"وعدہ کیا جو نبھانا پڑے گا"

جمعرات 7 مئی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان میں ہمیشہ لیڈرشپ کی کمی رہی ہے قائداعظم کی وفات کے بعد یہاں قومی لیڈر کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا جس کی بےشمار وجوہات ہیں ۔لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہم نے کئی لیڈرز کا لفظ سنا اور دیکھا، ذولفقار علی بھٹو پاکستان پیپلزپارٹی، نوازشریف پاکستان مسلم لیگ نواز اور جناب عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر کہلائے لیکن اِن ادوار میں شاید وہ لیڈر میسر نہیں ہوا جو پاکستان کا لیڈر کہلوایا ہو۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ اِن سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے ہمیشہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا، کسی کی بتی زیادہ چمکدار تھی تو کسی کی کم، کسی کا ٹرک زیادہ رفتار میں تھا تو کسی کا کم رفتار میں ،لیکن ہر لحاظ سے سیاسی مفادات کے لئے عوام کو بےوقوف بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔

(جاری ہے)


زیادہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں حال کی ہی بات کرتے ہیں کہ کس طرح تبدیلی کے نام پر عوام کو چونا لگانے کا سلسلہ دھوم دھام سے جاری ہے کس طرح سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں یہ سلسلہ الیکشن سے پہلے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے ۔


میرے کپتان کے اگر وعدوں اور دعووں کو اُٹھا کر دیکھا جائے تو یقیناً یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وعدہ کیا جو نبھانا پڑے گا ۔
کپتان نے الیکشن سے پہلے بلند وبالا دعوؤں کے پہاڑ کھڑے کئے لیکن شاید یہ بھول گئے تھے کہ اُن کو سر کرنا دردِ سر بن جائے گا۔اسی لئے آج کے دن تک قوم کو ٹرک کی روشن بتی کے پیچھے لگائے رکھا ہے ۔
ہمیں آج یہ کہا جاتا ہے کہ میرا قوم سے وعدہ تھا کہ میں کسی چور کو نہیں چھوڑوں گا، قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کرواؤں گا لیکن یہ کہنا بلکل غلط نہ ہو گا کہ احتساب کے نام پر سرکس جاری ہے نیب کو اپوزیشن کے ساتھ انتقام لینے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور اِس کے واضح ثبوت حال ہی میں کئی لیگی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور ضمانت پر رہائی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں، خان صاحب قوم کو بتایا جائے کہ کتنے لوٹے ہوئے پیسے درآمد کروائے، کس کس کو پھانسی کے پھندے پر چڑھایا، کس کس کو کتنی سزا دلوائی، تمام حقائق سامنے رکھے جائیں اُن ثبوتوں کے ساتھ جس کا قوم سے وعدہ کیا تھا ورنہ اِس احتساب کا کوئی فائدہ نہیں جو اُلٹا قومی خزانے پر بوجھ ثابت ہو رہا ہے اور احتساب کے عمل کے دوران خزانے سے اربوں روپے لگ رہے ہیں ۔


دوسری جانب آپ کے کرپشن پر عملی اقدامات کا اندازہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے ہی لگایا جا سکتا ہے جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 2018 کی نسبت کرپشن میں اضافہ ہوا ہے کم نہیں ہوئی ۔
چلیں آپ کے وعدوں کی ایک لمبی فہرست کو لے کر آگے چلتے ہیں جس میں خان صاحب آپ نے عوام کو امید دلائی اُس تبدیلی کی جس میں کروڑوں نوکریاں اور معیشت کو سنبھالنے کے دعوے کئے گئے تھے لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ایک عام آدمی کی زندگی ویسی ہی ہے جو دو سال پہلے تھی بلکہ آج مہنگائی اپنی بلندیوں پر ہے معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ڈالر اونچی اُڑان پھر رہا ہے، سٹاک مارکیٹ کریش ہو رہی ہے، لوگ بےروزگار ہو رہے ہیں،سیلیکٹڈ احتساب کی بدولت سرمایہ کار ملک سے بھاگ رہے ہیں ملک میں نئی انٹرنیشنل انوسٹمنٹ آ نہیں رہی، انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے، قرضوں کے بوجھ تلے معیشت دب رہی ہے،جی ڈی پی جنوبی ایشیا میں کم ترین سطح پر آ چکی ہے ۔


سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب آپ کی حکومت کو وہ دو بڑے چیلنجز بھی درپیش نہیں تھے جو ماضی کی حکومتوں کو درپیش تھے، نہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور نہ ہی دہشتگردی کا خوف بلکہ آپ کو ایک اچھے حالات میں پاکستان ملا لیکن اِس کے باوجود آپ کی دو سالہ کارکردگی سامنے ہے۔جس میں آپ کی اپنی پارٹی میں سٹیبلیٹیی موجود نہیں تو آپ ملک کو کیا سٹیبل کر پائینگے ۔

۔
پاکستان کی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھی۔اب کرونا کی وباء کی بدولت پاکستان کی معیشت کو مزید تباہی کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ہزاروں یا لاکھوں لوگوں کے بےروزگار ہونے کے بھی خدشات بڑھ چکے ہیں اِن حالات میں ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے سخت حفاظتی اقدامات کرنے ہو نگے تاکہ آنے والے کسی بڑے بحران سے بچا جا سکے۔لیکن دوسری طرف خان صاحب آپ کو عوام کی بنیادی ضروریات کے لئے ٹھوس پالیسیاں مرتب کرنا ہونگی اپنے وعدوں کو سمجھنا اور اُن پر عملدرآمد کرنا ہو گا اور یہی وقت ہے ورنہ آپ کب تک ایک مخصوص طبقے کی معصومیت کے ساتھ کھیلتے رہینگے ۔
عوام کو عملی اقدامات کی ضرورت ہے نمائشی نعروں کی نہیں ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :