کیا اب سینٹ بھی بغیر ڈیزل کے چلے گی؟

پیر 15 مارچ 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

سینٹ کے ہنگامہ خیز انتخابات کے بعد ایک بار پھر صادق سنجرانی نے بطور چیئرمین سینٹ منتخب ہونے کے بعد اپنی ہیٹرک مکمل کر لی ہے۔2018 ء میں سنجرانی صاحب کم حمایت کے باوجود چیئرمین سینٹ منتخب ہوئے تھے، اس پر سب حیران و پریشان دکھائی دیتے تھے۔ 2019ء میں چیئرمین سینٹ کی سیٹ پر عدم اعتماد پیش کی گئی اس وقت بھی ان کی اکثریت کم تھی لیکن اپنی بھرپور محنت اور الیکشن پر مکمل توجہ کے بعد ان پر عدم اعتماد کی تحریک خارج ہوئی اور وہ دوسری بار اپنی سیٹ پر برقرار رہے، اور اب دو روز قبل ایک بار پھر بہت کانٹے دار مقابلے کے بعد دوبارہ سینٹ کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔

پہلے کی طرح اس الیکشن میں بھی اپوزیشن اور مخالف جماعتوں نے بیلٹ روم میں نا نظر آنے والے کیمروں کے الزامات لگائے گئے، بیلٹ پیپر پر غلط مہر لگانے ، اور ووٹ ضائع ہونے کے الزامات پر بہت شورو غوغا مچایا ، سیاست شرمسار ہوئی ، لیکن پھر بھی سنجرانی کامیاب ہوئے ، سنجرانی کم اکثریت ہونے کے باوجود جیت گئے اور چیئرمین سینٹ کے الیکشن کے فوراً بعد ڈپٹی چیئرمین سینٹ کیلئے بھی ووٹنگ ہوئی ، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا، اور مرزا محمد آفریدی اپنے جماعتی ووٹوں سے بھی زیادہ 54 ووٹ لیکر الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ پر کامیاب ٹھہرائے گئے۔

(جاری ہے)

ان کے مقابلہ پی ڈی ایم کے عبدالغفور حیدری کو 44 ووٹ ملے اور کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس پر کسی نے کیا خوب فقرہ کہہ چھوڑا ہے کہ '' قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ آج سینٹ بھی بغیر ڈیزل کے چلے گی '' ۔دوکی پے دوکی ہو یا چھکے پے چھکا، لیکن ان سینٹ الیکشنز میں تو ستے پہ ستے کی آوازیں کافی گونجتی رہیں۔ حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کی سیٹ پر الیکشن ہونے اور اس سے قبل جس طرح نوٹوں اور سازش کی سیاست چلی اس سے تو اب پوری قوم واقف ہو چکی ہے، اسلام آباد کی سیٹ پر سات ووٹوں کے ضائع ہونے کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی کامیاب ٹھہرے اوراور آج بھی پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اپنے سات ووٹ ہی ضائع ہونے کے باعث شکست کا سامنا کر نا پڑا ہے۔

ابھی پچھلے ہی ہفتے ون ٹو ون حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی سیٹ پر آمنے سامنے تھے، اس سے قبل پوری قوم نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں کھلے عام بڑی بڑی رقموں کی آفرز ہو رہی تھیں، اب کیونکہ ان الیکشنز میں گیلانی کامیاب ہوئے تو پوری پی ڈی ایم اس کو ایک شفاف اور احسن طریقے کا الیکشن قرار دیتے ہوئے میٹھا سمجھ کر ہپ ہپ کر رہی تھی، اور جب دو روز قبل چیئرمین سینٹ کا الیکشن ہوا تو اس میں گیلانی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو پوری پی ڈی ایم نے نتائج کو نا مانتے ہوئے کڑوا سمجھ کر تھو تھو کرنا شروع کر دیا کیونکہ ان کے امیدوار ہار گئے ہیں، لیکن نا بھولئے کہ یوسف رضا گیلانی پر اب بھی نااہلی کی تلوار الیکشن کمیشن کے اندر سے لٹک رہی ہے جس کی سماعت 22 مارچ سے شروع ہونیوالی ہے اور اس میں اسلام آباد کی سیٹ پر ہونیوالے الیکشن کے قبل وائرل ہونے والی ویڈیو پر بحث ہو گی، اور اگر الیکشن کمیشن اس بات کو سمجھ پایا کہ یہ سب کچھ ایک دھاندلی، بے ایمانی اور ہارس ٹریڈنک کے زمرے میں آتا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ اسلام آباد کی سیٹ پر ہونیوالے الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ الیکشن کروانے کم حکم سنایا جا سکتا ہے اور گیلانی کو ایک مرتبہ پھر نااہل قرار دے کر گھر بھیجا جا سکتا ہے۔


اب دو روز قبل ہونے والے الیکشن کے سات ووٹوں کے ضائع ہونے پر ملک بھر کے تمام ٹی وی چینلز پر ایک اور بحث چل پڑی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو ہرانے کیلئے یہ بھی مسلم لیگ ن کی ایک چال ہو سکتی ہے، کیونکہ گزشتہ ہفتے ہونیوالے الیکشن میں مسلم لیگ ن کو ایک بھی سیٹ نہیں مل سکی، اور اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمان بھی اسی چکر میں پیپلز پارٹی کا بھلا کرتے رہ گئے۔

ڈپٹی چیئرمین شپ کی سیٹ پر اپنا امید وار تو عبدالغفور حیدری کے روپ میں کھڑا کر دیا لیکن اس بات کا علم مسلم لیگ ن کو بھی بخوبی تھا کہ وہ اس سیٹ پر جیت نہیں سکیں گے۔ اور اگر گیلانی جیت جاتا تو پھر پیپلز پارٹی کا ہی فائدہ تھا، مسلم لیگ ن تو جیسے پہلے روز تھی آج بھی اسی موڑ پر تنہا کھڑی رہ جاتی۔ لیکن پیپلز پارٹی موجودہ سسٹم میں مکمل طور پر آگے بڑھتے ہوئے ضرور اپنا کچھ نا کچھ مقام بنا لیتی۔

اس لئے مسلم لیگ ن نے کمال چال چلتے ہوئے ''نا کھیلیں گے، اور نا کھیلنے دیں گے'' کی مثال پر بخوبی عمل کرتے ہوئے اپنے ووٹوں کو ضائع ہی کروا دیا۔اس کی تحقیقات خود پیپلز پارٹی اپنے طور پر بھی کرے گی، اور مسلم لیگ ن نے بھی اس بات کو اہمیت دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ہم بھی اپنی پارٹی کے سینیٹرز حضرات سے ضرور پوچھ گچھ کریں گے۔ محب وطن باشعور قوم کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ سارے سینیٹرز حضرات اتنے تجربہ کار اور ماہر سمجھے جانے والے قابل سیاست دان ہیں لیکن ووٹ کیسے ڈالنا ہے، کئی کئی بار ان کو سمجھانے کے باوجود ان کو سمجھ نہیں آتی اور اور چیئرمین شپ کے الیکشن کے فوراً بعد ڈپٹی چیئرمین شپ اور خواتین کی سیٹ کے الیکشن میں تو بالکل ٹھیک ووٹ ڈالتے ہیں اور اس سے قبل سات ووٹوں کو ضائع کر دیا جاتا ہے، اور اگر گیلانی کے ولی عہد علی حیدر گیلانی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہونیوالے الیکشن میں اگر یہی ووٹ صحیح ڈالے ہوتے تو آج چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی ہی ہوتے۔

یاد رہے کچھ دنوں قبل مسلم لیگ ن کے چار سنیٹرز کے بارے میں خبر آئی تھی کہ یہ چار سنیٹرز سنجرانی سے پہلے ہی وعدہ کر چکے تھے ہم آپ کو ووٹ دینے کا پکا وعدہ تو نہیں کرتے لیکن یہ بھی نہیں چاہتے کہ پیپلز پارٹی کا سنیٹر چیئرمین بن جائے۔ کیونکہ چیئرمین شپ کا ووٹ ہم گیلانی کو ڈالنے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ تو انہوں نے حلف کا وعدہ تو پورا کیا اور گیلانی کے خانے میں ہی مہر لگائی لیکن مہر ایسے طریقے سے لگائی کہ ووٹ ضائع ہو جائے، لگتا ہے انہوں نے اپنا وعدہ ایفا بھی کیا اور اپنی خواہش کے مطابق گیلانی کو چیئرمین شپ کی دوڑ سے باہر کر دیا۔

اس الیکشن کے بعد مسلم لیگ کے طلال چودھری نے بلاول زرداری کو ازرہ مزاق یا طنزکرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ''آپ نیوٹرل رہنے کا کہتے رہے ہیں، ٹیوٹرل کا '' مزا'' آیا؟'' تو اس پر بلاول زرداری نے اس کا بڑا خوبصورت طلال چودھری کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ '' یہ سینٹ الیکشن ہیں، کوئی تنظیم سازی نہیں، یہ جمہوری جدوجہد ہے طلال صاحب۔۔! '' ۔۔ مبینہ طور پر اس الیکشن کے بعد لندن کے مہنگے ترین ایون فیلڈ فلیٹوں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا ہے۔

کیونکہ یہ سارا پلان وہیں ترتیب دیا گیا تھا، نواز شریف کی خواہش تھی کہ جلد سے جلد لانگ مارچ کی سیاست کا آغاز کیا جائے، گھیراؤ جلاؤ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پورے ملک میں افراتفری پیدا کی جائے، اور لانگ مارچ اسلام آباد نہیں بلکہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے سامنے کیاجائے، اب پی ڈی ایم کی طرف سے دی جانیوالی تاریخ 26 مارچ بھی آنے کو ہے، اب دیکھتے ہیں کہ 26 مارچ سے پہلے پی ڈی ایم کا کیا حال دیکھنے میں آتا ہے، اور 26 مارچ کا لانگ مارچ ہو گا بھی یا پی ڈی ایم کا کیوک مارچ ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :