Sitara By Tasawar Hussain

Sitara is a famous Urdu Poetry written by a famous poet, Tasawar Hussain. You can also read more poetries of Tasawar Hussain on this page of UrduPoint.

ستارا

تصور

میرے ساتھ اب تیری یادیں رہتی ہیں

چاند کے ساتھ ستاروں کی باتیں رہتی ہیں

کوئی تو بات کہو کسی خلا میں

توڑ کر خموشی تیری صدائیں رہتی ہیں

خُدا بھی ہے مہربان میری خطاؤں پر

میری سزاوں کو روکے تیری دعائیں رہتی ہیں

نم ہیں آنکھیں آج بھی تیری یاد میں

میری جفاؤں کو بھلائے تیری وفائیں رہتی ہیں

تصور وہ اب بھی ہے ساتھ سائے کی طرح

پھولوں کو باندھ کر جیسے خوشبوئیں رہتی ہیں

تیری آنکھوں میں ڈوبنے کی چاہ رہتی ہے

قاتل کو جیسے موت کی سزا رہتی ہے

کب آئے گا وہ دن جب ملیں گے ہم

اندھیرے کو اُ جالے میں ڈلنے کی راہ رہتی ہے

پھول ہو تم ٹوٹ کر کدھر جاؤ گے

ہم کانٹوں کو تو چبھنے کی آہ رہتی ہے

سوکھی لکڑیوں سے کیا حاصل کچھ جلاو

آگ کو انگاروں میں مچلنے کی ادا رہتی ہے

بن کر خواب آؤ نیند کے اُجالوں میں

تصور کو رب سے رسم ملاقات کی دعا رہتی ہے

کوئی قصہ کوئی کہانی دے دو

کچھ نہیں کچھ لفظوں کی روانی دے دو

ڈوب کر یادوں کے تہہ خانوں میں

کوئی ڈوبی بات پُرانی دے دو

وہ ہنستے ہنستے رکنا قہقوں پر

دیکھ کر وہ اشارے لاثانی دے دو

کھو کر چھوٹے چھوٹے سوالوں میں

جوابوں میں اعراب کی گردانی دے دو

چھوڑو کیا کرو گئے لکھ لکھ کر تصور

ملکر جملوں میں کوئی بات زبانی دے دو

رُک ہی جاتے چلتے چلتے تم نے جو آواز دی ہوتی

دھڑکنیں تو بس بہانہ ہیں دلوں کو نچانے کا

ہمیں بھی عادت تھی تیری عادتوں میں رہنے کی

تیرا یوں شب بخیر کہنا تیرا یوں صبح بخیر کہنا

دل یار میں اُترنے کا موسم آگیا ہے

کلی سے پھول کے کھلنے کا موسم آگیا ہے

پتھر بیٹھا ہوا ہے پانی کے انتظار میں

خُشک چشموں کے پھُوٹنے کا موسم آگیا ہے

وقت بدلا ہوا ہے مسرت کے انتطار میں

نفرت سے محبت کے برسنے کا موسم آگیا ہے

میرا یار بھی سر تسلیم کئے بیٹھا ہے تصور

ہاری بازی عشق کی جیتنے کا موسم آ گیا ہے

ضرب سے تقسیم کے جواب لکھنے لگا ہوں

محبت کا اک پُرانا حساب لکھنے لگا ہوں

اُلجھ گیا ہوں اُلجھے اُلجھے سوالوں میں

پُرانے فارمولے سے نیا جواب لکھنے لگا ہوں

ہر سوال میں غلطی اک اور امتحان ہے

چھوٹے سے بڑے الفاظ کو کاٹ لکھنے لگا ہوں

آرہے ہیں کچھ جوابات اب ملتے جُلتے

لفظوں کو ملا کر ضرب سے لکھنے لگا ہوں

کیا بتاؤں تصور کیا حل کیا حاصل

ہر سوال کا غلط جواب لکھنے لگا ہوں

شبِ تنہائی میں

جب جب تو نے یاد کیا

پھُول کی طرح ٹوٹ کر

خوشبو کی طرح پھیل گیا

خمار سا رہا

تیرے سوچنے پر

پھینک کر پتھر پانی میں

لہروں کی طرح پھیل گیا

سحر سی رہی

بند آنکھوں میں بھی

عجب اُجالا تھا

روشنی کی طرح پھیل گیا

عکس تھا وہ میرا

تیرے آئینے میں

گرجتے بادلوں میں

بارش کی طرح پھیل گیا

وہ ہلکی سی مسکراہٹ

چاند سے ٹکراتی

بلا کر ستارے ہاتھو ں پر

لکیروں کی طرح پھیل گیا

وہ آخری بات تصور

جسے لکھ کر مٹایا اُس نے

دے کر سانسیں چار

دھڑکن کی طرح پھیل گیا

چراغ تو کیا دل بھی جل ہی جاتے

تو نے کوئی کمالات پھونکوں سے دیکھائے ہوتے

ہر جگہ ڈھونڈا تجھے

ہر جگہ ملا تو

دل نے فقط کہا

تو بھی ڈھونڈنے کی چیز ہے کوئی

تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر

میں عام ہوا

اب مجھے بھی ڈھونڈذرا

یہ کھیل آنکھ مچولی کا

باندھ کر پٹی آنکھوں پر

مجھ سے کھیل ذرا

وہ راستوں پہ دستک پر دستک دیتے رہے

ہم قدموں میں پتھروں سے لڑتے رہے

مشہور تھے قصے اُس کے سربازار میں

ہم ہی تھے ناآشنا مہ پیتے رہے

دریا کی ماند وہ لہریں اُچھالتا رہا

ہم نالائق بادباں بھنور میں اُلجھتے رہے

آنگن میں بکھیرا پتیوں کی طرح ہم کو

ستم دیکھے بعد اُس کے جھاڑو سے سمٹتے رہے

اک تلاش اک جستجو تھی اُس میں

ہم کروٹیں بدل بدل رات بدلتے رہے

کوئی کیا جانے یہ معرفت کی باتیں تصور

لوگ خواب میں سوتے اور ہم ملتے رہے

مانا کہ تجھے گروی رکھاعشق کے ہاتھوں میں

یہ میری بے بسی تھی عشق میں بھی لُٹتے رہے

تصور

اُترتے ہیں خیالات میرے

جیسے پہاڑوں سے آبشار

عجب شخص ہے

مکان میں رہتا ہے

اور

مکین بنتا بھی نہیں

حقیقت ہے ہر رات اُس سے ملتے رہے

دیواروں پر دراڑھوں کی طرح چلتے رہے

کوئی معجزا ہوگا وہ میرے سامنے ہوگا

یہ تسلی لئے ہر روز آگ میں جلتے رہے

چاکلیٹ کے تحفے وہ پیاری پیاری باتیں

پُرانی نشانی کے پُرانے قصے میں بستے رہے

صحرا کی دھوپ اور اس میں پیاس کی شدت

ہم وہ مسافر جو بن راہ ریت پر چلتے رہے

تھام لے گا ہاتھ میرا وہ کسی دن آکر

بس یہ ہی خواہش لئے دل کو سمجھاتے رہے

کب آئے گا بن کر تہوار خُوشیوں کا

ہم پھول میں خشبو کبھی رنگ بدلتے رہے

خُدا نہ کرے تصور آنکھوں کے پشتے ٹوٹیں

کنارے ہیں آرزو کے جس پر پُل ملتے رہے

کہتے ہیں بے مثال تھا بہت مشہور ہوا

ساحل پہ کھڑا سمندر کی گہرائی سے دور ہوا

بات اگر سچ ہے تو بات رہتی کیوں نہیں

پانی میں گھُل گیا جسکو کہانی پر عبور ہوا

بہت چرچا تھا اُسکا درودیوار پر

نشاں مٹتے دیکھے جب اُس سے قصور ہوا

گرفتار ہی رہا اپنے ہی قانون میں

سیاہی سے بھی کالا جب اُسکا دستور ہوا

بہت بار بُلایا بہت بار سمجھایا اُسکو

دل جان میں رکُتا جب سانس سے دور ہوا

بہت دیکھا ہم نے ہنستے میں روتا ہوا

بازاروں میں تحفے بیچتا جب مجبور ہوا

ہم ہی تھے تصور جو اُس کے کام کے تھے

وہ شیشے کی طرح ٹوٹا تو بہت شور ہوا

رات بھر مہکے ہم پھول

اُن کی محفل میں

یہ اُس کی مہماں نوازی تھی

ہم اُن کے ہاتھوں سے تصور

خوشبو کے جام پیتے رہے

غم عشق ہے

حالت عشق دیکھے

ستاروں سے پوچھ رہا ہے

حال صنم کیا ہے

بہت بار سمجھایا اُسکو

پر وہ نہ مانا

بات ذرا سی تھی

جسے وہ بیگاڑ گیا

مجھ سے بھول کر بھی نہ ملنا کبھی

میں وہ ویرانا ہوں جس میں تنہائی بہت ہے

بہت غم ہوا مل نہ سکیں جو دعائیں میری تجھ کو

تاش کے پتوں کی طرح جو تجھ کو بکھرا دیکھا

ماناتیری دعائیں تیری وفائیں میرے ساتھ رہتی ہیں

یہ اور بات میری اک دستک ترے دل کو ہلا دیتی ہے

کیوں غصہ ہوتے ہو

یاد ہے تم کو

تم نے اک اندازدیا تھا

جس پر میں نے تم کو داد دی تھی

ذرا سی بات تھی تم کہاں تک لے گئے

ہلکی سی آہٹ کو شور میں بدلا تم نے

بیچ راہ وہ میرا ساتھ چھوڑ گیا

یہ اُس کی خوشی جو میرے ساتھ ساتھ چلی

کتاب محبت پڑھو تو سہی

ورق ورق پکارے گا

تم میری ہو!

وہ بھولی بسری یادیں دہرانے کو

خواب کافی ہیں مجھکو تجھ تک آنے کو

بس اک تم ہی ہو جس کو ہم نے چاہا ہے

درپردہ رہتے ہیں کچھ چاند مجھ تک آنے کو

ٹوٹا ٹوٹا رہتا ہوں ٹوٹے ٹوٹے تاروں میں

تیری باتیں کافی ہیں یہ راتیں بتانے کو

حرف حرف جدا رہتے ہیں تیرے انتطار میں

تیری اک ادا چاہئیے م ح ب ت سے ملانے کو

وہ خاکے تیرے بنائے اب بھی خالی ہیں

بھر جائیں گے بس تیرے رنگ ملانے کو

پھر آ کسی دن دونوں ساتھ چلتے ہیں

بس تیری ہاں چاہیئے تصور ساتھ ملانے کو

اپنی آنکھوں کی گہرائیوں سے ڈھونڈ لے

توڑ کر رسمیں میری عادتوں سے ڈھونڈ لے

میں تو کھلی کتاب ہوں کچھ تو پڑھ

دیکھ کر سوال میرے جوابوں سے ڈھونڈ لے

دبا کر اپنے مقدر کی مٹھی میں مجھکو

محسوس کر اور میری حرارتوں سے ڈھونڈ لے

میں وہ بادل جو تجھ میں پھیل گیا

اب مجھکو برستی بوندوں سے ڈھونڈ لے

نام رکھ میرا تصور کسی ساقی کے جام پر

پیاس لگے تو پیاس کی شدتوں سے ڈھونڈ لے

ہوئے جُدا ایسے کہ ہاتھ ملانا باقی رہ گیا

دل تو تھا لیکن دھڑکن کا چلنا باقی رہ گیا

یار حُسن کو دیکھ تو لیا آنکھ بھر کر

لیکن آنکھ سے آنسو کا بہنا باقی رہ گیا

راستے تو ہو گئے اب سے جُدا جُدا

لیکن راستوں پہ بچھڑنا باقی رہ گیا

دل تو ہو گیا زخموں سے چُور چُور

لیکن روح کا جسم سے نکلنا باقی رہ گیا

ہاتھ تو تھا لکیروں سے بھرا ہوا

لیکن قسمت کا نصیب سے ملنا باقی رہ گیا

یہ الوداعی تھی تصور کہ وہ جا رہا تھا

لیکن اُس کو گلے سے لگانا باقی رہ گیا

میری عادتیں چھوڑ میرے رستوں کو کوئی موڑ ہی دے جا

تو مل نہ مل مجھکو اپنا کوئی توڑ ہی دے جا

کنارے پر کھڑے ہیں خواب میرے

دے کر دھکا لہروں کو کوئی شور ہی دے جا

چُرالے مجھکو جیسے چور چُراتے ہیں

باندھ کر ہاتھ میرے اک لمحہ کوئی اور ہی دے جا

بوڑھا ہوگیا ہوں تجھ کو سوچ سوچ کر

میرے کاندھے پر دستک دے کر پُرانا دور ہی دے جا

دریا کی ماند دوڑتا ہوں رگ جاں میں تصور

چھوڑ دل کی میری دھڑکنوں کو کوئی زور ہی دے جا

تھی بات اُس سے کوئی خودکلامی نہ تھی

وہ تھا ہی ایسا کوئی کہانی ایسی نہ تھی

چُوم لے کوئی کلی تو کھل جائے پھول

میرے ماتھے پہ ایسی کوئی نشانی نہ تھی

وہ کہہ جائے کچھ تو بن جائے غزل

میرے شعروں میں ایسی کوئی روانی نہ تھی

وہ آجائے تو جل جائیں چراغ

میری محفل میں ایسی کوئی خودنمائی نہ تھی

وہ چلے تو گُنگرو کی چھن چھن چلے

میرے پاؤں میں ایسی کوئی سازگاری نہ تھی

سن لے کوئی بات تو بھُن دے کوئی جال

مچھیروں کے پاس بھی ایسی کوئی فنکاری نہ تھی

ہرن سی چال، مینا سی بولی توبہ ایسا حُسن

میرے زمانے میں ایسی کوئی جوانی نہ تھی

جادوگر ہے شاید تصور کرتب ہے کام اُسکا

میرے خیالوں میں ایسی کوئی معجزانی نہ تھی

مالک ہے رہے نہ رہے چاہے چھوڑ جائے

ندیا کی طرح بہے اور مجھے کہیں موڑ جائے

کنارہ ہوں اُسکا کہیں سے بھی دیکھے مجھے

شدت غم پکڑے تو اشکوں سے توڑ جائے

شیشے کا دل میرا اور اُس پر اُس کے پتھر

فن دیکھیے کرچیوں کو جوڑ کر مجھے پھر جوڑ جائے

ہر بار جیت کر ہارنا تھا عادت میری

وہ کھیل کھیلتا چھوڑ کر کبھی بھی دوڑ جائے

میری زندگی اک تماشہ بن گی تصور

وہ کبھی بادل، کبھی گھٹاؤں کی طرح اوڑھ جائے

وہ جب بھی شہر میں بھٹکتا ہے

بس میرے ہی گھر کو نکلتا ہے

یہ تو عادت ہے اُس کی وہ نہ مانے

دل اُسکا میرے ہی مدار میں رُکتا ہے

بات دل کی آنکھوں سے کر دے

ایسے کمالات وہ اکثر کرتا ہے

یہ معجزہ ہے میں اُس کو دیکھوں

ورنہ صحرا میں پھول کہاں کھلتا ہے

یہ تو قسمت کی بات ہے تصور

وہ دُعا کو چھوڑ مقدر سے اُلجھتا ہے

تصور

© UrduPoint.com

All Rights Reserved

(2053) ووٹ وصول ہوئے

Related Poetry

More Poetry of Tasawar Hussain

Sitara by Tasawar Hussain - Read Tasawar Hussain's best Shayari Sitara at UrduPoint. Here you can read the best poetry Sitara of Tasawar Hussain. Sitara is the most famous poetry by emerging poet, Tasawar Hussain. People love to read poetry by Tasawar Hussain, and Sitara by Tasawar Hussain is best among the poetry collection by new poet Tasawar Hussain.

At UrduPoint, you can find the complete collection of Urdu Poetry of Tasawar Hussain. On this page, you can read Sitara by Tasawar Hussain. Sitara is the best poetry by Tasawar Hussain.

Read the Tasawar Hussain's best poetry Sitara here at UrduPoint; you will surely like it. Many people, who love the Urdu Shayari of the new poet Tasawar Hussain, regard it as the best poetry Sitara of Tasawar Hussain.

We recommend you read the most famous poetry, Sitara of emerging poet Tasawar Hussain, here, you will surely love it. Also, don't forget to share it with others.