ایک دن جمالی پلس کے ساتھ

بدھ 30 جنوری 2019

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

ہم صبح کے ساڑھے گیارہ بجے وسیم اکرم پلس کے تایا جان، جمالی پلس سے ملنے انکے ایجاد کردہ نئے پاکستان کے نئے دولت کدے پر پہنچے۔ ہمیں سمجھایا گیا کہ دولت کدے کی ہیئت تبدیل کروا دی گئی ہے اور اب مناسب وقت پر میڈیا کے سامنے یہاں کے کونوں کھدروں ، دالانوں اور ایوانوں میں بہت سے طالب، داد علم دیا کریں گے۔ شیرو اور موٹو کے بھی پی ایچ ڈی میں داخلے کر وادیئے گئے ہیں ۔

ڈبو دوبارہ سندھ کے کامیاب دورے پر روانہ ہونے والے ہیں ، دورے سے واپسی پر ان کو اعزازی ڈگری دی جائے گی۔ مشیر خاص نے ہمیں بتایا کہ جمالی پلس نیند سے بیدار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، ناشتے اور میک اپ سے فارغ ہونے کے بعد ڈیڑھ بجے وہ شرف ملاقات بخشیں گے۔ مشیرخاص نے مزید بتایا کہ جمالی پلس زیادہ کام شام اور رات کی شفٹ میں کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

مشہور خاتون ڈیزائنر سے بنوائے گئے ملبوسات آچکے تھے جو جمالی پلس نے یورپی وفد سے ملاقات کے لئے بنوائے تھے۔

کرتے پر دل اورگردوں کے ڈیزائن کی تین خوبصورت موریاں نکلوائی گئی تھیں جبکہ بکری اور بجو کی کھال کی بنی ہوئی باسیں مارتی لیدر جیکٹ جمالی پلس کے ذوق کی آئینہ دار تھی۔ ہم ڈنگ ٹپانے کے لئے اپنے موبائل پر ’ سونو کے ٹیٹو کی سویٹی ‘ دیکھ رہے تھے کہ جمالی پلس صاحب کی آمد کا اعلان ہوا۔ وہ موریوں والا کرتا شلوار اور بکری اور بجو کے لیدر والی جیکٹ زیب تن کئے ہوئے تھے۔

ہم نے کہا ’ بڑا عہدہ، کھلا کھاتہ ، دیوانوں کا ہجوم۔ رشتے تو بہت آتے ہونگے‘۔ شرماگئے اور بولے ہاں مگر میں نے ابھی رشتہ فائنل نہیں کیا ۔
 ہم نے پوچھا ’ زندگی بھر کھیل تماشے میں لگے رہے اب اس عمر میں نوکری !یہ سب کیسا لگ رہا ہے‘ جمالی پلس نے جواب دیا، ’ دیکھیں حامد! میں نے پانچ مہینے سے کوئی چھٹی نہیں کی ۔ مشیر خاص نے فوراً لقمہ دیا کہ چھٹی کی درخواست پنڈی بھجوائی ہوئی ہے ، جواب آنے ہی والا ہے۔


 ہم نے پوچھا جمالی پلس صاحب ’ آپ کی ہمشیرگان اور دیگر قریبی عزیز ، ہسپتال اور یونیورسٹی کے بورڈ ممبر ہوتے ہوئے دبئی ، امریکہ اور دیگر ممالک میں جائیدادوں اور آف شور کمپنیوں کے مالک اور ارب پتی بن گئے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟‘ جمالی صاحب نے ہمیں غصیلی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا، ’ دیکھیں حامد!میانداد سنگل سنگل رن لیتا رہتا تھا اور آفریدی سیدھا چھکا لگاتا تھا۔

نواز شریف نے قوم کا پیسہ بجلی گھروں، موٹر ویز، سڑکوں ، ہسپتالوں، یونیورسٹیوں ، ایئر پورٹوں، ریلوے اسٹیشنوں،لیپ ٹاپوں ،اورنج ٹرین، میٹرو بسوں پر ضائع کر دیا اگر اسی پیسے سے سٹہ کھیلا جاتا تو آج ہمارے پاس کھربوں ڈالر ہوتے ۔
جمالی پلس پارٹی کے سوشل میڈیا دانشوروں سے خطاب کے لئے مقامی فائیو اسٹار ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے، مشیر خاص نے بتایا کہ ہالینڈ کے وزیر اعظم کی طرح سائیکل پر جاسکتے تھے مگر پچپن روپے کلومیٹر والے سستے ترین بزنس کلاس ہیلی کاپٹر کی وجہ سے سائیکل کو ہو ا نہیں لگوائی۔

مشیر خاص نے بھی اپنی اکانومی کلاس سائیکل کو تکلیف نہیں دی۔ پارٹی کے سوشل دانشوروں سے بڑا پر مغز خطاب فرمایا۔ آپ کے خطاب کے اہم نقاط ورلڈ کپ مرغیاں انڈے بھینسیں کٹے تھے۔
واپس سیکرٹری کے گھر پہنچے۔ ہم نے کہا ’ جمالی صاحب ! آپ کو سیلیکٹ ہوئے کئی ماہ ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک معاشی پالیسی واضح نہیں ہوسکی ‘ ۔ ’ دیکھیں حامد ! گائے مقدس ہوتی ہے چاہے دودھ دے یا سارا دودھ وچھے کو پلا دے، چاہے لٹر وں میں دے یا کلو کے حساب سے۔


ہم نے کہا جمالی صاحب! ’آپ نے تو کہا تھا کہ جو اصل لیڈر ہوتا ہے وہ باہر مارا مارا نہیں پھرتا بلکہ اپنے ملک میں بیٹھ کر ملک ٹھیک کرتا ہے،چیئرمین ماوٴ اور منڈیلا نے کوئی دورے نہیں کئے۔ لیکن آپ خود دورے پہ دورے کئے جا رہے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں‘۔ کاشف ! اب آپ لوگوں کو کنفیوذ نہ کریں ،دوروں دوروں میں فرق ہوتا ہے، آپ دیکھ لیں میرے سارے دورے پروٹوکول کے بغیر تھے مجھے کسی ملک میں پروٹوکول نہیں ملا۔


 ہم نے پوچھا ’ جمالی صاحب! آپ کی خارجہ پالیسی بھی سامنے نہیں آرہی‘ ۔ مشیر خاص فوراً بولے پالیسی تیار ہو کے چل پڑی ہے بلکہ فیض آباد کراس کر چکی ہے ، پہنچنے ہی والی ہے، جیسے ہی پرچہ ملا پڑھ کے سنا دیں گے۔
مشیر خاص نے بتایا جمالی پلس بہت مصروف رہتے ہیں، رات بھر کھلاڑیوں، سوشل میڈیا دانشوروں اور اینکروں سے کئی کئی گھنٹے طویل اہم میٹنگیں چلتی ہیں۔


 ایک اینکر ملاقات کے لئے تشریف لائے ، جمالی صاحب نے اپنی نشست پر پہلو بدل کے ان کا استقبال کیا۔ اینکر نے آتے ہی کہا ’ جمالی پلس صاحب! آپ نے پانچ سالوں میں کے پی کے کو ایشین ٹائیگر بنادیا تھا ، کے پی کے میں تعلیم اور صحت کی بین الاقوامی سطح کی مفت سہولیات مہیا کی تھی، یورپ سے لوگ ملازمتوں کی تلاش میں کے پی کے آرہے تھے، اس پر تو آپ کو نوبل پرائز ملنا چاہئیے۔

جمالی صاحب نے شرماتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
جمالی پلس نے ورزش کی اور موٹو اور شیرو کے ساتھ لاڈیاں کیں۔ڈبو بھی آچکے تھے۔ ہم نے جمالی صاحب سے پوچھا ’ کلبھوشن کی پھانسی کب تک متوقع ہے‘ ۔ ڈبو فوراً بولے ’ جا ساڈے ابے نوں پچھ ‘ ۔ ہم نے دوسرا سوال کیا ۔ ’جمالی صاحب! آپ فرماتے تھے پی آئی اے اور اسٹیل مل چھ سو ارب روپے کھا جاتے ہیں، ان کی نجکاری کب ہے۔

‘ ڈبو فوراً بولے ’ جا ساڈے ابے نوں پچھ۔ ‘ ہم نے پوچھا ’ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کب واپس لا رہے ہیں‘ ۔ ڈبو فوراً بولے ’ جا ساڈے ابے نوں پچھ‘۔ ہم نے پوچھا ’ فاٹا سے فوج کب واپس بلا رہے ہیں‘۔ ڈبو فوراً بولے ’ جا ساڈے ابے نوں پچھ‘۔ ہم نے پوچھا ’ لاپتہ افراد کب بر آمد ہو رہے ہیں‘ ۔ ڈبو فوراً بولے ’ جا ساڈے ابے نوں پچھ‘۔ ہم نے ڈھیٹ بن کرسوال کیا ’ جمالی صاحب ! آپ نے جو دس ارب ڈالر کی کرپشن ختم کی ہے تو وہ دس ارب ڈالر کہاں ہیں ‘۔

ڈبو فوراً بولے ’ جا ساڈے ابے نوں پچھ‘۔ ہم نے پوچھا ’ کیا ساہیوال کے مظلوموں کو انصاف مل پائے گا‘۔ ڈبو فوراً بولے ’ جا ساڈے ابے نوں پچھ‘۔ ہم نے کہا ، ’ گردشی قرضہ ہزار ارب تک پہنچ چکا ہے ، آپ روزآنہ پاکستان پر بتیس ارب روپے کا قرض بڑھاتے جارہے ہیں ، روپیہ گرا چکے ہیں، اسٹاک مارکیٹ کریش کرا چکے ہے، مہنگائی اور بیروزگاری آسمان تک پہنچا چکے ہیں، یہ سب کب تک چلے گا؟‘ ڈبو فوراً بولے ’ جا ساڈے ابے نوں پچھ‘۔ ہم نے تنگ آکر پوچھا ابا جی ہیں کہاں؟ ڈبو فوراً بولے ’ راولپنڈی ‘۔ہم گھبراگئے اور وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :