Episode 34 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 34 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

رحیم خان نے ایک جگہ گاڑی روک کر شاہ نور کے گھر کا پتا پوچھا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد گاڑی خوب صورت سے گھر کے گیٹ کے سامنے رک گئی۔ رحاب دھڑکتے دل کے ساتھ اتری۔ تمام راستے وہ مختلف مکالمے سوچتی آئی تھی جو کہ اسے خانم سے بولنے تھے۔ رحیم خان نے اس کا سوٹ کیس اٹھایا۔ گیٹ پر موجود پچاس پچپن سالہ خان کی ہمراہی میں وہ اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی تھی۔

اسے انتہائی کشادہ ور ہوا دار کمرے میں بٹھایا گیا تھا جو کہ یقینا مہمانوں کیلئے مخصوص تھا۔ اخروٹ اور کیکر کی لکڑی سے بنا مضبوط اور دیدہ زیب فرنیچر بہت بھلا لگ رہا تھا۔ فرش پر دبیز قالین بچھا تھا جبکہ سامنے والی دیوار پر شاہ نور کی فل سائز تصویر جلوہ افروز تھی۔ تصویر میں مسکراتا ہوا وہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ آنکھوں میں شرارت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے وہ بڑے تفاخر سے کھڑا تھا۔

(جاری ہے)

رحاب ایک ٹک اس کی تصویر کو دیکھ رہی تھی۔ اپنی نشست سے اٹھ کر وہ دو قدم آگے بڑھی اور انگلی کی پوروں سے تصویر کو چھوا۔ اسے اپنے دل کی کیفیت بدلتی محسوس ہوئی تھی۔ دل کی اس بے ایمانی پر وہ اسے ڈپٹتے ہوئے پیچھے ہٹی۔ بے اختیار ہی اس نے دائیں ہاتھ سے ماتھے کو چھوا تو بہت سی نمی محسوس کرکے گھبرا اٹھی۔ اسی پل آنکھوں میں اشتیاق کی چمک لئے گول مٹول سی قدرے بھرے بھرے جسم والی گوری چٹی پٹھان لڑکی ٹرے میں مشروب سجائے کمرے میں داخل ہوئی۔
”سلام بی بی۔“ اس نے کچھ شرماتے ہوئے سلام کیا تھا۔ رحاب نے قدرے سنبھل کر سر ہلایا۔
”تم شہر سے آیا ہے۔“ قالین پر اس کے مقابل بیٹھتے ہوئے وہ تجسس سے بھرپور لہجے میں بولی تھی۔
”ہاں…“ رحاب مختصر بولی۔
’ایبٹ آباد۔“ لڑکی کافی باتونی تھی۔ شرمائی شرمائی مسکان لبوں پر سجائے بغور اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”ہوں…“ رحاب نے ہنکارا بھرا۔
”امارا گل خان بھی ایبٹ آباد میں ہوتی ہے۔“ اس نے سر جھکا کر دھیمے لہجے میں کہا تھا۔ رحاب نے کچھ چونک کر اس کے ”شرمیلے“ انداز کو ملاحظہ کیا اور بے اختیار مسکرا دی۔ اسی پل دروازہ کھلا تھا اور جو خاتون اندر داخل ہوئی تھیں ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر رحاب ویا ساکت رہ گئی۔ بے انتہا سرخ و سفید رنگت  نیلی کانچ سی آنکھیں سر پر سفید دوپٹہ لئے وہ کسی ریاست کی ملکہ ہی تو لگ رہی تھیں۔
”السلام علیکم…“ وہ بمشکل ہی بول پائی تھی۔ خانم نے آگے بڑھ کر شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر ملازمہ سے مخاطب ہوئیں۔
”پری چہرہ! تم ادھر بیٹھی باتیں بگھار رہی ہو  جاؤ مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام کرو۔“ ان کی آواز میں بلا کی نرمی تھی۔ پری چہرہ سر پر چادر جماتے ہوئے ”بہتر خانم“ بولتی تیزی سے بالکل نکل گئی تھی۔
اس کے جانے کے بعد خانم رحاب کی طرف متوجہ ہوئیں۔
”کیسے آنا ہوا بیٹی؟“
”ایکچوئیلی میں شمالی علاقہ جات کی سیرو تفریح کی غرض سے آئی تھی ”چلاس“ میں نے اس گاؤں کی دلکشی و خوبصورت کی بہت تعریف سنی ہے۔ اسی لئے اپنے ڈرائیور کے ہمراہ آ گئی ہوں مگر یہاں آکر قدرے مایوسی ہوئی کیونکہ قریب دور کوئی بھی ہوٹل  ریسٹورنٹ نہیں ہے۔ یعنی کہ رہائش کا مسئلہ تھا۔
آپ کو برا تو نہیں لگا میرا آنا…؟“ ان چند لائنوں کی ریہرسل وہ پورے راستے کرتی آئی تھی لہٰذا جب بولی تو لہجہ ہموار تھا۔
”کیوں برا لگے گا…“ خانم قدرے ناراضی بھرے لہجے میں بولیں۔ ”مجھے تو بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے شرف میزبانی بخشا ہے ہمیں۔ آپ تھکی ہوئی ہیں چاہیں تو ہاتھ منہ دھو کر فریش ہو جائیں  میں کھانا لگواتی ہوں۔“ خانم اپنے مخصوص شہد آگیں لہجے میں بولیں اور پھر نپے تلے قدم اٹھاتی باہر چلی گئیں۔
رحاب نے طویل سانس خارج کرکے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اک بوجھ سے اس نے خد کو اس پل آزاد پایا تھا۔ تھکن کی وجہ سے اس کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ سر میں الگ ٹیسیں سی اٹھ رہی تھیں۔ وہ ہاتھ منہ دھو کر باہر آئی تو خانم اس کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔
”پہلے کھانا کھا لو  پھر آرام کر لینا۔“
”دراصل کھانا تو راستے میں ہی کھا لیا تھا۔ اس وقت چائے کی طلب ہو رہی ہے اگر چائے کے ساتھ کوئی ٹیبلٹ مل جائے تو…“
”کیوں نہیں  میں ابھی بھجواتی ہوں۔
آپ ایسا کریں میرے ساتھ آئیں آپ کو کمرہ دکھا دوں۔ تاکہ چائے پینے کے بعد آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں۔“ اسے ساتھ لئے خانم اوپر آ گئی تھیں۔ کچھ دیر بعد وہ ہی ملازمہ چائے اور ٹیبلٹ لے آئی تھی۔ ان کے جانے کے بعد وہ پلنگ پر ڈھے گئی۔
”چاچو آپ نے کیا کچھ کھو ڈالا ہے۔“ نیند میں جانے سے پہلے اس کے ذہن میں آنے والا واحد خیال یہی تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ پلکیں موندے بے خبر سو رہی تھی۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi