Live Updates

Gبلوچستان اسمبلی کا اجلاس ،متاثرین سیلاب کی معاونت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کرنے اور اغبرگ کو تحصیل کا درجہ دینے سے متعلق دو قراردادیں متفقہ طور پر منظور

جمعہ 12 ستمبر 2025 23:25

]کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 ستمبر2025ء)بلوچستان اسمبلی نے متاثرین سیلاب کی معاونت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کرنے اور اغبرگ کو تحصیل کا درجہ دینے سے متعلق دو قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں۔ جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ این ایف سی ہو یا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ اتفاق رائے قائم کریں گے،اپوزیشن لیڈر اور دیگر نمائندے مقرر کرکے آکر بیٹھ جائیں۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو نصف گھنٹہ کی توخیر سے اسپیکر کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی کی صدرات میں شروع ہوا۔ اجلاس میں نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی رحمت صالح بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈڑ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تین چار روز سے میرے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے جس کی تردید کرتا ہوں، میرے حلقے کے حوالے سے خبر چل رہی ہے کہ ایک ارب 32 کروڑ روپے کی کرپشن ہوئی، حلقہ میں ایک روپے کی بھی کرپشن نہیں ہوئی، سی ایم ائی ٹی میرے حلقے میں جاکر تحقیقات کرے۔

(جاری ہے)

نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اسپیکر سے استدعا کی کہ اس پر کارروائی کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں قبائل کی اراضی کو محکمہ جنگلات کو الاٹ کیا جارہا ہے، چاغی واشک اور نوشکی میں لوگوں کی ملکیتی زمینوں کو جہاں پانی نہیں وہاں بھی زمینوں کو جنگلات کے نام الاٹ کیا گیا ہے، یہ قبائل کی ملکیت ہیں، وزیراعلیٰ اس مسئلے کو دیکھیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ سوشل میڈیا بے قابو ہوتا جارہا ہے جس کا جہاں دل کرے کسی کی پگڑی اچھال دے، ایسے سوشل میڈیا چینلز جو پارلیمان اور پارلیمانی نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اس کی یہ ایوان کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پارلیمنٹریز کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے ہروقت اس طرح کے پلیٹ فارمز کو استعمال کیا جائے گا تو اس پارلیمنٹ کی ساکھ متاثر ہوگی اور اس کی وجہ ہم خود ہیں، آئیں ہم اکھٹے ہوکر فیصلہ کریں کہ جو کسی بھی بے بنیاد الزام لگاتا ہے تو وہ اس کو ثابت کرے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی کی پگڑی اچھالیں اور اس کو ثابت نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون ساز اسمبلی ہے اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں کہ مل بیٹھ کر اس حوالہ سے کمیٹی بنائیں، یہاں مذاق بنایا گیا ہے چھوٹے چھوٹے گروپس بناکر سیاست دانوں اور بیوروکریسی کو بلیک میل کرتے ہیں، بدقسمتی سے ہم میں سے بہت سارے لوگ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، یہاں بلوچ، پشتون روایات کو ماپال کیا جارہا ہے جس کا دل کرے کسی کی پگڑی اچھال دے اگر کسی کے خلاف کوئی ثبوت ہے یہاں متعلقہ ادارئے موجود ہیں ان سے رجوع کرکے تحقیقات کرائی جائیں، جب پیکا ایکٹ کی بات ہوتی ہے تو ہمارے دوست اس کی مخالفت کرتے ہیں کوئی ایکٹ یا قانون لائیں کوئی بھی شخص کسی پارلیمنٹرین، یا معزز شخص پر بغیر کسی الزام اور ثبوت کے الزام لگاتا ہے اس کی کوئی سزا ہونی چائیے۔

ہمیں اس کا تدار ک کرنا چائیے، اپوزیشن لیڈر یونس زہری اور سینئر سیاست دان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ یہاں بیٹھے ہیں کسی نہ کسی کو تو ایکشن لینا پڑئے گا جس کا جو جی چاہے ایک چھوٹا سا مائیک اٹھاکر بغیر کسی ثبوت اور بات کے پگڑیاں اچھالے ایسی ایسی چیزیں ہم سے منسوب کی جاتی ہیں جن کا ہمارے فرشتوں تک کو علم نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ میرا بڑا بیٹا ایک دن میرے پاس آیا کہ بابا آپ کے حوالے سے یہ کیا لکھا ہے جس کا مجھے علم بھی نہیں تھا، میری گزارش ہے ایوان سے کہ آئیں اس پر قانون سازی کریں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے زمینوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے جو نشاندہی کی ہے حکومت کی اس پر نظر ہے حکومت نے اس حوالہ سے متعدد اجلاس بھی کئے ہیں، نواب ایاز جوگیزئی کی قیادت میں ایک پشتون جرگہ بھی میرے پاس آیا تھا اس میں بھی یہ معاملہ سامنے آیا، برٹش دور پر کچھ زمینیں اس وقت محکمہ جنگلات کو الاٹ کی گئیں تھیں جیسا کہ جنگل پیرعلی زئی ہے اس وقت شاہد یہ جنگل ہوگا لیکن آج وہاں پر جنگل نہیں اور جنگلات کی جو زمین ہے جب ہم نے قلعہ عبداللہ کا ہیڈکوارٹر بنایا، سوچھے سمجھے بغیراس کو ہم نے جنگلات کی زمین پر بنادیا تھا واپس ہم کو جنگلات کو اس کے بدلے میں زمین دینی پڑی، یہ مسلہ حکومت کے نوٹس میں ہے ہم اس پر اپوزیشن کو آن بورڈ رکھیں گے اور کسی بھی صورت میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے اس مسئلہ کو مناسب انداز میں حل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کے حوالے سے معاملہ عدالت میں چل رہا ہے گزشتہ اجلاس میں بھی میں نے کہا تھا کہ اپوزیشن لیڈر جتنا جلد ہوسکے اس پر کمیٹی بنائیں تاکہ کمیٹی حکومت کے ساتھ بیٹھیں، قانون بنانا اسمبلی کا کام ہے انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں جیسا ہم نے این ایف سی میں مشاورت کیلئے تمام جماعتوں کو لکھا ہے ہم چاہتے ہیں کہ این ایف سی کے حوالے سے جو ڈائیلاگ ہو اس میں بھی تمام جماعتوں کی رائے ہمارے سامنے آئے تاکہ ہم اپنا کیس لڑسکیں، میں نے نہ صرف پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے سربراہاں کو بلکہ جو پارلیمنٹ میں موجود نہیں ان کو بھی خط لکھے ہیں، دانشوروں، بار کونسلز، اکیڈمیوں، قبائلی سربراہاں کو خط لکھے ہیں محفوظ علی خان کا اس سلسلہ میں بڑا تجربہ ہے انہوں نے گزشتہ این ایف سی میں بھی کام کیا ہے ان کے ساتھ بیٹھ کر ہم ان معاملات جو بلوچستان کے بڑے ایشوز ہیں ان پر فوری بات کریں گے، انہوں نے کہا کہ چاہے جنگلات کی زمینوں کا مسئلہ ہو این ایف سی ہو یا مائنز اینڈ منرلز کا مسلہ ہو ان سب پر ہمیں اتفاق رائے قائم کرنا ہے جیسے پہلے بھی ہم نے اتفاق رائے سے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو اسمبلی سے پاس کیا تھا، ہماری کوشش ہے کہ اتفاق رائے قائم کی جائے ہم بیٹھے کیلئے تیار ہیں اپوزیشن لیڈر اور دیگر نمائندے مقرر کرکے آکر بیٹھ جائیں ہم اپنی پوری ٹیم کو بٹھائیں گے تاکہ جتنی جلدی ہوسکے اس مسئلہ کو حل کیا جائے ہم آپ کو قائل کریں گے آپ ہم کو قائل کریں، جتنی جلد ہوسکے اس پر کمیٹی قائم کی جائے اس پر آئندہ ہفتے بیٹھ جائیں۔

اپوزیشن لیڈر میر یونس زہری نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پر حکومت سے بات چیت کے لئے ان کی اپوزیشن کی جماعتوں سے رابطے اور مشاورت ہوئی ہے اپوزیشن اس ایکٹ پر جلد حکومت کے ساتھ بیٹھے گی۔ اجلاس میں اسپیکر نے وقفہ سوالات میں محکمہ آبپاشی سے متعلق سوالات اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد اور محکمہ مواصلات و تعمیرات سے متعلق سوالات نمٹانے کی رولنگ دی،اجلاس میں صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ نے تحریک پیش کی کہ بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف نیفرو یورولوجی کا (ترمیمی) مسودہ قانون مصدرہ 2025 مسودہ قانون نمبر 26 مصدرہ 2025 کو مجلس کی سفارشات کے بموجب منظور کیا جائے، جسے ایوان نے منظور کرلیا۔

اجلاس میں قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے قاعدہ 233 کے تحت قواعد انضباط کار بلوچستان صوبائی اسمبلی مجریہ 1974 میں مجوزہ ترمیم پیش کی جسے اسپیکر نے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ مجوزہ ترمیم کے لئے کمیٹی کے اجلاس میں میں شرکت کیلئے تمام اراکین اسمبلی کو مدعو کیا جائے گا۔ اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مطالبہ پر موسمیاتی تبدیلی اور زراعت کے شعبے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ متاثرین سیلاب کی معاونت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کی جائے اور یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وفاقی حکومت اقوام متحدہ کے ذریعے فوری بین الاقوامی امداد کی اپیل کو یقینی بنائے، مزید براں بلوچستان کے عوام پنجاب، خیبر پختوانخوا اور گلگت بلتستان کے سیلاب سے متاثر عوام کے دکھ میں برابر شریک ہیں۔

قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان میں مون سون بارشوں سے زراعت اور گلہ بانی زیادہ متاثر ہوتی ہے، ملک کے 45 فیصد رقبہ پر محیط صوبے میں زراعت کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنا تنہاء صوبائی حکومت کیلئے ممکن نہیں ، خدشہ ہے کہ حالیہ سیلابی ریلہ سے بلوچستان بھی متاثر ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ اس قرارداد پر عملدرآمد اور فارن ایڈ کے ذریعے ملنے والی امداد بلوچستان کو فراہم کرنے کی بابت حکومت ایک کمیٹی تشکیل دے جو وفاق میں جاکر اس پر عملدآمد کو یقینی بنائے۔

صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات میر ظہور بلیدی نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان شدید متاثر ہوا ہے، دشمن ملک نے واٹر بمب کا استعمال کرکے راوی اور چناب میں پانی چھوڑا جس سے پنجاب میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سندھ اور پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے حکومت کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں سیلاب کے اثرات خوراک کی کمی کی صورت میں نمودار ہوں گے جبکہ لوگ خط غربت کی لکیر سے مزید نیچے چلیں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت متاثرین کی امداد کرکے انہیں ریلیف فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ حب ڈیم میں پانی کی سطح بلند ہوئی ہے تاہم بلوچستان میں سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں، وفاقی حکومت سیلاب متاثرہ علاقوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرے، بلوچستان اسمبلی، حکومت اور صوبے کے لوگ سیلاب متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بعد ازاں ایوان نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ اجلاس میں جماعت اسلامی کے رکن مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر برائے محکمہ صحت سے استفسار کیا کہ ڈسٹرکٹ اسپتال گوادر، آر ایچ سی اورماڑہ، آرایچ سی جیوانی اور آر ایچ سی سربندن کا سالانہ ادویات کا کل کتنا بجٹ رکھا گیا ہے اور گزشتہ تین سال کے دوران کتنا بجٹ فراہم کیا گیا ہے تفصیل فراہم کی جائے۔

صوبائی وزیر بخت محمد کاکڑ کی یقین دہانی پر اسپیکر نے توجہ دلائو نوٹس نمٹا دیا۔ اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن ملک نعیم بازئی نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اغبرگ جو کوئٹہ سے 35 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے جس کی آبادی تقریباً 60 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور یہ تعداد روز برروز بڑھ رہی ہے واضح رہے کہ اغبرگ کا دائرہ کار میں متعدد دیہات شامل ہیں اور یہ علاقہ مستونگ کے حددو تک پھیلا ہوا ہے فی الوقت اغبرگ کے مرکز کلی باروزئی میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کی غرض سے اسپتال اور انٹر کالج بھی قائم ہے مزید براں اغبرگ ضلع کوئٹہ کی ایک کثیر آبادی والا علاقہ بن چکا ہے جوکہ انتظامی لحاظ سے ایک تحصیل کے تمام بنیادی تقاضے پورے کرتا ہے علاقے کے لوگوں کو بہتر انتظامی سہولیات، ترقیاتی منصوبوں، تعلیم، صحت اور دیگر خدمات کی فراہمی کے لئے ضروری ہے کہ اغبرگ کو باقاعدہ طور پر تحصیل کا درجہ دیا جائے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ عوامی مفاد اور علاقے کی ترقی کے پیش نظر اغبرگ کو فوری طور پر تحصیل کا درجہ دیا جائے تاکہ علاقے کے عوام کو ان کی دہلیز پر بنیادی سہولیات اور حکومتی خدمات فراہم کی جاسکیں۔

اپنی قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ملک نعیم بازئی نے کہا کہ اغبرگ رقبہ کے اعتبار سے تین اضلاع مستونگ، پشین اور قلعہ عبداللہ تک پھیلا ہوا ہے لوگوں کو اپنے کاموں کیلئے کوئٹہ آنا پڑتا ہے انہوں نے استدعا کی کہ قرارداد کو منظور کرکے اغبرک کو تحصیل کا درجہ دیا جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں نئے اضلاع اور تحصیل کے قیام کی ضرورت ہے نئے اضلاع اور تحصیل قائم ہونے سے عوام کو آسانیاں میسر آئیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو نئے صوبوں کے قیام کے بھی خواہاں ہیں، بعد ازاں قرارداد مشترکہ طور پر منظور کرلی گئی۔اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن زابد علی ریکی نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس میں آمدورفت کے لئے پختہ شاہراہیں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کو آمدورفت کی بابت سخت مشکلات کا سامنا ہے واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کو ترقی کے حوالے سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے اس کے کے علاوہ جو ترقیاتی منصوبے بلوچستان میں شروع کیے گئے ہیں وہ تمام منصوبے انتہائی سست روی کا شکار ہیں جن میں نوکنڈی تا ماشکیل روڈ جو 102 کلومیٹر ہے جسے وفاقی حکومت نے سال 2020 میں شروع کیا اور پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود مذکورہ روڈ پر کام کی رفتار سست روی کا شکار ہے اور تاحال پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا ہے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ نوکنڈی تا ماشکیل 102 کلومیٹر روڈ کی تعمیر جلد مکمل کرنے کو یقینی بنائے تاکہ بلوچستان کے عوام کو آمدورفت کی بابت درپیش مشکلات کا ازالہ ممکن ہوسکے۔

اپنی قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے میر زابد علی ریکی نے کہا کہ وفاقی حکومت کا رویہ بلوچستان کے ساتھ درست نہیں، وفاق بلوچستان کو نظر انداز کررہا ہے پنجاب میں جگہ جگہ موٹر وئے بن رہے ہیں جبکہ نوکنڈی تا ماشکیل روڈ جو 102 کلو میٹر طویل ہے پانچ سال گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ صوبائی وزیر مواصلات وتعمیرات میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ فنڈز کی وجہ سے منصوبے تاخیر کا شکار ہورہے ہیں، انہوں نے تجویز دی کہ آئندہ وفاقی بجٹ میں نئے منصوبوں کو مطالبہ کرنے کی بجائے پرانے منصوبوں کیلئے سو فیصد ادائیگیاں کرنے کا مطالبہ کیا جائے تاکہ زیر التواء منصوبے مکمل ہوں، انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی سربراہی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو وزیراعظم سے ملاقات کرکے زیر التواء منصوبوں کیلئے فنڈز کی ادائیگی کا مطالبہ کرے، ابھی قرارداد پر بحث جاری تھی کہ اس دوران کورم کی نشاندہی پر اسپیکر نے کورم پورا کرنے کیلئے پانچ منٹ گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی تاہم کورم پورا نہ ہونے پر اسپیکر نے رکن اسمبلی زابد علی ریکی نوکنڈی تا ماشکیل 102 کلومیٹر روڈ کی تعمیر جلد مکمل کرنے، جمعیت علما اسلام کی رکن شاہدہ روف کی بلوچستان لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کا جامع جائزہ لے کر اس میں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات متعارف کرانے اور جماعت اسلامی کے رکن مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کی ضلع گوادر کے عوام کو میرانی ڈیم سے پانی فراہم کرنے سے متعلق قراردادیں آئندہ اجلاس تک موخر کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 23 ستمبر دوپہر تین بجے تک ملتوی کردیا
Live سیلاب کی تباہ کاریاں سے متعلق تازہ ترین معلومات