'' شاہ سے زیادہ ، شاہ کے وفادار''

اتوار 22 نومبر 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

دو روز قبل تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کے چیئر مین ، حافظ قرآن و حدیث،اور اقبالیات کے ماہر علامہ خادم حسین رضوی بوجہ نمونیا، سانس کی تکلیف اور رضائے الہٰی سے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جب یہ غیرمتوقع خبر ٹی وی پر چلی تو فوراً ہی پورے ملک کے علاوہ دنیا بھر میں پھیل گئی، اس دوران کچھ جھوٹی افواہوں نے بھی اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ، کہ ''ان کا سانس ہسپتال پہنچنے پر بحال ہو گیا ہے''، اس خبر پر بھی اس کے رفقاء کار اور پیروکار حضرات میں وقتی طور پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ، لیکن یہ جھوٹی افواہ تھوڑی ہی دیر بعد دم توڑ گئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک جلیل القدر عالم دین تھے۔ ان کے پرجوش خطابات سن کر ہراس بندے کا ایمان تازہ ہو جاتا تھا جو اسلام اور خصوصاً سیرت النبی کریم ﷺ سے عقیدت رکھتا ہو، اسے ارکان اسلام کی پابندی کرنا آتی ہو یا نا آتی ہو، لیکن اگر کوئی ایک دفعہ علامہ صاحب کی تقریر سننے بیٹھ گیا تو گویا وہ خطاب پورا سننے تک جہاں بیٹھا وہیں بیٹھا رہ گیا۔

(جاری ہے)

ویسے بھی پوری دنیا میں یہی مسلمانوں کی خاصیت ہے کہ کہ چاہے اسے ارکان اسلام ادا کرنے کا طریقہ تک نا آتا ہو، جہاں وہ وضو کرنے کے طریقے سے نابلد ہو، 6 کلمے یاد ہوں یا نا ہوں،چاہے قرآن کریم پڑھنا آتا ہو یا نا آتا ہو، لیکن اگر کوئی ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرے تو ہر مسلمان عاشق رسول ﷺ بن جائیگا، اس گستاخ رسول ﷺ کو جان سے مار دے گا یا خود شہید ہو جانے کو ترجیح دے گا۔

اسی کیفیت کو حب رسولﷺ کہتے ہیں، اپنے رسول ﷺسے عشق کی یہ وہ داستان ہے جو 1400 سال پہلے سے لیکر اب تک مسلمانوں نے اپنے خون سے لکھی ہے۔ ایک یہودی نے بھی اسی حب رسولیت ﷺ پر کافی لمبے عرصہ تک ریسرچ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگرمسلمانوں میں یہ ایک چیز یعنی عشق محمدی ﷺ ختم ہو جائے تو یہ مذہب ہی نعوذباللہ ختم ہو جائیگا۔اور علامہ صاحب کے تو خطابات ہی لبیک ، لبیک ، لبیک یا رسول اللہ ﷺ سے شروع اوراسی نعرہ پر ختم ہواکرتے تھے۔

پوری دنیا میں جب بھی کسی ملعون نے شان مصطفی ﷺ میں گستاخی کی کوشش کی ، تو علامہ صاحب کی آواز بھی ان لاکھوں کروڑوں مسلمانوں میں سب سے پہلے بلند ہوتی تھی جو اپنے نبی کریم ﷺ کی خاطر کٹ مرنے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔اس موقع پر دوسرے تمام مسلمانوں کی طرح ہماری بھی یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عاشق رسول ﷺ کی بھی مغفرت فرمائے اور ان کو اعلٰی درجات سے نوازے۔

)آمین(
یکم اکتوبر کو مریض اعلٰی نواز شریف کے پاک فوج مخالف تقریر کے بعد پیمرا نے قانون اور عدالتی حکم کا حوالہ دیتے ہوئے ملک بھر کے تمام ٹی وی اور میڈیا گروپ کوایک نوٹیفیکشن جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کوئی مفرور مجرم یا ملزم ٹی وی پر بیٹھ کر براہ راست یا ریکارڈ شدہ تقریر کی صورت میں مخاطب نہیں ہو سکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی عدالت نے کسی بھی شخص کو مجرم ثابت ہونے پر گرفتار کیا تو وہ ویسے ہی فریڈم آف سپیچ کا اہل نہیں رہتا، اور اس کے بنیادی انسانی حقوق معطل ہو جاتے ہیں، جب وہ جیل میں قید کر لیا گیا توآزادی کا حق بھی جاتا رہا، کسی بھی انفارمیشن جاننے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے،اسی لئے تو جیل میں قید اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا، کہیں باہر گھومنا پھرنا ، اپنی مرضی کے کھانے پینے کا حق بھی سلب ہو جاتا ہے۔

ویسے تو ملک بھرمیں مفروروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان میں پرویز مشرف بھی ہیں، نواز شریف ، اسحاق ڈار، نواز شریف کے دونوں صاحب زادے حسن و حسین نواز شریف شامل ہیں، لیکن ایک صحافی ٹولے میں ایک دم سے غیرت اور انقلاب جاگا اور انہوں نے نواز شریف اور ان کے دوسرے حواریوں کی آزادی اظہار کیلئے عدالت کا رخ کر لیا۔
ویسے تو صحافی اپنے پیشے کے تقدس کے لحاظ سے کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھنے کا مجاذ نہیں ہونا چاہئے۔

اسی اصول کو ملیامیٹ کرتے ہوئے چند روز قبل پاکستان بھر کے 19 مایہ ناز صحافی خواتین و حضراتPFUJ کے پلیٹ فارم کا سہارا لیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اظہر من اللہ کی عدالت میں پہنچ گئے ۔ان میں نجم سیٹھی جن کو نواز شریف نے نگران وزیراعلٰی پنجاب اور بعد میں شہباز شریف نے انہیں PCB کا چیئرمین بھی لگایا۔اور بعدمیں ان کے حوالے سے 35 پنکچر بھی مشہور ہوئے۔

''میرے کپتان '' کا فقرہ مشہور کرنے والے منصور علی خان، سینئر خاتون صحافی نسیم زہرہ جن سے ایک زمانے میں جاتی عمرہ میں نواز شریف کے سیکورٹی اہلکاروں نے کیمرے تک چھین لئے تھے، کیونکہ وہاں انٹرویو کے دوران ایسی باتیں رونما ہو گئیں تھیں جن سے ناراض ہو کر نواز شریف نہیں چاہتے تھے کہ وہ آن ایئر جائیں۔ جن کو خود نوازشریف نے آزادی اظہاررائے سے روکا وہ خود نواز شریف کیلئے آزادی اظہار رائے کیلئے کوشاں دکھائی دے رہی ہیں۔

عاصمہ شیرازی المعروف سرکاری حج، اس کے علاوہ نواز شریف کے ہر سرکاری دورے میں ان کے جہاز میں موجود ہوتی تھیں۔شوخ و چنچل غریدہ فاروقی جو ایک گھر میں کام کرنے والی لڑکی کے سکینڈل میں کافی مشہور ہوئیں، جنہوں نے بہت کم وقت میں اپنی جگہ مصروف ترین ٹائمز کے ٹاک شوز میں بنائی۔ ڈان لیکز کی امبر شمسی، مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں ن لیگ کی ترجمان صحافی میمل سرفراز، جیو نیوز کے واحد صحافی سلیم صافی جو ٹاک شوز میں ہی عمران خان سے بغض رکھنے میں مشہور ہیں،ایڈوکیٹ عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی صاحب زادی منیزہ جہانگیر، پیمرا کے سابق ہیڈ ابصار عالم جو نواز شریف، شہباز شریف اور اب مریم صفدر کے ساتھ اکثر دیکھے جاتے ہیں۔

ان سب کے علاوہ بھی اور کچھ صحافی حضرات ہیں جو اس پٹیشن دائرکرنے کی کوشش میں شامل ہیں۔ پٹیشن بغرض یہ تھی کہ دھوکہ دہی ، کرپشن اور انٹرنیشنل منی لانڈرنگ میں سزا یافتہ مریض اعظم نوازشریف اور پاکستان میں ایک بڑا فراڈ کرنے کے بعد مفرور اشتہاری سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو آزادی اظہار کے تحت بولنے کی اجازت دی جائے کہ وہ میڈیا اور ٹی وی چینلز پر تقریرکے ذریعے قوم سے مخاطب ہو سکیں۔

کیونکہ پیمرا نے نواز شریف اور ملک بھر کے تمام مفرور اشتہاری مجرموں کے خطاب کو ٹی وی چینلز پر نشر کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ جس کو قانونی طور پر ہٹانے اور نواز شریف کے لفافوں کاحق ادا کرنے کیلئے بیرسٹرسلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ کے ساتھ ہائی کورٹ اسلام آباد آئے، اور پٹیشن دائر کرنے کی کوشش کی، انہوں نے سوچا ہو گا کہ جسٹس اظہر من اللہ ہماری پٹیشن پر ہمدردانہ سماعت کرتے ہوئے اس بات کی اجازت دیدیں گے اور پیمرا کو حکم جاری کریں گے کہ مفروروں اورر اشتہاری مجرموں کو ٹی وی پر خطابات کی اجازت دیدی جائے، اس ضمن میں دیکھا جائے تو الطاف حسین کو بھی اجازت ملنی چاہئے۔

اس کے گول مٹول پیٹ میں تو اتنی باتیں اور ان کا ڈرامائی انداز بیان سارا دن بھی ٹی وی پر نشر ہوتا رہے تو ختم نا ہوں۔ حافظ سعید بھی اسی لائن میں کھڑے ہیں جن پر ماضی میں پابندی لگا دی گئی۔اور اس کے علاوہ پاکستان مخالف پشتین گروپ اور پاکستان طالبان کے وہ دہشت گرد لیڈرشپ جن کی دہشت گردی کو پاکستان آرمی نے دبایا اور ان کا قلع قمع کرنے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ، جن کے بم دھماکوں میں سینکڑوں معصوم شہری شہید ہو چکے ہیں، وہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ میڈیا یا پاکستان کے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ریاست کے خلاف اپنا حق آزادی اظہار کریں، ان کے اظہار آزادی کیلئے تو یہی صحافی ٹولہ پہلے کبھی عدالت میں نہیں گیا کہ ان سب کو آزادی اظہار کے نام پر ٹی وی چینلزپر آ کر تقریر یا اظہار خیال کا موقع فراہم کیا جائے۔

پوری پاکستانی قوم کو یاد ہو گا کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے مولانا طارق جمیل صاحب نے اجتماعی دعا کے موقع پر کسی میڈیا گروپ کی جانب اشارتاً کہا تھا کہ '' اگرمیڈیا میں جھوٹ کاسہارا نا لیا جائے تو چینل ہی بند ہو جائیگا'' پر یہی سارا صحافی ٹولہ اکٹھا ہوگیا تھا اور مولانا طارق جمیل صاحب کو اس بات پر معافی مانگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ماضی میں ڈاکٹر شاہد مسعود پر بھی جھوٹا مقدمہ درج کروا کے انہیں کئی ہفتوں تک جیل میں رکھا گیا اور جب کیس کے سلسلے میں انہیں عدالت میں پیش کیا جاتا تو مضبوط ہتھکڑیوں میں جکڑ کر پورے پاکستان میں ذلیل و رسوا کیا گیا، سب نے دیکھا کہ ان پر کیا جانیوالا کیس جھوٹا نکلا اور اس کیس سے باعزت بری بھی ہوئے لیکن اس تمام کیس کے دوران ان صحافیوں نے کبھی اپنے ٹی وی ٹاک شوز میں کبھی ڈاکٹر صاحب کے حق میں آواز بلند نہیں کی، ان کیلئے تو کبھی بھی یہ صحافی میدان میں نہیں آئے اور نا ان سے کبھی بھی معافی مانگی۔

صحافی کو ایسا ہونا چاہئے جو کسی بھی پارٹی کا ہمدردو نمائندہ نا ہو، وہ اپنا تجزیہ ہمیشہ سچ اور حق پر دے۔ اس پورے ٹولے نے آج تک بحریہ ٹاؤن کے بانی ملک ریاض جیسے بڑے بڑے لوگوں کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی۔ جسٹس اظہر من اللہ نے کیس سننے کے بعد سرے سے خارج ہی کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اشتہاری مفرور مجرموں کیلئے ایسی کوئی بھی اجازت دینا ملکی مفاد عامہ میں نہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان اشتہاریوں کی ٹی وی پر بیٹھ کر تقریر نشر کرنے کی اجازت دی جائے، یہ کہاں کا قانون ہے، پھر تو ایسے کرتے ہیں کہ پاکستان کی تمام جیلوں کے گیٹ کھول دیئے جائیں اور جیلوں میں موجود بے شمار مجرموں کو بھی آزادی اظہار کا موقع ملنا چاہئے۔

کیونکہ ان صحافیوں نے ڈائریکٹ نواز شریف یا اسحاق ڈار اور پرویز مشرف کا نام لئے بغیریہ کہا کہ سب کو آزادی اظہار موقع ملنا چاہئے ، ان صحافیوں کی بیک پر نواز شریف اور ان کی پارٹی کھڑی ہے جو ان کو ہلہ شیری دے رہی ہے کہ کسی طریقے ہمارے لیڈروں کو براہ راست تقاریر کرنے کا حکم عدالت سے مل جائے تو وہ کھل کر پاکستانی میڈیا پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے تیزتیر برسا سکیں ۔

یہی لفافہ صحافی آج تک اپنے میڈیا گروپس کے چھوٹے اخباری کارکنوں کی تنخواہوں اور ویج بورڈ ایوارڈ پر عملدرآمد کیلئے عدالت تو کیا سڑکوں پر احتجاج میں شامل نہیں ہوئے،اس پٹیشن کو پیش کرنے اوررد ہونے سے ایک بات جو روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ ملک میں صحافیوں کی صفوں میں بہت سی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو ان اشتہاریوں اور مفروروں کیلئے '' شاہ سے زیادہ ، شاہ کے وفادار '' کا کردار ادا کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :