تین سالہ بیمارڈار بمقابلہ سٹیفن سیکور

ہفتہ 5 دسمبر 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

پچھلا ہفتہ پاکستان کی سیاست میں کافی دلچسپ اور طنز و مزاح سے بھرپور رہا، پچھلے ہفتے کے شروع میں ہی انگلینڈ کے ایک بڑے نشریاتی ادارے بی بی سی نے پاکستان کے سابق وزیرخزانہ اور دوسرے بہت سے بھگوڑے سیاست دانوں کی طرح کے ایک مفرور سیاست دان اور خودساختہ بیمار شخص اسحاق ڈار کے ساتھ ایک انٹرویو کیا، پاکستان کے اور بہت سار ے سیاست دان اپنی پریس کانفرنس، انٹرویو اور روزمرہ کی بات چیت میں ہی بہت سے ایسے الفاظ بولتے ہیں جیسے ان سے اس کی فرمائش کی جا رہی ہے کہ وہ یہ لفظ بار بار اپنی گفتگو میں شامل رکھیں۔

جیسے رانا ثناء اللہ اپنی ہر بات میں ملب اے ) مطلب اے(اور جو ہے جو ہے کو اس طرح بولتے ہیں، کہ اگر ان پر یہ پابندی لگا دی جائے کہ ان الفاظوں کے بغیر اپنی بات کرنی ہے تو یقین کریں و ہ اپنی بات کبھی پوری ہی نا کر سکیں ، اسی طرح مسلم لیگ ن کے سیالکوٹی لیڈرخواجہ آصف بھی اپنی تقریر و بیان میں ''وہ جو ہے ، وہ جو ہے '' کی گردان کو کثرت سے بولتے نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

اسی طرح بی بی سی کے ہارڈ ٹاک پروگرام میں نشریاتی ادارے کے معروف اینکرسٹیفن سیکورہیں، جو اسی طرح کے بے شمار پروگراموں میں پہلے بھی کئی سیاست دانوں سے سخت سے سخت سوالات کر چکے ہیں، اوراپنے سامنے بیٹھے ہر سیاست دان سے ایسی گفتگو کرنے میں ماہر ہیں کہ دوسری سائیڈ پر بیٹھے انٹرویو دینے والے کے ماتھے پر پسینہ ، گھبراہٹ، ٹانگیں کانپنا اور بے چینی ہر دیکھنے والے کو نمایاں نظر آ جاتی ہے، اور اسحاق ڈار کواپنا گلہ بار بار سوکھنے پر اور اپنے ہونٹوں پر بار بار زبان پھیرتے ہوئے پوری قوم نے دیکھا ، ان ظالموں نے سامنے پڑی میز پر ایک گلاس پانی بھی تو نہیں رکھا ۔


 لاہوریئے اپنے اکڑ مزاج کے طور پر پوری دنیا میں بہت مشہور ہیں، اس شخص کو اگلے کے اوپر چڑھ کر اونچی آواز میں اور سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے جواب دینے میں مشہور ہیں، جس سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی دوسرے علاقے سے تعلق رکھنے والا اس سخت لہجہ کے جواب سے دب سا جاتا ہے اور ڈر کر چپ ہو جاتا ہے ، جسے وہ اپنی چالاکی اور ذہین ہونے کی علامت کے طور پر جان کر فخر محسوس کرتے ہیں، ایک دفعہ ایک چالاک اور خودساختہ ذہین لاہوریا کراچی سے گوجرانوالہ جانے کیلئے سوار ہوا ، اور پوری سیٹ پر چادر تان کر لیٹ گیا، ٹرین چلنی شروع ہوئی تو ایک کراچی کے سادہ سے آدمی نے اس شخص سے درخواست کی کہ جناب پوری سیٹ پر آپ اکیلے ہی لیٹے ہوئے ہیں،'' تھوڑی سی ہمیں بھی جگہ دیدیں تاکہ ہم بھی بیٹھ جائیں''، اس لاہوریئے نے بڑے کرخت لہجے میں اس سے کہا '' تمہیں پتہ ہے ، میں کون ہوں'' ) تینوں پتہ اے میں کون آں( دوسرا شخص گھبرا گیا اور نئی جگہ کی تلاش میں آگے کو نکل گیا، تھوڑی دیر بعد جب ٹرین ملتان پہنچی تو ایک سرائیکی بندہ آ گیا اس نے بھی وہی بات کی کہ '' جناب سائیں میکوں وی تھوڑی جا ڈیوچا''اس کا جواب بھی ویسے اس شخص لاہوریئے نے دیا۔

تو وہ بھی ڈر گیا اور اس سے معذرت کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ اب جب گاڑی لاہور پہنچی تو وہاں سے ایک لاہوریا سوار ہوا اور آتے ہی اس نے اس کی چادر کھینچی اور اسے مخصوص لاہوریئے لہجے میں کہا '' اے کی رنگ بازی اے، تینوں بم وج گیا اے، اٹھ کے بہہ'' اس سوئے ہوئے شخص کو گویا غصہ آ گیا اور اس نے وہی فقرہ دوبارہ دہرایا '' تینوں پتہ اے میں کون آں'' ، تو اس پہلے والے شخص نے گویا اس سے بھی دوگنی اونچی آواز میں اسی سے سوال کر لیا '' توں خود ای دس توں کون ایں، کون ایں توں'' تو وہی شخص فوراً بولا '' میں تے بیمار آں سرکار'' اور اپنی چادر سمیٹ کر باقی سیٹ خالی کر دی۔

اس انٹرویو میں انٹرویو لینے والا انٹرویو دینے والے کے سامنے بیمار سا لگ رہا تھا لیکن اسحاق ڈار ہشاش بشاش تھے۔ اور سٹیفن سکار نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اسحاق ڈار کو کہا کہ آپ دیکھنے میں تو بیمار نہیں لگ رہے، تین سال سے آپ انگلینڈ میں آخر کیا کر رہے ہیں، پاکستان جائیں اور اپنے اوپر لگائے جانے والے بقول آپ کے جھوٹے الزامات کا جواب دیں۔

لیکن آپ جھوٹ پر مبنی بیان بازی کر رہے ہیں اور کرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ پوری دنیا میں میری ایک پراپرٹی لاہور میں ہے۔ جبکہ دبئی اور انگلینڈ میں بھی آپ نے پراپرٹی بنا رکھی ہے۔ جس پر اسحاق ڈار نے اپنی زبان ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے بالکل انکار کر دیا۔ جبکہ اگلے ہی دن پاکستان کے تمام بڑے اخبارات نے اسحاق ڈار کی پراپرٹی کا سارا کچہ چٹھا کھول کر رکھ دیا۔

کیا ان اخبارات کی خبروں کو بی بی سی کے وہ انیکر سٹیفن نہیں پڑھیں گے ؟ پوری دنیا کے سامنے مسلم لیگ ن اور ان کے لیڈروں کے متعلق کیا کیا سوچا اور سمجھا جائیگا۔اسحاق ڈار نے سمجھا کہ پاکستان کے بکے ہوئے اینکروں کی طرح یہ بی بی سی کا اینکر بھی مجھ سے صرف وہی کچھ پوچھے گا جس کا جواب میں دھڑلے سے دیدوں گا یا اس سوال کے جواب کو گول مول کر جاؤں گا۔

لیکن اس بی بی سی کے اینکر نے تو اسحاق ڈار کے ایک ایک جھوٹ کو گردن سے دبوچ کر ایسا لتاڑا کہ اسحاق ڈار کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ پروگرام کے وقت کے جلد از جلد ختم ہونے کا متمنی ہے۔مبینہ طور پر اس ساری صورتحال کے پیچھے کہانی یہ بیان کی جا رہی ہے کہ جب سے مریض اعظم نواز شریف پاکستان سے اپنے پورے خاندان کے ساتھ مفرور ہو کر لندن انگلینڈ میں پناہ گزین ہوئے ہیں اس وقت سے یورپ و امریکہ کے کئی بڑے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز نے کوشش شروع کی کہ نواز شریف یا ان کی پارٹی میں شامل مسلم لیگ ن کے کسی بڑے لیڈر سے انٹرویو کیا جائے، ان کو مسلم لیگ ن کے سرکردہ نمائندوں اور خود نواز شریف کے بیٹوں کی جانب سے یہ بہانہ بنا کر ہمیشہ ٹرخا دیا جاتا تھا کہ وہ بیمار ہیں اور ان کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ انٹرویو دے سکیں۔

لہٰذا وہ بیماری کے باعث اس قابل نہیں کہ اتنی دیر انٹرویو لینے والوں کے سوالوں کے جواب دے سکیں۔ اب پچھلے کچھ عرصہ سے پی ڈی ایم کے پاکستان میں منعقد ہونیوالے جلسوں میں آن لائن گھنٹہ گھنٹہ بھر نواز شریف کا خطاب ان کی صحت اور بیماری کے جھوٹ کو واضح کر رہا تھا، اس کے بعد انہی دوسرے بڑے بڑے نشریاتی اداروں اور اخبارات کی جانب سے مزید دباؤ بڑھایا گیا، اس میں بی بی سی بھی شامل ہے، جو کچھ عرصہ سے مسلم لیگ ن اور خاص طور پر نواز شریف اور اس کے خاندان پر ایک دستاویزی فلم تیار کر رہا ہے جو بہت جلد وہ اپنے ٹی وی پر نشر بھی کر ے گا۔

اسی دستاویزی فلم میں بعض اہم سوالات کو جاننے کیلئے ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے سوالات کے جوابات خود مسلم لیگ ن کے ہیڈ یاکسی اہم عہدیدار سے کر ے جو اس کا جواب دے تاکہ کسی بھی قسم کا ابہام باقی نا رہے ۔ اسی لئے ان کے بار بار اصرار پر جب نواز شریف سے کچھ بن نا پڑا تو انہوں نے ماضی کی طرح بی بی سی کے سامنے غلام اسحاق ڈار کو ایک میمنے کی طرح اس بھوکے بی بی سی کے شیر کے سامنے پھینک دیا تاکہ ان کے سوالات کی بھوک کو ختم کیا جاسکے، لیکن جب ناچاہتے ہوئے اسحاق ڈار''سوال گندم اور جواب چنا''کی مثال پر پورا اترتے ہوئے ہمیشہ کوشش کرتے رہے کہ جواب کا رخ موڑ دیا جائے لیکن انیکرز ان سے زیادہ شاطر نکلا اور ان کو واپس اپنے سوال پر ہی گھیر لاتا۔

بڑی مشکل سے اس پروگرام نے اپنا دورانیہ پورا کیااور اسحاق ڈار کی جان خلاصی ہوئی۔ اب اس جگہ پر مریض اعظم ہوتے تو دنیا ان کو پرچی سرکا ر کے نام سے بھی جانتی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ جب وہ انیکرکے سوالوں کے جوابات نا دے سکتے تو ان کی واقعی طبیعت وہیں خراب ہو جاتی۔ اور اگر وہ پروگرام پورا بھی کر لیتے تو دوسرے بہت سے انٹرنیشنل میڈیا چینلز بھی ان سے انٹرویو دینے پر اصرار کرتے۔

بحرحال پوری دنیا میں مسلم لیگ ن کا اچھا خاصا مذاق بن گیا ہے لیکن بی بی سی اور دوسرے انٹرنیشنل میڈیا و اخبارات کو کیا پتا یہ پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتاکیونکہ یہ سب بے عزتی پروف ہیں۔
 کرونا وائرس کے دوسرے سپل کے خطرناک حد تک بڑھنے اور اس کے نتیجہ میں پچھلے ہفتے ہی حکومت کے بار بار منع کرنے کے بعدبھی پی ڈی ایم کی گیارہ سیاسی اپوزیشن جماعتوں نے ملتان میں احتجاجی جلسہ منعقد کیا، جس کے نتیجے میں آخری رات تک حکومت پنجاب کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے کئی پٹواریوں اور جیالوں کو باز رکھنے کیلئے جیلوں میں بند بھی کیا گیا لیکن اگلے ہی روز ان سیاسی کارکنوں کو رہا بھی کر دیاگیا اور جلسہ کرنے کیلئے کھلی چھٹی دیدی گئی، لیکن مبینہ طور پر اپنے اس جلسہ میں وہ سات ہزاروں نفوس کو اکھٹا کر سکے ۔

جس کے بعد کرونا کے وبائی امراض میں کتنے افراد کا اضافہ دیکھنے میں آئیگا اس کا پتہ 4/5 روز بعد پتہ چلے گا جب یہی متاثرہ افراد اپنے اپنے علاقائی ہسپتالوں میں ادویات و علاج کیلئے جائیں گے۔ ان متاثرہ افراد کی وجہ سے اور کتنے افراد اس بیماری کی پکڑ میں آئیں گے اس کا کوئی حساب نہیں۔ اسی جلسوں اور بے ہنگم تقریروں کے نتیجے میں بلاول زرداری بھی اسی وبائی مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے ہی بلاول ہاؤس میں کرونا کا پندرہ روز ہ علاج کروا رہے ہیں۔

ملتان جلسہ میں مورثی سیاست کا تازہ ترین کیس آصفہ زرداری کی صورت میں سامنے آیا، اوراسے ہمارے بہت سے ٹی وی اینکرز اور صحافی حضرات نے یہ کہہ کر مورثی سیاست کو جلا بخشی کہ آصفہ کی صورت میں بے نظیر بھٹو کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ حالانکہ انہیں اس پہلے دن کی سیاسی انٹری پر مورثی سیاست کی مذمت کرنی چاہئے تھی جس کے تحت سٹیج پر کئی پرانے اور قدآور سیاست دان آصفہ کے پیچھے ہاتھ باندھے ایسے کھڑے تھے جیسے ان کا بھی سیاسی سفر آج ہی شروع ہونے جا رہا ہے،اللہ کی شان ہے۔

پی ڈی ایم اب اپنا اگلا پڑاؤ لاہور میں 13 دسمبر کو کرنے جا رہی ہے، معروف صحافیوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بات تو طے ہے کہ ان جلسوں جلوسوں سے عمران خان کی حکومت کا بال بھی بانکا نہیں ہو گا۔ یہ ڈرامہ صرف اور صرف اپنی کرپشن کو بچانے اور لوٹا ہوا پیسہ بچانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم اور اس میں شامل تمام اپوزیشن جماعتوں کی نظراگلے سال مارچ میں ہونیوالے سینٹ کے الیکشن پر ہے، اب مارچ میں اگر سینٹ کے الیکشن ہو گئے اور ان الیکشن کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کی جماعت سینٹ میں اکثریت حاصل کر گئی اور اپنا نمائندہ چیئرمین سینٹ بنانے میں کامیاب ہو گئی تو آئندہ نیب کی 150 عدالتیں بننے جا رہی ہیں، اس کا حکم سپریم کورٹ آف پاکستان کافی عرصہ پہلے ہی دے چکی ہے، جس پر وزارت قانون نے اپنا تمام ہوم ورک مکمل کر لیا ہے۔

اس سلسلے میں نئے پراسیکیوٹر بھی بڑھیں گے، اس پر اٹھنے والے فنڈاور اخراجات بھی حکومت نے نیب کو ادا کر دیئے گئے ہیں، جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ تازہ کوالیفائی پراسیکیوٹر اپنے اپنے کیس لڑ کر کرپٹ سیاست دانوں، صنعت کاروں، اور قبضہ مافیا سے جلد سے جلد لوٹی ہوئی رقم ریکور کرا سکیں گے اور انہیں سزائیں بھی دلوائی جا سکیں گی۔اس سے پہلے بھرتی شدہ پراسیکیوٹر وہ ہیں جو نواز شریف اور پیپلزپارٹی دور میں بھرتی کئے گئے۔

ایک ایک پراسیکیوٹر کے پاس سینکڑوں مقدمات ہیں اور پراسیکیوٹر اپنے ہر کیس پر مکمل توجہ سے کام کرنے سے قاصر ہیں۔ اب جب پراسیکیوٹرز کے پاس کیس کم ہونگے تو وہ زیادہ سے زیادہ کیسز پر فوکس کر سکیں گے اور کم کیسز پر وہ اپنی توجہ زیادہ اچھی تیاری، متعلقہ کیسوں کے اچھے ثبوتوں کے ساتھ کیس لڑیں گے جس پر کم وقت میں زیادہ مقدمات کا فیصلہ ہو سکے گا۔

مبینہ طور پر اس سارے عمل کو تین ماہ درکار ہیں، اور چھ ماہ بعد اس پر عملدرآمد ہر طرف دیکھا جا سکے گا، انشااللہ۔اب اس عمل کو قانونی شکل دینے کیلئے سینٹ سے پاس کرانا اتنا ہی ضروری ہے ، یہ سارا قانون جب ہی سینٹ میں پاس ہو سکے گا جب حکومت وقت کو سینٹ میں دوتہائی اکثریت ہو گی، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ڈی ایم کی ساری کوشش یہی ہے کہ حکومت کو سینٹ الیکشن سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے، جو دیوانے کا خواب تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، حکومت کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ سینٹ کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد ایسے تمام قوانین کو سینٹ میں پیش کرے جو آسانی سے پاس ہو سکیں، کیونکہ موجودہ حالات میں حکومت کو سینٹ میں اکثریت حاصل نہیں۔

اور اگر پی ٹی آئی مارچ میں سینٹ الیکشن میں اکثریت حاصل کر گئی تو پی ڈی ایم میں موجود گیارہ جماعتوں اور دوسرے تمام کرپٹ سیاست دانوں کیلئے ایک بہت ہی خوفناک شکنجہ تیار ہو جائیگا جس میں پھنس کر انہیں عبرت ناک سزاؤں کا سامنا کرنا پڑیگا۔اب حکومتی بینچوں میں موجود سیاست دانوں کی یہی کوشش ہے کہ سینٹ الیکشن میں کامیابی حاصل کی جائے اور اپوزیشن کرپٹ سیاست دان پی ڈی ایم کی صورت میں ملک میں انارکی کی صورت کو بڑھانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں تاکہ مارچ میں سینٹ کے الیکشن سے پہلے ہی حکومت کو گرا دیا جائے جس سے نا صرف نئے الیکشن کا انعقاد کیا جا سکے بلکہ وہ بھی اپنی کرپشن کو بچانے کی اس عملی جہدوجہد میں کامیاب ہو جائیں۔

اب جیسے ہی سینٹ میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی صورت میں یہ عدالتیں قائم ہو نگی تو نیب میں موجود لاتعداد کرپشن کے کیسز روزانہ کی بنیاد پر سنے اور نبٹائے جائیں گے۔ جس سے اپوزیشن اور پی ڈی ایم میں شامل تمام کرپٹ سیاست دانوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات کی شنوائی شروع ہوتے ہی کئی کئی سال سے لٹکے کیسز کا فیصلہ دنوں میں ہو گا اور وہ سب کرپٹ سیاست دان اپنے انجام کو پہنچیں گے جو مدتوں سے ملک کے پیسے پر عیاشی اور ابھی تک لوٹ مارکا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :