بےنظیر بھٹو - ایک عہد ساز شخصیت

پیر 22 جون 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کو بہت کم سیاستدان ایسے ملے جنھوں نے اصول کی سیاست کی۔اِن ناموں میں بےنظیر بھٹو کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا ۔
21 جون 1951 کو ذولفقار علی بھٹو کے گھر پیدا ہونے والی بےنظیر نے اپنی زندگی میں بےشمار اُتار چڑھاؤ دیکھے ۔21 جون کو پاکستان بھر میں اِن کی سالگرہ بڑے عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی کیونکہ پاکستان میں بڑی تعداد آج بھی بےنظیر بھٹو کا نام اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہے. یہ عہد ساز شخصیت پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بھی رہیں اِن کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ اِن کا شمار مسلم دنیا کی پہلی خاتون منتخب وزیراعظم میں ہوتا ہے ۔

بےنظیر کا شمار جنوبی ایشیا کے بااثر سیاستدانوں میں بھی ہوتا تھا ۔۔
آپ نے اپنی اعلیٰ تعلیم 1977 میں مکمل کر لی تھی جب آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچیں تو اُس کے تھوڑے عرصے بعد ہی ذولفقار علی بھٹو دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہو گئے لیکن کچھ ہی عرصے بعد ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ جما لیا ۔

(جاری ہے)

جس کے بعد ذولفقار علی بھٹو کو جیل میں نظر بند کر دیا اور ایک قتل کا مقدمہ بنا کر انہیں جیل میں ہی پھانسی پر چڑھا دیا گیا ۔
جب آپ کے والد کو پنڈی کی سینٹرل جیل میں پھانسی چڑھایا گیا تو آپ پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہو چکی تھی کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی ستر اور اسی کی دہائی میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی تھی اور اِس کی قیادت کرنا ہمت اور بہادری کا کام تھا لیکن محترمہ بینظیر بھٹو نے کیا اور کر کے دکھایا ۔

۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے لئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا لیکن آپ نے ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے خلاف مزاحمت کی اور انہیں کئی بار گرفتار بھی کیا گیا آخرکار جلاوطن بھی کر دیا گیا ۔جب 1985 میں اُن کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو کو قتل کر دیا گیا تو وہ جلاوطنی چھوڑ کر شاہ نواز بھٹو کی تدفین کے لئے پاکستان تشریف لے آئیں ۔
کچھ ہی عرصہ بعد انھوں نے نئی تحریک کا آغاز کیا تو اُن کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو اُن کے شانہ بشانہ تھیں ۔

ایک طرف تو وہ ضیاءالحق کے مارشل لاء کے ظلم و ستم برداشت کر رہی تھیں اور دوسری طرف انہوں نے پاکستان کی عوام کے سامنے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بے گناہی کا مقدمہ رکھنا تھا. عوام کا ردِ عمل اِس قدر متاثر کن تھا کہ وہ بالآخر 1988 کے عام انتخابات میں ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہو گئیں
اُس کی سیاسی جدوجہد دس سال سے زائد عرصے پر محیط تھی جس میں انھوں نے ڈکٹیٹر ضیاءالحق کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آخرکار مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بھی منتخب ہوئیں ۔

آپ کی سوچ عوامی تھی آپ کا جذبہ دیدنی تھا ۔یہی وہ وجہ تھی کہ آپ 1993 میں دوسری بار پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں اور یہ آپ کے لئے اعزاز کی بات تھی.
آپ اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نقشِ قدم پر چلتی رہیں اور پاکستان کی عوام میں آپ کی مقبولیت تاریخ ساز تھی اور یہی وہ وجہ تھی کہ طاقتور اداروں کو یہ بات کھٹکتی رہتی تھی اور وہ مسلسل آپ کے خلاف سازشوں میں مگن رہتے ۔

ایک بار پھر آپ کی حکومت کو بدعنوانی کے بےبنیاد الزامات لگا کر برطرف کر دیا گیا ۔یہ وہ دور بھی تھا جب کراچی میں آپ کے بڑے بھائی کو بھی قتل کر دیا گیا ۔کئی عوامی حلقوں کی طرف یہ بھی کہا گیا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کا ہاتھ تھا کیونکہ انھوں نے آصف علی زرداری پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے تھے۔

یہ بات پیپلزپارٹی کے لئے کافی حیران کن بھی تھی۔۔
1999 میں جب اُس وقت کے منتخب وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی طرف سے مارشل لاء لگا دیا گیا تو بے نظیر بھٹو بھی جلاوطنی پر مجبور ہو گئیں ۔
تقریباً نو سال وہ پاکستان سے دور رہیں اور لندن سے ہی مختلف تحریکوں کی قیادت کرتی رہیں ۔آپ پاکستان میں جمہوریت کی علمبردار تھیں ۔

آسی بات کے پیشِ نظر آپ نے کہا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔بےنظیر کے یہ الفاظ تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں ہی لکھے جاتے ہیں ۔
جب 2007 میں وہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد پاکستان آنے کے لئے کوششوں میں مصروف تھیں تو لندن میں ہی انہوں نے میاں نواز شریف ساتھ میثاقِ جمہوریت کیا۔یہ میثاق پاکستان میں جمہوريت کی تاریخ میں ایک سنہرا باب ہے ۔

جب محترمہ بینظیر بھٹو 2007 میں جلاوطنی کی زندگی گزار کر پاکستان آئیں اُن کا کراچی ائیرپورٹ پر فقیط المثال استقبال ہوا ۔بدقسمتی سے اسی روز بےنظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس میں وہ خوش قسمتی سے محفوظ رہیں لیکن اِن کے 100 سے زاہد چاہنے والے شہید کر دیے گئے ۔
ملک پھر میں جنوری 2008 میں عام انتخابات ہونا تھے۔لیکن بھٹو کے دشمن اور جمہوریت پر وار کرنے والوں نے اپنی سازشیں کرنا جاری رکھیں ۔

بےنظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں عوامی اجتماع سے واپسی پر اپنے چاہنے والوں کے نعروں کا جواب دینے کے لئے اپنی گاڑی سے جونہی باہر نکلیں تو اُن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور بی بی 27 دسمبر 2007 کو شہید کر دی گئیں ۔یعنی بھٹو فیملی کا آخری چشم و چراغ بھی گُل کر دیا گیا جنھوں نے سیاسی میدانوں میں نئی تاریخ رقم کی تھی ۔۔
بے نظیربھٹو ایک عہد ساز شخصیت تھیں جن کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن آپ نے ہمت اور دلیری سے جس طرح مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

جب دشمنانِ جمہوریت کا ہر حربہ ناکام رہا تو بےنظیر بھٹو کو ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سلا دیا گیا ۔لیکن آجتک محترمہ کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں ۔
‏وہ لڑکی لال قلندر تھی
قریہ قریہ ماتم ہے اور بستی بستی آنسو ہیں
صحرا صحرا آنکھیں ہیں اور مقتل مقتل نعرہ ہے
وہ قوم کی بیٹی تھی
جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
وہ مردہ ہوکر زندہ ہے
تم زندہ ہوکر مردہ ہو
وہ دکھی دیس کی کوئل تھی
وہ لڑکی لال قلندر تھی !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :