گمشدہ حقیقت‎

جمعہ 1 جنوری 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

پرانے زمانے کی کہاوت ہے، ایک بادشاہ پر خبط طاری تھا کہ وہ عوام کو جس حال میں بھی رکھے گا،عوام اْس کے ساتھ مخلص رہیں گے مگر اس کے عقلمند وزیر نے بادشاہ کو احساس دلاتے ہوئے عرض کیا کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ جب تک آپ ملک میں بہتری نہیں لائیں گے عوام کی مخلصی پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ بادشاہ نے عوام کی مخلصی کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھنے کی ٹھان لی۔

بادشاہ نے ایک بہت بڑا د یگ نما برتن شہر کے وسط میں رکھ دیا اور منادی کروا دی کہ تمام عام و خاص ایک گلاس دودھ رات کے اندھیرے میں اس برتن میں ڈال کر حکومت کے ساتھ اپنی مخلصی کا ثبوت دیں۔ برتن کے قریب کے علاقہ کے چراغ و شمعیں بجھا دی گئیں۔ جس کے بعد پورا شہر رات کے اندھیرے میں آیا اور حکم کے مطابق اپنی اپنی باری پر ایک ایک گلاس اُس  برتن میں ڈال کر چلتا بنا۔

(جاری ہے)


جب صبح بادشاہ نے برتن کو دیکھا تو اس میں دودھ کی بہت باریک سی لکیر تو تھی مگر باقی سب پانی تھا۔ یہ منظر دیکھتے ہی بادشاہ کویقین ہوگیا کہ اْس کا گمان غلط تھا۔ کچھ یہی حال موجودہ حکومت کا بھی ہے کہ پورا حکومتی بریگیڈ عوام کو اپنے ساتھ مخلص سمجھ کر خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے اور اس خبط کا شکار ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور حکومتی ارکان اپوزیشن کے استعفوں کے بعد ہونے والے ضمنی الیکشن با آسانی جیت جائیں گے۔

جو سراسر خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ جب تک حکومت عوام کی نبض پر ایک طبیب کی طرح ہاتھ رکھ کر اْن کی اصل تکلیف کا ازالہ نہیں کرے گی تب تک وہ عوام سے کسی طرح کی بھی مخلصی کی کوئی اْمید نہ رکھے کیونکہ عوام نے ووٹ کارکردگی دکھانے کے لئے دیا ہے خواب دیکھنے کے لئے نہیں۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ کیے گئے حکومتی وعدے اور دعوے تو ابھی تک پورے نہیں ہوئے البتہ اسی سال حکومت کی طرف سے ان کو پاکستانی بینکوں میں آن لائن اکاؤنٹ کھولنے کی سہولت مہیا کی گئی ہے جس کے بعد سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے پاکستانی بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنا شروع کر دئیے ہیں جس سے دیکھتے ہی دیکھتے فارن کرنسی کی مد میں ایک خطیر رقم پاکستانی بینکوں میں جمع ہونے سے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ میاں نواز شریف کے دورحکومت کے بعد پہلی مرتبہ 447 ارب ڈالر کے ساتھ سرپلس ہوا، مگر افسوس یہ کہ مہنگائی و ملکی قرضہ جات میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔

ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ گردشی قرضوں میں بھی کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی، ملکی ادارے جوں کے توں ہیں۔ پی آئی اے سے لے کر پولیس تک ہر ادارہ تنزلی کا شکار ہے۔ افراط و تفریط زر کا بیلنس بگڑا ہوا ہے اور آئی ایم ایف ملک کے فنانشل معاملات پر اْسی طرح اثر انداز ہے جیسے پہلے تھی، ملک ریکارڈ کرپشن و سیاسی افراتفری کا شکار ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا جبکہ اس کے پڑوسی ملک بھارت میں کمی ہوئی ہے۔
ابھی چند دن قبل سی سی پی او لاہور نے تقریباً گیارہ ایس ایچ اوزکے تبادلے کر کے ان کو لائن حاضر کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ اُن کی کارکردگی ٹھیک نہیں تھی حالانکہ ان میں سے بہت سے ایس ایچ اوزایسے بھی تھے کہ جن کی بہترین کارکردگی کا میڈیا میں بارہا اعتراف کیا گیا۔

اب وقت آ چکا ہے کہ اس کلچر کو بھی تبدیل ہونا چاہیے، ایسے فیصلوں کا ازسرنو جائزہ لے کر ایسا نظام متعارف کروایا جائے   جو محکموں کے ملازمین کو حقیقی انصاف فراہم کرنے والا ہو اور جس کے نافذ العمل ہونے کے بعد مخلص، ایماندار اور محنتی افسران کو محض ذاتی پسند نہ پسند کی بنا پر کھڈے لائن نہ لگایا جا ئے۔
اب اس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ وزیراعظم عوام کو حقیقی ریلیف دیں اپنے وزیروں کی کارکردگی کے جائزوں سے بڑھ کر عملی قدم اْٹھائیں۔

اداروں کی بہتری و کرپشن کے مکمل خاتمے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جائے، مہنگائی اور گردشی قرضوں سے عوام کو نجات دلائی جائے نہ گھبرانے کی تلقین تو اچھی ہے اور عوام عمل بھی کر لیں گے اگر اس کے اثرات متوقع ضمنی اور اگلے الیکشن میں ہوئے تو پھر شاید اس کی ضرورت موجودہ حکومتی بریگیڈ کو عوام سے زیادہ ہو اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :