Episode 28 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 28 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”آں… ہاں کچھ نہیں  لگتا ہے رحیم آ گیا ہے۔ تم ایسا کرو کپڑے بدل کر بال بنا آؤ۔“ انہوں نے دانستہ موضوع بدل دیا تھا۔ رحاب بے دلی سے اٹھ کر کمرے میں گئی۔ کپڑے پریس کئے  شاور لیا اور کچھ دیر بعد تیار ہو کر گل مینا آنٹی کے ایڈریس والا کاغذ کا ننھا سا ٹکڑا مٹھی میں دبائے نیچے چلی آئی۔
”دادو! دراصل ادھر میری ایک قریبی سہیلی رہتی ہے۔
اس کے پاپا کا یہاں ٹرانسفر ہوا ہے۔ آج میں اس سے ملنے کیلئے جاؤں گی۔“ دادو کو مختصر بتا کر وہ رحیم خان کے ہمراہ باہر آ گئی تھی۔ اس نے دادو سے مصلحتاً جھوٹ بولا تھا۔ گاڑی وسیع صاف شفاف سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی۔ رحاب اردگرد کے دلکش و حسین مناظر سے بے خبر اپنے ہی خیالوں میں الجھی تھی جب رحیم خان نے اسے مخاطب کیا۔
”بی بی صاحب! کہاں جانا ہے۔

(جاری ہے)

“ رحاب نے چونک کر رحیم خان کی طرف دیکھا اور پھر بات سمجھتے ہوئے اسے کاغذ پر لکھا ایڈریس بتانے لگی۔
”پتا نہیں میں گل مینا آنٹی سے مل سکوں گی بھی یا نہیں۔ شاید وہ اس جگہ اب نہ رہتی ہوں۔“ تقریباً آدھے گھنٹے بعد گاڑی اک چھوٹے مگر سر سبز بیلوں سے ڈھکے گیٹ کے سامنے رک گئی تھی۔ رحاب دھڑکتے دل کے ساتھ باہر آئی۔ رحیم خان کو کچھ دیر رکنے کا کہہ کر وہ گیٹ کی طرف بڑھی تھی۔
دروازہ چونکہ کھلا تھا لہٰذا وہ بے دھڑک اندر داخل ہو گئی۔ مختصر سالان عبور کرکے اس نے اندرونی دروازے میں قدم رکھا۔ اسی پل دائیں طرف سے اک ملازمہ ٹائپ لڑکی نمودار ہوئی۔
”اے میم صیب! کس سے ملنا ہے۔“ رحاب کو اندر جھانکتے دیکھ کر وہ حیرانی سے بولی تھی۔
”گل مینا آنٹی ہیں…؟“
”ہاں  بی بی ہے گھر پر مگر سو رہی ہے۔“ رحاب کو بغور دیکھتے ہوئے وہ تیزی سے بولی تھی پھر اسے ساتھ لئے لاؤنج میں آ گئی۔
”آنٹی کب تک اٹھیں گی۔ مجھے ان سے بہت ضروری کام ہے۔“
”ام ابھی جگاتی ہے۔ تم آرام سے بیٹھو۔“ اس کے جانے کے بعد رحاب مختصر سے لاؤنج کا جائزہ لینے لگی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ہی لڑکی ایک دفعہ پھر بمعہ کولڈ ڈرنک کے نمودار ہوئی۔
”بی بی بس آ رہی ہے۔ تم یہ پیو  اتنے میں ،ہم چائے بناتی ہے۔“
”ارے نہیں چائے وغیرہ کا تکلف مت کرنا۔
مجھے ذرا جلدی ہے۔“ رحاب کے انکار کرنے پر وہ سر ہلاتے ہوئے پلٹ گئی تھی۔ اس پل قدرے بھاری جسامت والی نفیس سی خاتون اندر داخل ہوئی تھی۔ رحاب احتراماً کھڑی ہو گئی۔
”بیٹھو بیٹا۔“ اس کے سلام کا جواب شائستگی سے دینے کے بعد انہوں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
”میں رحاب ہوں آنٹی  اسلام آباد سے آئی ہوں۔“ اس نے تعارف کی رسم نبھائی۔
”معاف کرنا بیٹے! میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔“ گل مینا آنٹی شرمندگی سے گویا ہوئی تھیں۔ رحاب دھیرے سے مسکرائی۔
”ہماری یہ پہلی ملاقات ہے۔“
”یقینا…“ انہوں نے ہنکارا بھرا اور پھر ملازمہ کو آواز دی۔
”پلوشہ! چائے لاؤ۔“
”نہیں آنٹی مجھے چائے وغیرہ نہیں پینی۔ ایک بہت ہی ضروری کام کے سلسلے میں آئی ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گی۔
“ رحاب نے گویا تمہید باندھی تھی۔ گل مینا آنٹی نے بغور اس کے حسین نین نقوش کو دیکھا۔ باتوں لب و لہجے اور حلیے سے وہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے کی نظر آ رہی تھی۔
”مجھے پشمینہ فراز اور ان کے بیٹے شاہ نور کا ایڈریس چاہئے۔“ رحاب نے گویا گل مینا کے سر پر دھماکہ کیا تھا۔ان کے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
”تم کون ہو اور کس سلسلے میں پشمینہ سے ملنا چاہتی ہو۔
“ رحاب نے ہتھیلیاں مسلتے ہوئے کچھ دیر سوچا اور پھر اعتاد سے بولی۔
”میں ان کے شوہر فراز سکندر کی بھتیجی ہوں۔“
”کیا لینے… آئی ہو یہاں۔“ گل مینا کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آنکھوں سے سختی چھلکنے لگی تھی۔
”مجھے ان کا ایڈریس چاہئے  میں ان سے ملنا چاہتی ہوں  فراز چاچو۔…“
”مت نام لو اس ذلیل آدمی کا میرے سامنے۔
“ گل مینا اس کی بات کاٹ کر چلائی تھیں۔ رحاب لب بھینچ کر خاموش ہو گئی۔
”کیا چاہتا ہے وہ اب  برباد تو کر دیا ہے اس نے پشمینہ کو…“
”چاچو کا کوئی قصور نہیں آنٹی وہ تو…“
”ہاں سارے قصور تو اس معصوم کے تھے  جس نے اس سے محبت کی۔“ گل مینا نے تنفر سے سرجھٹکا۔
”دیکھو لڑکی! اگر تم یہ چاہتی ہو کہ میں پشمینہ کو تم سے ملوا دوں یا پھر اس کا ایڈریس دے دوں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔
میری طرف سے معذرت  اب تم جا سکتی ہو۔“ وہ رکھائی سے بولتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
”پلیز آنٹی آپ میری بات تو سن لیں۔“ رحاب کا لہجہ التجائیہ ہو گیا تھا۔ گل مینا آنٹی سرعت سے سیڑھیاں چڑھ گئی تھیں۔ رحاب مٹھیاں بھینچتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔
”جب تک آپ مجھے پشمینہ چچی کا پتا نہیں دیں گی۔ میں یوں ہی آپ کو ڈسٹرب کرتی رہوں گی آنٹی۔“ وہ سلگتے ہوئے سرعت سے باہر نکل گئی۔
#########

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi