
پاکستانی سیاست کی '' میراں''
اتوار 15 نومبر 2020

سید عباس انور
(جاری ہے)
امریکہ سے ایک خبر آئی ہے کہ واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب میں پاکستان اور پاکستان آرمی کے مخالف کچھ مٹھی بھر لوگوں نے ایک تقریب منعقد کی ہے۔ یہ تقریب پی ٹی ایم ) پختون تحفظ موومنٹ( کے زیر اہتمام منعقد کی گئی جس میں پاکستان اور پاکستان آرمی مخالف لیڈاران نے شرکت کی ، ان میں منظور پشتین، محسن داوڑ، عبداللہ لنگیال ، اور ایک خاتون اسمائیل گلے لئی نے شامل ہیں اور ان لیڈران نے اپنے اپنے خطاب میں اپنے وہاں موجود کارکنوں پر زور دیا کہ افغانستان اور پشتون علاقوں میں مضبوط اتحادقائم کیا جائے ، اور اگریہ اتحاد پیدا نہیں ہوا تو پی ٹی ایم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔ اس سلسلے میں ان لیڈران نے ٹروتھ کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جو اس بات کو دنیا بھر میں پہنچانے کا ذریعہ بنے کہ پاکستان آرمی نے ماضی میں جنگ کرتے ہوئے افغانستان اور پشتون علاقوں میں جو خون بہایا گیا اس کا حساب کون دے گا؟ اب اس سارے معاملے کا تو دنیا بھر میں سب کو پتہ ہے ہی کہ جن کا پاکستان آرمی نے جنگ کے ذریعے خون بہایا وہ سب دہشت گرد تھے، اور پاکستان آرمی کی وہ جنگ دہشت گردی کے خلاف تھی۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ میں بھی اسی پی ٹی ایم کے لیڈر نے بھی خطاب کرنے کیلئے خصوصی طور پر امریکہ سے کوئٹہ پاکستان پہنچنا تھا لیکن بلوچستان حکومت نے انہیں اجازت نہیں دی۔ اس سلسلے میں جب چند صحافیوں نے واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کیا تو پہلے تو اس سفارتخانے کو واشنگٹن نیشنل پریس کلب میں منعقدہ اس تقریب کا پتہ نہیں تھا، جب ان سے صحافیوں نے استفسار کیا کہ پی ٹی ایم پاکستان اور پاکستان آرمی کے متعلق غلط پروپیگنڈا کر رہی ہے تو سفارتخانے کے عملے کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے ہمارا اس سے کوئی لین دین نہیں۔ حالانکہ پاکستان یا کسی بھی ملک کے سفارتخانے کا کام صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ ویزاجاری کرے، ان کے متعدد کاموں میں سے یہ بھی ایک کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے خلاف کسی بھی قسم کے غلط پروپیگنڈا کا تردیدی بیان یا اصل صورتحال عوام کے سامنے لاتے ہوئے اپنے ملک کا تحفظ کرے ۔ اس سلسلے میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور حکومتی سطح پریہ ضروری ہے کہ امریکہ میں موجود پاکستانی سفارتخانے سے جواب طلب کیا جانا چاہئے کہ وہ اپنے ملک اور اپنے ملک کی آرمی کے خلاف جھوٹے بیانات کا جواب کیوں نہیں دیتے اور اپنے ملک کا مثبت چہرہ عوام کے سامنے لانے کیلئے عملی کوشش کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟
وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک حالیہ تازہ ترین انٹرویو جو انہوں نے اپنے ہم نام اور ایک پاکستانی ٹی وی اینکر عمران خان کودیا ، میں بڑے اچھے انداز میں جواب دیئے، اس انٹرویو کی بازگشت ابھی تک ملک بھر کے ٹی وی ٹاک شو میں سنی جا سکتی ہے۔ اس انٹرویو میں سب سے بڑی اور صاف بات جووزیراعظم عمران خان نے واضح کر دی کہ وہ اپنا اقتدار اور کرسی بچانے کیلئے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ملک کو ماضی میں جس طرح لوٹا گیا، انہوں نے انہیں معاف کرنا اپنے نزدیک کہیں نا کہیں ملک سے غداری کرنے کے مترادف قرار دیا، اور اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ان کرپٹ سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور مافیاز کو ان کے انجام تک ضرور پہنچائیں گے۔مریض اعلٰی شہباز شریف کی دو کمپنیوں میں 23 ارب روپے کی کرپشن کی طرح اور بھی کئی لوگوں کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں، جن میں سیاست دان، بیورو کریٹس، بزنس مین، قبضہ گروپس اور مافیاز کے لوگ شامل ہیں، جو مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر بڑی بڑی کرپشن میں شامل ہیں۔یہ انکوائریاں وفاقی حکومت کے محکموں میں ہو رہی ہیں، جن میں کافی حد تک ثبوت حاصل کئے جا چکے ہیں۔آنے والے دنوں میں نیب اور ایف آئی اے میں سخت احتسابی مقدمات قائم کئے جانیوالے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ اس مرتبہ کمزور ثبوت نہیں بلکہ مضبوط اور جامع ثبوتوں کے ساتھ ان کرپٹ مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے، جس میں سے ان کا بچ نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔ماضی میں جتنے بھی مقدمات قائم کئے گئے ان میں کچھ نا کچھ بچ نکلنے کیلئے گنجائش موجود تھی ، انہوں نے یقین دلایا کہ اب ایسا نہیں ہو گا، عمران خان نے اپنے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ملک بھر کے مختلف محکموں میں موجود بے شمار خرابیاں موجود ہیں، اس میں اصلاح کی اشد ضرورت ہے، ان خرابیوں کو ایک دم سے درست نہیں کیا جا سکتا، اگر ایسا کیا گیا تو اس سے معیشت، بے روزگاری اور احتسابی نظام کی درستگی کے اثرات مثبت کی بجائے منفی ہونگے۔ کیونکہ ملکی ترقی میں رکاوٹ یہ کرپٹ مافیاز، سیاست دان اور بیورو کریٹس ہیں جو اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔عمران خان کے مطابق ان انکوائریوں کے نتیجے میں ہم نے کرپٹ سیاست دانوں اور خاص کر بیورو کریٹس کے ناموں کی ایک لسٹ تیار کر لی ہے،جن پر بہت جلد ہاتھ ڈالا جائے گا اور انہیں قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائیگا۔وزیراعظم نے مہنگائی ہونے کے سوال کو تسلیم کیا اور اپنے جواب میں یقین دلایا کہ بہت جلد اس پر کنٹرول کر لیا جائیگا۔ کرونا وائرس کے اثرات دنیا بھر کے تمام ممالک پر پڑے، اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان بیشتر ممالک کے مقابلے میں قدرے محفوظ رہا، اسی وجہ سے پاکستان میں بھی برے اثرات پڑے ہیں اور پڑ رہے ہیں۔ لیکن اس سارے معاملے کو کنٹرول کرنے کیلئے کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن بہت جلد وہ اس پر قابو پا لیں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے پر انہوں نے اپنی پرانی بات کو دہرایا کہ دنیا بھر سے ہماری حکومت پر لالچ کے ساتھ ساتھ سیاسی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آپ کو ایف اے ٹی ایف سے نکال دیا جائیگا، معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد، اور آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے لیکن اگر پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نا کیا تو ان تمام شرائط کے الٹ یعنی ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کر دیا جائیگا، معیشت کو خراب اور آئی ایم ایف کی شرائط اور سخت کر دی جائیں گی اور جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس دباؤ میں کچھ مسلم ممالک بھی شامل ہیں تو عمران خان نے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت کر لی۔وزیراعظم نے بڑے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں بتایا کہ اب پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ جڑا ہوا ہے، پاکستان کا چین کے ساتھ اتحاد پاکستان کیلئے ناگزیر اور فائدہ مند تو ہے ہی، چین کا مفاد بھی اب یہی ہے کہ وہ پاکستان سے دوستی ویسے ہی نبھائے جیسے پہلے نبھاتا رہا ہے۔انڈین دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق اب اگر انڈیا نے پاکستان یا چین سے جنگ میں پہل کی تو یہ نہیں ہو سکتا کہ انڈیا کے ساتھ اکیلا چین یا پاکستان ہی جنگ کریگا بلکہ چین کی ٹیکنالوجی اور پاکستانی جوانمرد آرمی انڈین فوجیوں کے دانت کھٹے کرنے میں یک جان ہونگے، اور اس کے نتیجے میں انڈیا اپنے ان حصوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جن پر اس نے کئی دہائیوں سے زبردستی قبضہ جما رکھا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی طرح عمران خان بھی اپنے لئے ایماندار اور بہتر لوگ تلاش نہیں کر پائے۔ انہوں نے بھی دبے لفظوں میں اس بات کو تسلیم کیا کہ ان کے دائیں بائیں کھوٹے سکے بکثرت موجود ہیں۔لیکن وہ خود اس بات پر سخت مجبور ہیں، انہیں اس بات کا احساس ہے کہ اگر انہوں نے ان کھوٹے سکوں پر ہاتھ ڈالا تو ہو سکتا ہے ان کیخلاف ایک اور طرح کی بحث چھڑ جائے، لیکن وہ ان سب پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ ملکی سطح پر ایسا کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے جس سے پاکستان کی سالمیت کو نقصان ہو۔ اس انٹرویو میں مریض اعظم نواز شریف پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات پر یقین کا اظہار کیا کہ انٹیلی جنس رپورٹ کو من و عن واضح طور پرتو لیک نہیں کیا جا سکتا مگر انہوں نے''اندازاً'' نہیں بلکہ ''یقیناً'' کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف ملک دشمن عناصر کے رابطے میں ہیں۔ اور وہ ان سے مل کر ملک دشمن سرگرمیوں میں شامل ہیں۔کیونکہ انٹیلی جنس کی رپورٹوں پر کسی کو عدالت میں مجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا، اس لئے کہ عدالت کسی بھی جرم کرنے والے کیخلاف ثبوت مانگتی ہے، اور ثبوت ان کے یا انٹیلی جنس ایجنسی کے پاس موجود نہیں، اس لئے وہ بھی عدالت نہیں جائیں گے۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مریض اعظم نوازشریف پہلے بھی بیک ڈور چینلز کے ذریعے رابطے کرتے رہے ہیں ۔ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کے بعد ان بیک ڈور رابطوں کی جانب سے انہیں کوئی گھاس نہیں ڈالی گئی جس کے باعث اب یہ رابطے منقطع ہو گئے ہیں۔جس کے بعد مریض اعظم نواز شریف نے حکومت اور پاکستان آرمی مخالف بیانات دے کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مار لیا ہے بلکہ اپنا پاؤں کلہاڑا پر مار لیا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عباس انور کے کالمز
-
خان صاحب !ٹیلی فونک شکایات یا نشستاً، گفتگواً، برخاستاً
منگل 25 جنوری 2022
-
خودمیری اپنی روداد ، ارباب اختیار کی توجہ کیلئے
منگل 4 جنوری 2022
-
پاکستان کے ولی اللہ بابے
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
''پانچوں ہی گھی میں اور سر کڑھائی میں''
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
کورونا کی تباہ کاریاں۔۔۔آہ پیر پپو شاہ ۔۔۔
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کااحتساب اورملکی صورتحال
اتوار 19 ستمبر 2021
-
کلچر کے نام پر پاکستانی ڈراموں کی '' ڈرامہ بازیاں''
پیر 13 ستمبر 2021
-
طالبان کا خوف اور سلطنت عثمانیہ
اتوار 5 ستمبر 2021
سید عباس انور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.