Episode 21 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 21 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے تایا ابا اور ان کا پورا گروپ جس بس میں سوار تھا وہ بس حادثے کا شکار ہو گئی تھی۔ ان کے گھر کے چاروں بزرگوں نے مدینہ طیبہ میں ہمیشہ کیلئے آنکھیں موندلیں اور مدینہ طیبہ کی مٹی ان کا نصیب ٹھہری۔ وہ خوش قسمت تھے جنہیں اللہ نے اپنے نگر بلایا اور پھر تاقیامت اپنے گھر میں ہی ان کا مدفن بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان چاروں عاشقوں کی نہ جانے کون سی ادا پسند آئی تھی کہ ان سب کی ہی دلی خواہش کو پورا فرما دیا۔

اسے دادی کی وہ دعائیں یاد آئیں۔ جو وہ ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتی تھیں۔
”مولا! اپنے گھر بلانا  اپنے در پر بلانا اور پھر واپس کبھی نہ آنے دینا۔“
ان سب کیلئے یہ صدمے بہت عظیم تھا۔ اشفا تو پہلے ہی اپنے والدین کی دائمی جدائی کا دکھ دیکھ چکی تھی  سو ان سب کو حوصلہ دیتے۔

(جاری ہے)

سنبھالتے ہوئے کبھی کبھی اس کے اپنے حوصلے بھی بکھر جاتے۔

مرتضیٰ خود بکھرا ہوا تھا  بہنوں کو کیا حوصلہ دیتا۔ عامر اور عاشر کی اپنی حالت بہت بری تھی۔ ان کیلئے تو ماں ہی سب کچھ تھی۔ انہیں ماں نے ہی سب رشتوں کا پیار دیا تھا  اسی لئے تو انہیں کبھی باپ کی یاد نہیں آئی تھی۔ سائرہ اور ثمن بھی غم سے نڈھال تھیں۔ وہ ایک دوسرے کو کیا دلاسا دیتے۔
سب سے بڑا صدمہ تو یہ تھا کہ انہوں نے اپنے پیاروں کا آخری دیدار بھی نہیں کیا۔
دنیا داری کے تقاضوں کے تحت انہوں نے وہ تمام رسومات پوری کیں جو کہ اس معاشرے کا حصہ بن چکی تھیں۔ چالیسویں تک لوگ افسوس کرتے اور تعزیت کیلئے آتے رہے۔ آہستہ آہستہ مہمانوں کی آمدو رفت بھی کم ہو گئی تھی۔
ابھی یہ صدمہ تازہ ہی تھا کہ نقی اور تقی نے زمین میں اپنا حصہ الگ کرنے کا شوشا چھوڑ دیا۔ ان دونوں کو مرتضیٰ کی تکلیف کا احساس بھی کیسے ہوتا۔
شروع سے ہی چاچی نے بچوں کے ذہنوں کو ان کے خلاف بھڑکا کر آلودہ کر دیا تھا اور مرتضیٰ تو چاچی سے اس دن سے متنفر تھا جب وہ اس گھر میں آئی تھیں۔ ہر وقت اماں کے کان میں گھسی مرتضیٰ کے خلاف انہیں اکساتی رہتیں۔
”آپا! بھلا سوتیلی مائیں بھی اتنا خیال رکھتی ہیں۔ آپ نے تو اس فتنے کو سر چڑھا رکھا ہے۔“ یا پھر کہتیں ”کیا ضرورت ہے اسے اچھے اسکولوں میں پڑھانے کی  خوامخواہ اتنا خرچہ…“
وہ نہ مرتضیٰ کو اچھی لگتی تھی نہ انہیں مرتضیٰ سے کوئی دلچسپی تھی۔
یہ دشمنی اس کی نوجوانی کی عمر تک جاری رہی اور پھر خود بخود چاچی کا رویہ اس سے بہتر ہوتا چلا گیا۔ مرتضیٰ نے عاشر اور عامر سے مشورہ کرکے جو ان کا جائز حق تھا انہیں دے دیا مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے اس پر مقدمہ دائر کروا دیا تھا۔ وہ مزید زمین اس سے مانگ رہے تھے  جسے دینے کیلئے مرتضیٰ نے انکار کر دیا۔
”جو قانونی حق ان کا بنتا تھا وہ میں دے چکا ہوں۔
مزید ایک ٹکڑا زمین کا نہیں دوں گا۔“ ثانیہ اور نمرہ جھگڑا بڑھ جانے کے خوف سے بھائی کو رضا مند کر رہی تھیں کہ وہ لوگ جو مانگتے ہیں دے دو  مگر مرتضیٰ کسی طور نہیں مان رہا تھا۔
”اگر آپ زمین نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں  بدلے میں رقم دے دیں۔ میرے پاس پچاس ساٹھ لاکھ کی رقم…“
”شٹ اپ اشفا!“ مرتضیٰ اس زور سے دھاڑا کہ وہ تینوں ہی سہم گئیں۔
”تمہیں ان معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں۔ یہ میرا مسئلہ ہے میں نبٹالوں گا۔“
”لالا! آپ کو پتا تو ہے کہ وہ شروع سے ہی لالچی ہیں۔ آپ ان لالچیوں کے متھے زمین مار دیں۔“
ثانیہ سمجھانے والے انداز میں بولی تو مرتضیٰ غصے سے اٹھ کر چلا گیا۔
نمرہ اور ثانیہ پچھلے دو ماہ سے ادھر ہی تھیں۔ آج ان دونوں کو ہی جانا تھا۔ ثانیہ  لالا کی وجہ سے فکر مند تھی اور نمرہ کو کچھ اور بھی فکریں کھائی جا رہی تھیں۔
جاتے ہوئے اس کے کان میں راز داری سے بولی۔
”اب شازم کے بہن یا بھائی کو آ جانا چاہئے۔“
”ہاں  تو اور کیا…“ ثانیہ نے بھی تائید میں سر ہلایا اور بولی۔ ”ہماری دعائیں جلد قبول ہوں گی۔“ ان دونوں کے جانے کے بعد زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر آ گئی تھی۔ پہلے اسے یہ انتظار تو تھا کہ بہت جلد دادی  تایا ابا آنے والے ہیں وہ دن گن گن کر گزار رہی تھی  مگر اب وہ کس کا انتظار کرتی۔
اب اس نے گھر کو بھی اچھی طرح سنبھالنا سیکھ لیا تھا۔ دن ویسے ہی بے رنگ اور پھیکے سے گزر رہے تھے۔ شازم کے ساتھ دن اچھا مصروف ساگزر جاتا تھا  مگر جب وہ سو جاتا تو پھر اشفا پورے گھر میں بولائی بولائی پھرتی۔ کبھی کبھی وہ حیرت سے سوچتی تھی کہ کیا میں وہی اشفا ہارون ہوں۔
وہ نخرے  وہ ضدیں  لاڈ  غصہ تلملاہٹیں  خفگیاں  سب اک خواب سا محسوس ہوتا تھا۔
مرتضیٰ کا رویہ ویسا ہی تھا کبھی دھوپ  کبھی چھاؤں۔ وہ اس امید پر ہر دن اور ہر رات مطمئن سی رہتی کہ کبھی تو مرتضیٰ اس کی چار سال پہلے سرزد ہو جانے والی اس غلطی کو معاف کر دے گا۔
عاشر اور عامر کے اصرار بلکہ ضد پر اس نے نقی اور تقی کو مزید زمین دے دی تھی اور پھر خود اس نے تھوڑی سی زمین بیچ کر لاہور کے قدرے پوش علاقے میں چھوٹا سا مگر خوبصورت گھر لے لیا۔
کچھ عرصے بعد وہ لوگ شہر میں شفٹ ہو گئے تھے اور یہی اتنے عرصے بعد ایک واحد تبدیلی تھی  جس نے اس کے بیٹے اور خود اشفا کے مزاج پر خوشگوار اثر ڈالا۔
اگرچہ مرتضیٰ روزانہ ہی گاؤں کا چکر لگاتا تھا  اکثر رات بھی وہیں رک جاتا۔ زمینوں کا سارا حساب کتاب اب مکرم جان کے سپرد تھا۔
وہ اپنے گاؤں سے تعلق نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ اس گاؤں سے اس مٹی سے تو اسے عشق تھا۔
ان لوگوں سے اس کا ایک تعلق تھا  وہ کیونکر ان سے منہ موڑتا۔
یہاں آنے کے بعد ایک اور خوشگوار تبدیلی بلکہ خوشخبری انہیں ملی  جس نے ان سب کے غمزدہ دلوں کو پھر سے سرشار کر دیا تھا۔
ثانیہ اور نمرہ بہت خوش تھیں۔ خوش تو اشفا بھی بہت تھی۔ بس ایک مرتضیٰ ہی تھا جس کے تاثرات سے کچھ بھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اسی طرح وقت کے تھال میں مزید کچھ مہینے اور آن گرے۔
###

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi