میں امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی میت ایران پہنچ گئی، انکی نماز جنازہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ آی نے پڑھائی۔

نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے خامنہ آی آبدیدہ بھی ہوئے، نماز جنازہ کے بعد شرکاء امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل غلام علی نے کہا جہاں تک ایران کی پہنچ ہے امریکیوں کو نشانہ بنایا جا ئے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ جنرل سلیمانی کے قتل پر رد عمل کو قابو کرنا بس سے باہر ہے۔ عراقی ملیشیا قطیب حذب اللہ نے امریکی فورسز پر حملے کیلئے خودکش بمبار کی بھرتی شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔

فیصلہ کن جنگ کی علامت سرخ پرچم بھی ایران میں لہرا دیا گیا۔دوسری طرف امریکہ کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔یورپی یونین نے ایرانی وزیر خارجہ کو خلیج میں کشیدگی کوختم کرنے کیلئے برسلز میں مدعو کیا ہے۔ عالمی برادری کشیدگی ختم کروانے کی خواہش مند ہے۔ جبکہ امریکی صدر ٹرمپ 52ایرانی مقامات کے نشانے پر ہونے اور نئے ہتھیار آزمانے کی باتیں کر رہے ہیں۔


عراقی پارلیمنٹ نے اس واقع کے بعد ملک سے امریکی اور غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کی قرار داد منظور کر لی اور امریکہ سے سکیورٹی معاہدہ بھی ختم کر دیا ہے۔ جبکہ ایران نے ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ اس سنگین صورتحال میں امریکی صدر کا رویہ جارحانہ ہے، ایران پر اگر براہ راست حملہ ہوتا ہے تو پاکستان پر اس کے سنگین اثرات ہو ں گے۔

کیونکہ کہ اگر ہمسایہ میں آگ لگے تو اس کی تپش دیگر ممالک میں بھی محسوس ہوتی ہے۔پاکستان تو ایک عرصہ سے افغانستان کی بد امنی کے سنگین نتائج بھگت رہا ہے دوسری جانب انڈیا خطہ کے امن کو برباد کرنے کیلئے سکیورٹی مسائل پیدا کرنے کا خواہشمند ہے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی بھی اشتعال انگیزی اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات ترک کرنے پر تیار نہیں۔ اس عالمی منظر نامہ میں پاکستان کا کردار اور خارجہ پالیسی بہت اہمیت اختیار کر چکی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے عوام اور میڈیا سے اپیل کی ہے کہ ملک دشمن افواہوں پر توجہ نہ دیں اور صرف با وثوق ذرائع پر توجہ دیں۔آرمی چیف اور حکومت کی طرف سے واضح اعلان کہ پاکستان خطے کا امن خراب کرنے والے کسی عمل کا حصہ نہیں بنے گا، بہتر پالیسی ہے۔افغان جنگ، 9-11 کے موقع پر پاکستانی موقف اور عوام کی سوچ میں فرق تھا۔لیکن بھارتی اشتعال انگیزی اور خطے میں امن کیلئے پاکستان کے موجودہ کردار پر قوم متحد ہے۔

میجر جنرل آصف غفور کی اس بات سے سب متفق ہیں کہ پاکستان نے اپنے ملک میں دہشتگردی کو ناکام کیا، پا ک افغان سرحد کو محفوظ کیا اور بھارت کے خلاف انکی اشتعال انگیزیوں کے باوجود ایک ذمہ دار ریاست اور قابل فوج ہونے کا ثبوت دیا۔
 پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نے سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے ہم منصبوں سے رابطہ کیا۔

خطے کی مجموعی صورتحال اور کشیدگی سے بچنے کیلئے تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان کا موقف ہے اختلافات اقوام متحدہ کے منشور اور عالمی قوانین کے مطابق پر امن طریقے سے حل کیے جائیں۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ خارجہ سطح پر متحرک ہو، ایران اور امریکہ کی کشیدگی میں کمی لانے کیلئے عالمی سطح پر موثر کردار ادا کرے تاکہ علاقے کا امن بچ سکے اور پاکستا ن کا امیج بھی بہتر ہو۔

حالیہ صورتحال پاکستان کیلئے بھی گہری تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان اپنے نقطہ نظر کو واضح کرنے کیلئے افغان امن عمل میں حاصل ہونے والی پیشرفت کو بیان کر کے امریکہ کو امن کو موقع دینے کیلئے قائل کر سکتا ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعادہ کیا کہ خطے میں امن اور استحکام برقرار رکھنے اور مزید کشیدگی سے بچنے کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔اندون ملک فرقہ وارنہ سوچ کو پھیلانے والے عناصر پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ امن کو فرقہ وارنہ سوچ کی تنگ نظری سے بالاتر ہو کر دیکھتے رہنا ہوگا۔ پاکستان امن پسند ہے اور ہم باشعور، سطحی سوچ سے بالا تر ملکی اور خطہ کے مفاد کے لیے متحد ہیں اقوام عالم کو واضح پیغام ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :