ہا ہا ہا پی ڈی ایم میں لڑائی ہو گئی ؟

منگل 30 مارچ 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

پچھلا ہفتہ پی ڈی ایم کیلئے سخت اور کڑا امتحان ثابت ہوا۔پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلٰی آصف علی زرداری نے ایک پکے سیاست دان کا ثبوت دیتے ہوئے بڑے واضح انداز میں پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ ن کے سرپرست اعلٰی نواز شریف اور پی ڈی ایم میں شامل دوسری تمام سیاسی جماعتوں کو باور کرایا کہ پی ڈی ایم کی موجودہ سیاسی جدوجہد کی سمت بالکل بھی ٹھیک نہیں۔

اس لئے پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے اس اقدام میں ان کا حصہ نہیں بنے گی جس میں پی ڈی ایم نے تمام ارکان اسمبلی کے استعفوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے نواز شریف کو لندن کے آسمان سے نیچے اترنے کا مشورہ دیا اور اپنے ساتھ اسحاق ڈار کو بھی سرزمین وطن پر اترنے کا مطالبہ کیا کہ وہاں سات سمندر پار بیٹھ کر آپ جو سیاست کر رہے ہیں اس کا فائدہ کسی کو نہیں، انقلاب ایسے نہیں آتے، انہوں نے مریض اعظم نوازشریف کو مشوہ دیا کہ آپ اپنے ساتھ اسحاق ڈار کو لیکر پاکستان آئیں اور عدالت میں ان پر قائم مقدمات کا سامنا کریں اس کیلئے اگر آپ کا ٹھکانہ جیل بھی ہو تو کوئی بات نہیں لیڈر وہی ہوتا ہے جو جمہوریت اور اپنے ووٹروں کی خاطر ایسی صوبتیں برداشت کرے، ظاہر ہے اس کیلئے ہمیں اور ہماری پارٹی کے بہت سارے کئی لیڈران کو بھی قید و بند کی صوبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ہم اور آپ کو اگر جیل بھی جانا پڑا تو جائیں گے، اس کے بعد ہماری پارٹی اس بات پر غور کرے گی کہ ہمارے ایم پی اے اور ایم این ایز اسمبلیوں سے استعفے دیں یاجمہوریت کیلئے جو بھی جدوجہد کرنی پڑے ، وہ کریں گے۔

(جاری ہے)

لیکن ایسے نہیں ہو گا کہ آپ لندن میں بیٹھ کر اپنی خواہش کے مطابق پی ڈی ایم کو ہلہ شیری اور غلط مشورے دیتے ہوئے ایسی راہ پر گامزن کر دیں جس کی کوئی منزل نہیں۔آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی اس کھلی مخالفت پر مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم میں شامل دوسری جماعتوں کے لیڈران سخت مایوس ہوئے اور اسی مایوسی میں پی ڈی ایم کے صدر فضل الرحمن نے 26 مارچ کا لانگ مارچ کا پروگرام ملتوی کر دیا، اور پاکستان میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے دوبارہ سے اپنی '' چولیں'' مارنے کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع کر دیا، انہوں نے بھی پیپلزپارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے خلاف کھلے لفظوں میں تو نہیں، بلکہ ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان بازی شروع کر دی۔

سوشل میڈیا پر ان کی تقریر کا ایک کلپ بار بار چلایا جا رہا ہے کہ ''ہا ہا ہا ہا پی ڈی ایم میں لڑائی ہو گئی '' ۔ ایک پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے بھی مریم نوازکے ایک بیان پر ان کو '' ترکی بہ ترکی '' جواب دیتے ہوئے مریم نواز کو ان کی حیثیت یاد کرا دی کہ میں پارٹی چیئرمین ہوں اور بحیثیت چیئرمین میں وائس چیئرمین کے کسی مخالف بیان کا جوابدہ نہیں ہوں۔

مریم نواز اس سے قبل 8اگست 2019 کو گرفتار ہوئیں اور انہیں 25 ستمبر 2019 کو تفتیش کے بعد جیل منتقل کر دیا گیا۔ 48 روز جیل میں گزارنے کے بعد نومبر2019 نواز شریف کی صحت کی خرابی کے بہانے کو مدنظر رکھتے ہوئے عدلیہ نے انہیں رہا کرنے کے بعد مریم نواز کی جانب سے یہ عذر پیش کیا گیاکہ مجھے اپنے والد کی تیماری داری کرنا اور ان کا خیال رکھنا ہے، اس بنا پر انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا۔

مریض اعظم تو کچھ ہی عرصہ بعد ملک سے بغرض علاج لندن جا بیٹھے لیکن مریم نواز پی ڈی ایم کے ساتھ ملک بھر میں طوفانی سیاست کرنے میں مصروف ہوئیں۔اسی بنا پر ابھی چند ہفتے قبل نیب نے عدلیہ سے رجوع کیا کہ جناب والا یہ تو اپنے والد کا خیال رکھنے کیلئے ضمانت پر رہا ہوئیں تھیں، جب مریض ہی لندن چلا گیا ہے تو اب وہ کس کی تیمارداری کر رہی ہیں؟ لہٰذا ان کی ضمانت کو منسوخ کیا جائے اور انہیں دوبارہ گرفتار کر کے جیل بھیجا جائے تاکہ ان پر قائم مقدمات کی تفتیش میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔

اس کیلئے عدالت نے انہیں 26 مارچ 2021ء میں طلب کر رکھا تھا، لیکن مریم نواز نے اس سے قبل ہی 12اپریل 2021 تک ضمانت کروا لی، جس کے جواب میں مریم نواز نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل کر دوبارہ ایک سازش تیار کی کہ جس روز انہیں نیب کے سامنے پیش کیا جائے، اس روز مسلم لیگ ن اور فضل الرحمان کے کارکن بڑی تعداد میں اکٹھا ہو کر نیب آفس پر پہلے کی طرح حملہ آور ہوں، اور اس مرتبہ حملہ اتنا شدید ہو کہ کارکن نیب آفس میں گھس کر وہاں موجود سارا کاغذی ریکارڈ نذر آتش کر دیں، جس سے احتمال یہی تھا کہ اس ہنگامہ آرائی کے نتیجہ میں چند بے گناہ انسانی جانیں بھی جائیں گی، اس ہنگامہ آرائی کے خدشہ کو سامنے رکھتے ہوئے نیب نے مریم نواز کی 26مارچ کی پیشی کو روک دیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اس بارے میں ایک نئی تاریخ کا اعلان کریں گے، جب مریم نواز سے پوچھ گچھ ہو گی۔


مبینہ طور پر یہ بھی کہا جا رہا کہ 12اپریل تک تو ویسے ہی مریم نواز ضمانت پر ہیں، اب زرا ضمانت ختم ہو جائے تاکہ انہیں پیشی کے موقع پر ہی گرفتار کیا جا سکے۔گزشتہ جمعہ کے روز جاتی عمرہ میں پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو مریم نواز نے ناشتہ پر اکھٹا کیا، اور اس موقع پر اپنے آئندہ لائحہ عمل کا پروگرام بھی ترتیب دیا۔ لیکن اس موقع پر آصف زرداری نے تمام پی ڈی ایم کی پارٹیوں پر بھاری ہوتے ہوئے سنیٹر یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن بنوا لیا، اب اس کے بعد مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کی حالت وہی ہوئی، کہ سانپ تو اپنا کام کر کے چلا گیا لیکن پی ڈی ایم اب اس کے نشان کو پیٹنے پر لگی ہوا ہے۔

اس موقع پر احسن اقبال نے انہیں سرکاری اپوزیشن کا لیڈر قرار دیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر سے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن منتخب ہونا بھی پی ڈی ایم کے ایجنڈا میں شامل نہیں تھا کہ کیونکہ مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں میں یہ طے پا گیا تھا کہ چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی کا ہو گا تو سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن مسلم لیگ ن کے اعظم نذیر تارڑ ہونگے، اس سیٹ پر مسلم لیگ ن کا حق ہے۔

اب گیلانی صاحب تو چیئرمین نہ بن سکے تو اعظم تارڑ کو لازمی لیڈر آف اپوزیشن کی سیٹ مل جائیگی ۔اس سارے حالات میں مولانا فضل الرحمان ''ریلو کٹے'' کا کردار ادا کر رہے ہیں، مریم نواز ان کو پیپلزپارٹی کیلئے پیغام دیکر زرداری کی طرف بھیج دیتی ہیں تو دوسری جانب زرداری نواز شریف اور مریم نواز کے نام کا پیغام ان کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں لیکن زرداری نے ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کو اس دوڑ سے بھی باہر کر دیا۔

جس کا ردعمل آنے والے دنوں میں پورا پاکستان دیکھے گا۔ شنید ہے کہ کچھ دنوں میں حمزہ شہباز کی طرح شہباز شریف کی بھی ضمانت ہونے والی ہے اور 12اپریل کے بعد کیونکہ مریم نواز کی گرفتاری کی باری آنے والی ہے، تو اس کے بعد مسلم لیگ ن کی باگ دوڑ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ہاتھوں میں آ جائیگی اور مریم نواز ایک مرتبہ پھر جیل کی تنہائی کے اندھیروں میں گم ہو جائیں گی۔


وزیراعظم عمران خان نے ایک اور اپنی کابینہ میں چھپی ایک اورکالی بھیڑ کو نکال باہر کیا۔ گزشتہ سال کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی ملک بھر میں پٹرولیم بحران کے بارے میں تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ آنے پر، اوراس میں اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہونے پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور سیکرٹری پٹرولیم اسد کو ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا ہے، تاکہ ان سے تحقیقات کے نتیجے میں وہ اپنے عہدوں کا اثرورسوخ استعمال نہ کر سکیں، لہذا انہیں اپنے عہدوں کو چھوڑنا ہو گا۔

مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں بااثر شخصیات کے پیچھے ملک بھر کی طاقت ور ترین شخصیات نے وزیراعظم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کے ناموں کو ای سی ایل میں شامل نہ کریں تاکہ یہ بھی ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ ان کی کرپشن سے ملک کو جتنا بھی نقصان ہوا اس کی ریکوری کیلئے ان کے ناموں کو ای سی ایل میں شامل کیا جائے تاکہ وہ ملک سے فرار نہ ہو سکیں اور ان سے لوٹ مار کا سارا پیسہ وصول کر کے ملکی ترقی کے دائرہ میں شامل کیا جائے۔

مبینہ طور پر کہا یہ جا رہا ہے کہ آنے والے وقت میں عمران خان نے سخت اقدامات اٹھانے اور قومی دولت کو لوٹنے والے جتنے بھی سیاست دان ، بیورو کریٹس، مافیازاور قبضہ گروپوں کو نتھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے جنہوں نے پاکستان کے عوام کی دولت کو لوٹا اور ابھی تک لوٹ رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :