Episode 18 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 18 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

تائی اماں کی نصیحتوں کا اثر تھا  اسی لئے مرتضیٰ رات کو ان کی تنہائی کے خیال سے گھر آ جاتا تھا  مگر شازم کو سلانے کے بعد وہ دوسرے کمرے میں چلا جاتا۔ اشفا اس کے کٹھور پن پر سلگتی رہتی۔ رات بھر جاگنے کی وجہ سے اس کے سر میں اکثر درد رہنے لگا تھا۔
مرتضیٰ نے اسے اذیت دینے کا نیا طریقہ سوچا تھا۔ اس نے گھر کے تمام ملازمین کو چھٹی کروا دی۔
صرف مکرم جان تھا جس کی مہینے بھر کا راشن لانے کی ذمے داری تھی۔ ہفتے بعد وہ ضرورت کی چیزیں لا دیتا۔
اشفا کو سارے کام خود کرنا پڑتے تھے۔ کچن کے کاموں سے تو اس کی جان جاتی تھی  اوپر سے اتنے بڑے گھر کی تنہائی صفائی کرنا انتہائی مشکل تھا۔ اسے غصہ اس وقت آتا جب مرتضیٰ کے مہمان ڈیرے پر آتے اور گھر سے کھانا تیار کرکے بھیجنا پڑتا۔

(جاری ہے)

مرتضیٰ کو بھی اس کے پھوہڑ پن کی اب خبر ہوئی تھی۔

وہ صبح ناشتے کے بعد گھر سے نکلتا تھا اور رات دیر سے اس کی واپسی ہوتی۔ کھانا وہ ہمیشہ گھر آکر ہی کھاتا اور باتیں بنانے کا بھی اسے موقع مل جاتا تھا۔
”کتنی بدسلیقہ اور پھوہڑ عورت ہو تم۔ کبھی اپنے کمرے کی حالت جا کر دیکھو  اس قدرے بے ترتیبی ہے  فرنیچر پر مٹی کی تہیں جم گئی ہیں۔ ابھی تو تین دن نہیں ہوئے اماں کو گئے ہوئے اور گھر کی یہ حالت ہو گئی ہے۔
شازم کے کپڑے صوفے  قالین اور بیڈ کے اوپر بکھرے پڑے ہیں اور خود وہ اتنا گندا ہو رہا ہے۔ تم نے اسے نہلایا بھی نہیں۔“
”ابھی تو اسے کپڑے پہنائے ہیں۔ صحن میں جاکر گندے کر لیتا ہے۔“ بڑے بڑے پتیلے دھوتی اشفا نے روہانسی آواز میں کہا۔
”صحن میں نہ جانے کب سے جھاڑو نہیں لگا۔ جامن اور آم کے پتوں کا الگ ڈھیر لگا ہے۔“ وہ ناگواری سے بولے جا رہا تھا۔
”برتن دھو کر صحن کی صفائی کرتی ہوں۔“ اشفا نے مری آواز میں کہا۔
”برآمدہ بھی صاف کرو۔“ ایک نیا آرڈر مل چکا تھا۔ وہ جلتی کلستی جھاڑو اٹھا کر صحن صاف کرنے لگی۔ کچے صحن سے اٹھنے والی دھول نے منٹوں میں ہی اسے کارٹون بنا دیا تھا۔ اوپر سے شدید کھانسی نے پل بھر میں ہی اسے بے حال کر دیا۔
”اتنا نہیں ہو سکا  کم از کم صحن میں ٹائلیں ہی لگوا دیں۔
“ وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔
”مما! بھوک لگی ہے۔ چپس بنا کر دیں۔“ شازم نے جالی والے دروازے سے جھانک کر دہائی دی تو وہ نرمی سے بولی۔
”اوکے بیٹا! یہ تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ میں ابھی آتی ہوں۔“
”مما! آپ نے پاؤڈر لگایا ہے کیا؟“ تھکن سے نڈھال جب وہ کمرے میں آئی تو شازم نے حیرت سے پوچھا۔ اشفا چہرے پر ہاتھ پھیر کر آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی تو اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔
یہ پاؤڈر اس کے پلکوں اور بالوں میں بھی جذب ہو گیا تھا۔ وہ اسی طرح ہنستے ہوئے واش روم میں گھس گئی۔
جب باہر آئی تو حالت قدرے بہتر محسوس ہوئی  اس نے مرتضیٰ کو نہ پاکر شازم سے پوچھا۔ ”تمہارے پاپا بول بول کر سارا نزلہ گرا کر کہاں چلے گئے ہیں۔“
”بابا کو فلو ہو گیا ہے؟“ شازم نے نا سمجھنے والے انداز میں پوچھا  تو اشفا مسکرائی اور بولی۔
”آؤ میں اپنے بیٹے کو چپیس بنا کر دوں۔“
”اوکے…“ وہ اس کے ساتھ ہی کچن میں آ گیا۔ اشفا نے آلو کاٹ کر کڑاہی میں تیل ڈالا۔ بیس منٹ بعد چپس تیار تھے۔ ایک پیالی میں اسے کیچپ ڈالی اور گلاس میں پیپسی اور برف کے کیوبز ڈال کر وہ مختصر سا لنچ شازم کے سامنے رکھے خود بھی بیٹھ گئی تھی۔
”مما! آپ بس چپس اچھے بناتی ہیں۔“
”اور کوئی بھی چیز آپ کو مما کے ہاتھ کی پسند نہیں آتی۔
”نائیں…“ اس نے سچائی سے جواب دیا تو اشفا نے مصنوعی خفگی سے بیٹے کی طرف دیکھا۔
”مما ٹرائفل تو اچھا بناتی ہیں۔“
”ہاں اور باقی سب گندا ہے۔“ وہ مزے سے پیپسی کے سپ لے رہا تھا۔ اشفا نے منہ بنا لیا اور بولی۔ ”ہونا کٹھور باپ کے کٹھور بیٹے  اتنی محنت کرتی ہوں اور تم باپ بیٹے کو کچھ پسند ہی نہیں آتا۔ اتنے نخرے ہیں تم دونوں کے۔
”دادو سب اچھا بناتی ہیں اور پھوپھو بھی۔“ وہ پر سوچ انداز میں بولا۔ دروازے سے اندر آتے مرتضیٰ نے ان ماں  بیٹے کی کچھ تکرار سن لی تھی  تاہم وہ تاثر دیئے بغیر بولا۔
”کھانا تیار ہے تو دو… مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔“
اشفا سرعت سے اٹھی اور رات کا بچا ہوا سالن اور روٹی بنا کر اس کے سامنے رکھی۔ ”یہ کیا ہے؟“
”یہ چکن کا سالن ہے۔ وہ اصل میں غلطی سے میں نے چکن کو پریشر ککر میں ڈال دیا تھا  تو یہ ہڈیاں الگ ہوگئی ہیں اور گوشت الگ۔“
”یہ تو بہت ہی فخریہ کارنامہ سر انجام دیا ہے آپ نے۔“ مرتضیٰ نے بے دلی سے کھانا شروع کیا۔
”اتنا بھی مل جاتا ہے اسی پر اکتفا کریں۔“

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi