پاکستانی سیاست کی '' میراں''

اتوار 15 نومبر 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

مریم صفدر نے دو روز قبل ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر گھچ مار دی ، کچھ ہی دنوں پہلے یہی مریم صفدر اور ان کے پاپا مریض اعظم نواز شریف اپنے ہر خطاب میں دنیا کے سامنے پاکستانی فوج کے اوپرالزامات لگانے میں اس حد تک چلے گئے کہ کوئی بھی محب وطن پاکستانی ان کی تقاریر کو سننے کے بعد اندازہ لگانے میں زرہ برابر بھی ابہام کا شکار نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ پاپا اور ان کی بیٹی غدار وطن ہیں یا کسی دوسرے ملک کی پڑھائی ہوئی کوئی بولی بول رہے ہیں۔

تازہ ترین گھچ یہ مار دی کہ انٹرویو میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ '' ہم پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج سے مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن اس کی ایک شرط یہ ہے کہ پہلے عمران خان کی حکومت کو ختم کیا جائے'' اس سے قبل ایک نہیں کئی مرتبہ وہ اور ان کے پاپا اسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان دے چکے ہیں کہ '' ہماری عمران خان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہمیں تو پاکستانی عدلیہ ، پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے شکایات ہیں'' وغیرہ وغیرہ ۔

(جاری ہے)

۔ اور اب اسی پاکستانی آرمی کے سربراہان سے مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ ان کے دوغلے پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے یہ لوگ کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو اورپاکستان آرمی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ آرمی کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے اور انہیں ملکی سیاست اورجمہوری معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں اور اگلے ہی لمحے پاکستان آرمی کو مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سیاست اور جمہوری معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے آرمی چیف کو چاہئے کہ وہ اگر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو پہلے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے تو آگے بات ہو سکتی ہے۔

ان دوغلے گھچوں نما بیانات سے تو ہر ذی شعور پاکستانی کو پتہ چل چکا ہے کہ یہ لوگ ایسے بیان صرف اور صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ انہیں جلد از جلد این آر او مل جائے اور ہم سے لوٹی ہوئی دولت کے متعلق کسی قسم کا کوئی سوال نا ہواور کسی طریقے ہم دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد اقتدارکے مزے لوٹ سکیں۔چند دنوں قبل یہی مریم صفدر گلگت بلتستان میں ہونیوالے الیکشن کی کمپین کے سلسلے میں گلگت میں موجود رہیں اور وہاں مختلف الیکشن کارنر میٹنگز میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اسی بات پر زور دیتی رہیں کہ میں اور میرے پاپا ایک مظلوم شخصیات ہیں جن پر موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔


میری نظر میں مریم صفدر موجودہ دور میں پاکستانی سیاست کی میراں ثابت ہو رہی ہیں۔ جیسے پاکستانی فلم انڈسٹری کی چالاک، مکار اور میڈیا میں روزانہ کی بنیاد پران رہنے کیلئے ہر وقت فلم سٹار میراں نئے نئے سیکنڈل اورمنصوبے بناتی رہتی ہیں اسی طرح یہ مریم صفدر عرف نانی صاحبہ بھی ہر وقت اسی چکر میں رہتی ہیں کہ کسی نا کسی طرح میرا نام ملکی سیاست میں اسی طرح لیا جاتا رہے جیسے بے نظیر بھٹو صاحبہ ہوا کرتی تھیں۔

اب میراں کا ذکر چلا ہے تو یہ بھی ایک خبر قارئین کرام سے شیئر کر لیں کہ آج کل سوشل میڈیا پر پاکستان فلم سٹیج کا بہت پرانا کرویوگرافر لاڈا کی ویڈیو بڑی وائرل ہو چکی ہے جس میں وہ میراں پر الزام لگا رہا ہے کہ تین ماہ تک میراں نے اسے اپنے گھر کے ایک کونے میں ایک کمرہ رہنے کیلئے دیا اور ایک پریس کانفرنس میں بے حال آرٹسٹوں کی بحالی کیلئے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم چلائی، اور صاحب ثروت افراد سے اپیل کہ وہ اسے اس کی کفالت کیلئے میرے اکاؤنٹ میں چندہ کے طور پر رقم جمع کرائیں، تاکہ اس سینئر کرویوگرافر اور اس کی فیملی کی طرح دوسرے آرٹسٹوں کی کفالت کیلئے مالی طور پرکچھ کیا جا سکے۔

بقول اس کرویوگرافر لاڈا کے میراں کے اکاؤنٹ میں مقامی اور بین الاقوامی صاحب ثروت کی طرف سے لاکھوں روپے جمع بھی ہوئے، لیکن اس خود ساختہ میڈیا کوئین نے ایک پیسہ بھی نا ہی مجھے دیا اور نا ہی کسی دوسرے آرٹسٹ کیلئے کفالت کا باعث بنیں۔بلکہ جیسے ہی مجھے اور میری فیملی کو اپنے گھر میں پناہ دی تو وہاں موجود گارڈز اور دوسرے تمام ملازمین کی چھٹی کرا دی، میرے اور میری فیملی سے گھر کے وہ وہ کام کرائے جو ان سے پہلے نکالے جانیوالے ملازمین کیا کرتے تھے۔

فلم اور سٹیج کے ڈانسر استاد لاڈا نے مزید بتایا کہ کسی میڈیا یا پریس کانفرنس اور بیرون ملک سے موصول ہونیوالی ٹیلی فون کال کا سامنا کرنے کیلئے ہمیشہ مجھے اور میری فیملی کو آگے کر دیا جاتا۔ مبینہ طور پر کچھ میڈیا اینکرز نے بھی ان باتوں کی تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ کچھ عرصہ قبل میراں نے نیویارک سے جوایک ویڈیوکلپ سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہوئے پاکستانی گورنمنٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کرونا وائرس شروع ہونے سے قبل امریکہ آئیں تھیں اور اس وباء کے باعث تمام فلائٹس بند ہو چکی ہیں، اوران کے ساتھی فنکار ان کو اکیلا وہاں چھوڑ کر پاکستان جا چکے ہیں، اس وقت وہ بے یار و مددگار نیویارک میں موجود ہیں، لہٰذا انہیں واپس پاکستان لانے کیلئے مالی امداد کی جائے ۔

سوشل میڈیا اینکرز کے مطابق وہ یہ سب جھوٹ پر مبنی ویڈیو کلپس تھے، وہ تو سرے سے امریکہ گئیں ہی نہیں۔ اور ایسے ڈرامے وہ مالی امداد حاصل کرنے کیلئے کر رہی تھیں۔ اس طرح کے کئی جھوٹ سچ پر مبنی قصے وہ آئے روز میڈیا میں ان رہنے کیلئے بیان کرتی رہتی ہیں۔ یہی حرکات اب مریم صفدر بھی ہر جگہ کرنے کی کوشش تو ضرور کرتی ہیں لیکن خود اپنی بے وقوفی کی وجہ سے اپنی ہی ہنڈیا بیچ چوراہے میں خود ہی پھوڑ دیتی ہیں، اور ان کا جھوٹ خود بخود سب کے سامنے آ جاتا ہے۔

گلگت بلتستان کے الیکشن کے متعلق دنیا بھر کی سروے رپورٹس میں یہی واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ ان الیکشنز میں پی ٹی آئی کی کامیابی یقینی ہے، اور دوسرے نمبر پر جو پارٹی کامیاب ہو گی وہ پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پر آزاد امیدواروں اور پھر چوتھے نمبر پر ن لیگ آئے گی۔ خیر یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ اعداد وشمار کتنی حد تک درست ثابت ہونگے۔

اس کے علاوہ کہا جا رہا ہے کہ مریم صفدر اور بلاول بھٹو کی گلگت میں ایک ون ٹو ون چائے پر ملاقات بھی ہوئی جس میں مریم صفدر نے بلاول کو اس بات پر قائل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی کہ گلگت بلتستان الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی جائے، اور پی پی پی اور ن لیگ مل کر پی ٹی آئی کو شکست دے، اس پر بلاول بھٹو نے مریم صفدر کی اس تجویز سے اتفاق نا کرتے ہوئے ن لیگ کو ایک بند گلی میں دھکا دے دیا ہے۔


امریکہ سے ایک خبر آئی ہے کہ واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب میں پاکستان اور پاکستان آرمی کے مخالف کچھ مٹھی بھر لوگوں نے ایک تقریب منعقد کی ہے۔ یہ تقریب پی ٹی ایم ) پختون تحفظ موومنٹ( کے زیر اہتمام منعقد کی گئی جس میں پاکستان اور پاکستان آرمی مخالف لیڈاران نے شرکت کی ، ان میں منظور پشتین، محسن داوڑ، عبداللہ لنگیال ، اور ایک خاتون اسمائیل گلے لئی نے شامل ہیں اور ان لیڈران نے اپنے اپنے خطاب میں اپنے وہاں موجود کارکنوں پر زور دیا کہ افغانستان اور پشتون علاقوں میں مضبوط اتحادقائم کیا جائے ، اور اگریہ اتحاد پیدا نہیں ہوا تو پی ٹی ایم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔

اس سلسلے میں ان لیڈران نے ٹروتھ کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جو اس بات کو دنیا بھر میں پہنچانے کا ذریعہ بنے کہ پاکستان آرمی نے ماضی میں جنگ کرتے ہوئے افغانستان اور پشتون علاقوں میں جو خون بہایا گیا اس کا حساب کون دے گا؟ اب اس سارے معاملے کا تو دنیا بھر میں سب کو پتہ ہے ہی کہ جن کا پاکستان آرمی نے جنگ کے ذریعے خون بہایا وہ سب دہشت گرد تھے، اور پاکستان آرمی کی وہ جنگ دہشت گردی کے خلاف تھی۔

گزشتہ دنوں کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ میں بھی اسی پی ٹی ایم کے لیڈر نے بھی خطاب کرنے کیلئے خصوصی طور پر امریکہ سے کوئٹہ پاکستان پہنچنا تھا لیکن بلوچستان حکومت نے انہیں اجازت نہیں دی۔ اس سلسلے میں جب چند صحافیوں نے واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کیا تو پہلے تو اس سفارتخانے کو واشنگٹن نیشنل پریس کلب میں منعقدہ اس تقریب کا پتہ نہیں تھا، جب ان سے صحافیوں نے استفسار کیا کہ پی ٹی ایم پاکستان اور پاکستان آرمی کے متعلق غلط پروپیگنڈا کر رہی ہے تو سفارتخانے کے عملے کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے ہمارا اس سے کوئی لین دین نہیں۔

حالانکہ پاکستان یا کسی بھی ملک کے سفارتخانے کا کام صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ ویزاجاری کرے، ان کے متعدد کاموں میں سے یہ بھی ایک کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے خلاف کسی بھی قسم کے غلط پروپیگنڈا کا تردیدی بیان یا اصل صورتحال عوام کے سامنے لاتے ہوئے اپنے ملک کا تحفظ کرے ۔ اس سلسلے میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور حکومتی سطح پریہ ضروری ہے کہ امریکہ میں موجود پاکستانی سفارتخانے سے جواب طلب کیا جانا چاہئے کہ وہ اپنے ملک اور اپنے ملک کی آرمی کے خلاف جھوٹے بیانات کا جواب کیوں نہیں دیتے اور اپنے ملک کا مثبت چہرہ عوام کے سامنے لانے کیلئے عملی کوشش کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟
وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک حالیہ تازہ ترین انٹرویو جو انہوں نے اپنے ہم نام اور ایک پاکستانی ٹی وی اینکر عمران خان کودیا ، میں بڑے اچھے انداز میں جواب دیئے، اس انٹرویو کی بازگشت ابھی تک ملک بھر کے ٹی وی ٹاک شو میں سنی جا سکتی ہے۔

اس انٹرویو میں سب سے بڑی اور صاف بات جووزیراعظم عمران خان نے واضح کر دی کہ وہ اپنا اقتدار اور کرسی بچانے کیلئے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ملک کو ماضی میں جس طرح لوٹا گیا، انہوں نے انہیں معاف کرنا اپنے نزدیک کہیں نا کہیں ملک سے غداری کرنے کے مترادف قرار دیا، اور اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ان کرپٹ سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور مافیاز کو ان کے انجام تک ضرور پہنچائیں گے۔

مریض اعلٰی شہباز شریف کی دو کمپنیوں میں 23 ارب روپے کی کرپشن کی طرح اور بھی کئی لوگوں کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں، جن میں سیاست دان، بیورو کریٹس، بزنس مین، قبضہ گروپس اور مافیاز کے لوگ شامل ہیں، جو مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر بڑی بڑی کرپشن میں شامل ہیں۔یہ انکوائریاں وفاقی حکومت کے محکموں میں ہو رہی ہیں، جن میں کافی حد تک ثبوت حاصل کئے جا چکے ہیں۔

آنے والے دنوں میں نیب اور ایف آئی اے میں سخت احتسابی مقدمات قائم کئے جانیوالے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ اس مرتبہ کمزور ثبوت نہیں بلکہ مضبوط اور جامع ثبوتوں کے ساتھ ان کرپٹ مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے، جس میں سے ان کا بچ نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔ماضی میں جتنے بھی مقدمات قائم کئے گئے ان میں کچھ نا کچھ بچ نکلنے کیلئے گنجائش موجود تھی ، انہوں نے یقین دلایا کہ اب ایسا نہیں ہو گا، عمران خان نے اپنے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ملک بھر کے مختلف محکموں میں موجود بے شمار خرابیاں موجود ہیں، اس میں اصلاح کی اشد ضرورت ہے، ان خرابیوں کو ایک دم سے درست نہیں کیا جا سکتا، اگر ایسا کیا گیا تو اس سے معیشت، بے روزگاری اور احتسابی نظام کی درستگی کے اثرات مثبت کی بجائے منفی ہونگے۔

کیونکہ ملکی ترقی میں رکاوٹ یہ کرپٹ مافیاز، سیاست دان اور بیورو کریٹس ہیں جو اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔عمران خان کے مطابق ان انکوائریوں کے نتیجے میں ہم نے کرپٹ سیاست دانوں اور خاص کر بیورو کریٹس کے ناموں کی ایک لسٹ تیار کر لی ہے،جن پر بہت جلد ہاتھ ڈالا جائے گا اور انہیں قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائیگا۔وزیراعظم نے مہنگائی ہونے کے سوال کو تسلیم کیا اور اپنے جواب میں یقین دلایا کہ بہت جلد اس پر کنٹرول کر لیا جائیگا۔

کرونا وائرس کے اثرات دنیا بھر کے تمام ممالک پر پڑے، اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان بیشتر ممالک کے مقابلے میں قدرے محفوظ رہا، اسی وجہ سے پاکستان میں بھی برے اثرات پڑے ہیں اور پڑ رہے ہیں۔ لیکن اس سارے معاملے کو کنٹرول کرنے کیلئے کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن بہت جلد وہ اس پر قابو پا لیں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے پر انہوں نے اپنی پرانی بات کو دہرایا کہ دنیا بھر سے ہماری حکومت پر لالچ کے ساتھ ساتھ سیاسی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آپ کو ایف اے ٹی ایف سے نکال دیا جائیگا، معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد، اور آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے لیکن اگر پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نا کیا تو ان تمام شرائط کے الٹ یعنی ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کر دیا جائیگا، معیشت کو خراب اور آئی ایم ایف کی شرائط اور سخت کر دی جائیں گی اور جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس دباؤ میں کچھ مسلم ممالک بھی شامل ہیں تو عمران خان نے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت کر لی۔

وزیراعظم نے بڑے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں بتایا کہ اب پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ جڑا ہوا ہے، پاکستان کا چین کے ساتھ اتحاد پاکستان کیلئے ناگزیر اور فائدہ مند تو ہے ہی، چین کا مفاد بھی اب یہی ہے کہ وہ پاکستان سے دوستی ویسے ہی نبھائے جیسے پہلے نبھاتا رہا ہے۔انڈین دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق اب اگر انڈیا نے پاکستان یا چین سے جنگ میں پہل کی تو یہ نہیں ہو سکتا کہ انڈیا کے ساتھ اکیلا چین یا پاکستان ہی جنگ کریگا بلکہ چین کی ٹیکنالوجی اور پاکستانی جوانمرد آرمی انڈین فوجیوں کے دانت کھٹے کرنے میں یک جان ہونگے، اور اس کے نتیجے میں انڈیا اپنے ان حصوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جن پر اس نے کئی دہائیوں سے زبردستی قبضہ جما رکھا ہے۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ قائد اعظم کی طرح عمران خان بھی اپنے لئے ایماندار اور بہتر لوگ تلاش نہیں کر پائے۔ انہوں نے بھی دبے لفظوں میں اس بات کو تسلیم کیا کہ ان کے دائیں بائیں کھوٹے سکے بکثرت موجود ہیں۔لیکن وہ خود اس بات پر سخت مجبور ہیں، انہیں اس بات کا احساس ہے کہ اگر انہوں نے ان کھوٹے سکوں پر ہاتھ ڈالا تو ہو سکتا ہے ان کیخلاف ایک اور طرح کی بحث چھڑ جائے، لیکن وہ ان سب پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ ملکی سطح پر ایسا کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے جس سے پاکستان کی سالمیت کو نقصان ہو۔

اس انٹرویو میں مریض اعظم نواز شریف پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات پر یقین کا اظہار کیا کہ انٹیلی جنس رپورٹ کو من و عن واضح طور پرتو لیک نہیں کیا جا سکتا مگر انہوں نے''اندازاً'' نہیں بلکہ ''یقیناً'' کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف ملک دشمن عناصر کے رابطے میں ہیں۔ اور وہ ان سے مل کر ملک دشمن سرگرمیوں میں شامل ہیں۔

کیونکہ انٹیلی جنس کی رپورٹوں پر کسی کو عدالت میں مجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا، اس لئے کہ عدالت کسی بھی جرم کرنے والے کیخلاف ثبوت مانگتی ہے، اور ثبوت ان کے یا انٹیلی جنس ایجنسی کے پاس موجود نہیں، اس لئے وہ بھی عدالت نہیں جائیں گے۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مریض اعظم نوازشریف پہلے بھی بیک ڈور چینلز کے ذریعے رابطے کرتے رہے ہیں ۔ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کے بعد ان بیک ڈور رابطوں کی جانب سے انہیں کوئی گھاس نہیں ڈالی گئی جس کے باعث اب یہ رابطے منقطع ہو گئے ہیں۔جس کے بعد مریض اعظم نواز شریف نے حکومت اور پاکستان آرمی مخالف بیانات دے کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مار لیا ہے بلکہ اپنا پاؤں کلہاڑا پر مار لیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :