Episode 6 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 6 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

اس کے دل میں وہ نفرت جو کہ بہت آہستہ آہستہ پنپ رہی تھی ایک دم جڑیں پکڑ کر تناور درخت بن گئی۔ اس کے سامنے تصویر کے جو رخ آئے تھے وہ بہت بھیانک تھے اس نے ان منفی پہلوؤں کو اپنے دل اور ذہن پر نہ مٹانے کیلئے نقش کر لیا تھا۔
مرینہ کی صحت اب قدرے بہتر تھی مگر اشفا روزانہ ہی اس کے فلیٹ میں آ جاتی۔ اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتی۔ تقریباً بیس پچیس دن بعد مرینہ بھی کام پر جانے لگی تھی۔
ابھی وہ مرینہ کی طرف سے پوری طرح مطمئن نہیں ہو پائی تھی کہ اچانک ماما کی طبیعت بگڑ گئی۔
ماما کی بیماری کے دوران اسے احساس ہوا تھا کہ ماما نے اسے اور پاپا کو کس طرح سنبھال رکھا تھا۔ ان کی غیر موجودگی میں پورے گھر کا نظام الٹ پلٹ ہو گیا تھا۔ کوئی بھی چیز اپنے ٹھکانے پر نہیں تھی۔

(جاری ہے)

ماما کی صحت بحال ہوئی تو انہوں نے پاکستان جانے کی رٹ لگا دی۔
پاپا ، ماما کی صحت کی وجہ سے جلدی جلدی کام سمیٹ رہے تھے۔ اشفا نے ماما کی ضد کی وجہ سے ایک دم ہی جاب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے چپکے چپکے اپنے تئیں کوششیں جاری رکھیں۔ ایک ماہ کے اندر اندر اسے ایک اچھی کمپنی سے جاب کی آفر ہوئی تو اس نے جوائن کرنے میں اک پل کی بھی دیر نہ کی۔ ماما کو اگرچہ بہت اعتراض تھا مگر پاپا نے نہ جانے کیا کہہ کر انہیں مطمئن کر دیا کہ پھر دوبارہ انہوں نے اس کی جاب کے متعلق کوئی بات نہ کی۔
اشفا کی روٹین کافی ٹف تھی۔ صبح صبح آنکھ کھلنے میں اتنی دیر لگ جاتی اور پھر تیاری بھی نامکمل سی ہوتی ، وہ اتنی آرام طلب تھی اور اب کہاں اسے اتنی محنت کرنا پڑ رہی تھی۔ صرف اور صرف پاکستان جانے سے بچنے کیلئے یہ جاب کا تکلیف دہ ڈھول اسے گلے میں لٹکانا پڑا تھا۔
صبح ہمیشہ وہ دیر سے آفس پہنچتی تھی۔ آج بھی گاڑی نے راستے میں کافی خوار کیا اور جب وہ دفتر پہنچی تو میٹنگ شروع ہو چکی تھی۔
آفس کے اصول کے مطابق میٹنگ روم میں اب اس کا داخلہ ممنوع تھا لہٰذا وہ متوقع بے عزتی سے بچنے کی خاطر اپنے کیبن میں آ کر بیٹھ گئی۔
میٹنگ تقریباً تین گھنٹے جاری رہی تھی۔ اس دوران اشفا کا سیروں خون خوامخواہ جلتا رہا۔ میٹنگ کے اختتام پر لنچ شروع ہو گیا اور اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر باس نے اسے آفس بلا کر بے بھاؤ کی سنائیں۔ جب وہ آفس سے نکلی تو منہ سوجا ہوا تھا۔
دل ہی دل میں اس گنجے جاپانی باس کو گالیوں سے نوازتے وہ پارکنگ میں آئی تو گاڑی کو غائب پایا۔
”ہیں… یہ گاڑی کہاں گئی۔“ اس نے فکر مندی سے ادھر ادھر دیکھا۔ پھر اچانک اسے یاد آیا کہ وہ گاڑی کی چابی نکالنا تو جلدی میں بھول گئی تھی لہٰذا وہ کسی چور اچکے یا پھر ایڈونچر کے شوقین مزاج انگریزوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ پولیس کو بتانے کا فائدہ نہیں تھا کیونکہ اب تک وہ لوگ گاڑی کے ٹائر وغیرہ اور قیمتی پارٹس اتار کر کسی سنسان سڑک پر چھوڑ کر چلے گئے ہوں گے۔
اشفا نے تھک ہار کر ٹیکسی کو اشارہ کیا اور پھر جلتی بھنتی گھر چلی آئی۔ ماما کو گاڑی کا بتا کر شامت بلوانے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا لہٰذا خاموشی میں ہی عافیت جانی۔
دوسرے دن اس نے تیاری کے دوران پاپا کو کہتے سنا۔
”کل بارہ بجے کی فلائٹ ہے ہماری ، تم اشفا کو بھی بتا دو۔“
”اشفا کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ میں نے اس کی بھی پیکنگ کر دی ہے۔
“ ماما نے لاپرواہی سے کہا تو اشفا سلگتے ہوئے ان کے سر پر پہنچ گئی۔
”ماما! میں پاکستان کیسے جا سکتی ہوں۔ نئی نئی جاب ہے ، چھٹی بھی ملنا مشکل ہے جبکہ…“
”ہمیں آپ کی اس نام نہاد جاب سے کوئی غرض نہیں۔ آپ کی ماما کی صحت ٹھیک نہیں ، لہٰذا آپ خوامخواہ انہیں ٹینشن نہ دیں۔“ پاپا نے نرمی سے اس کی گفتگو کو منقطع کرکے کہا تو وہ لب بھینچ کر رہ گئی۔
”مگر پاپا…“
”نواگر ، مگر۔“ وہ مسکراتے ہوئے بریف کیس اٹھائے باہر نکل گئے۔
”ماما! میرا جانا کیا بہت ضروری ہے؟“
”اشفا…“ انہوں نے خفگی سے اسے گھورا تو وہ پاؤں پٹختی باہر نکل گی۔ اس کا موڈ بری طرح آف تھا۔ کوئی بھی بہانہ کامیاب نہیں رہا تھا۔ وہ رات بھر سے لے کر پاکستان آنے تک ماما ، پاپا سے خفا خفا رہی۔
ایئر پورٹ پر کوئی بھی موجود نہیں تھا۔
کیونکہ پاپا نے انہیں آج کے دن آنے کا نہیں بتایا تھا۔ وہ لوگ کچھ دیر لاہور میں موجود اپنے ماموں کے گھر ٹھہرے رہے اور پھر وہ اور پاپا اکیلے گاؤں جانے کیلئے تیار ہو گئے کیونکہ ماما کو ماموں نے بضد اصرار روک لیا تھا۔
گاؤں پہنچنے تک بھی اس کا موڈ بگڑا رہا ہے۔ اپنے کزنز سے مل کر اسے قطعاً کوئی خوشی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ان سب کی محبت کے جواب میں اس کا رویہ خاصا سرد رہا تھا۔
جسے شاید سب اس کی جھجک محسوس کر رہے تھے۔
اس کے دادا حیات حسین کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔
سب سے بڑے تایا ابو تھے۔ ان کا ایک بیٹا مرتضیٰ اور دو بیٹیاں نمرہ اور ثانیہ تھیں۔رابعہ تائی ان کی دوسری بیوی تھیں انہی سے ان کی دو بیٹیاں تھیں جبکہ مرتضیٰ ان کی پہلی بیوی سے تھا جو کہ اس کی پیدائش پر وفات پا گئی تھیں۔
پھر نجمہ پھوپھو تھیں جو کہ بیوگی کے بعد اپنے والد کے گھر میں ہی اپنے چار بچوں ثمن ، سائرہ ، عاشر اور عامر کے ہمراہ مقیم تھیں۔
ان کے بعد ان کے پاپا ہارون حیات تھے۔ اشفا ان کی اکلوتی بیٹی تھی جو کہ ان کی شادی کے تقریباً سات سال بعد پیدا ہوئی۔ اگرچہ اس کے بعد دو مزید بھائی بھی ہوئے مگر وہ کم سنی میں ہی وفات پا گئے تھے۔
سب سے چھوٹے مرسلین چچا تھے۔ان کے دو بیٹے تھے۔ نقی اور تقی اور دو ہی بیٹیاں تھیں۔ مہوش اور عروبہ۔ مہوش سب سے بڑی تھی۔ انتہائی مغرور اور نک چڑھی سی یہ کزن تو اشفا کو سرے سے ہی پسند نہیں آئی تھی۔
ان کی آمد کے ساتھ ہی گھر میں اک عجیب سی ہلچل مچ گئی تھی۔ دادی اپنے جوڑوں کے درد کو بھلائے ملازموں کو مختلف ہدایات دے رہی تھیں۔ گھر میں مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی تھی۔ دوسرے دن ماما بھی خوب لدی پھندی سی چلی آئیں۔ سارا دن عجیب سی بھگڈر مچی رہی۔ اسے ماما سے تنہائی میں بات کرنے کی مہلت ہی نہ مل سکی۔ وہ جب بھی ان کے قریب جاتی کوئی نہ کوئی انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیتا۔
وہ دل مسوس کر رہ جاتی۔
ثمن اور سائرہ سے اس کی کافی دوستی ہو گئی تھی۔ لیکن آج کے دن تو وہ بھی کافی مصروف تھیں۔ اشفا غصے کے اظہار کے طور پر اپنے کمرے میں جا گھسی۔ اسی پل ماما کو بھی گویا فرصت مل گئی تھی اس کے پاس آنے کی۔ ماما نے آتے ہی والہانہ انداز میں اسے ساتھ لپٹا کر ماتھا چوما۔ نہ جانے کیوں ان کی آنکھیں سرخ اور بھیگی بھیگی سی محسوس ہو رہی تھیں۔
”میری بیٹی خفا خفا سی لگ رہی ہے۔“ ان کی آواز بھی قدرے بھرائی سی تھی۔ اشفا چونک سی گئی۔
”آپ کو میری خفگی کی پروا ہے؟“
”اتنی بدگمان کیوں ہو رہی ہو بیٹا! کیا والدین اولاد کیلئے کبھی غلط سوچ سکتے ہیں۔“ ماما نے نرمی سے اس کے الجھے بال سمیٹے۔ اشفا ایک مرتبہ پھر چونک سی گئی۔
”ماما! آپ واضح لفظوں میں بات کیوں نہیں کرتیں۔
یہ مبہم گفتگو میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔“
وہ ماما اور پاپا کے انداز دیکھ کر ٹھٹک گئی تھی۔ اس کی چھٹی حس بھی کچھ انوکھا ہو جانے کا پیغام دے کر اسے الرٹ کر رہی تھی۔
”ابھی کچھ دیر بعد تمہارا اور مرتضیٰ کا نکاح ہے۔“
”کیا…“ اشفا چلا اٹھی تھی۔
”آہستہ…“ ماما نے نرمی سے اس کا ہاتھ دبایا تو وہ ان کا ہاتھ جھٹک کر بے یقینی کے عالم میں انہیں دیکھتی رہ گئی۔
”آپ ایسا نہیں کر سکتیں ماما۔ آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتیں۔“
”ابھی کچھ دیر بعد مولوی صاحب تمہاری رضا مندی معلوم کرنے کیلئے آنے والے ہیں۔ اسی لئے تمہیں بتایا ہے۔ خوامخواہ شور مت کرو۔ ہونا وہ ہی ہے جو میں اور تمہارے پاپا چاہیں گے۔“ انہوں نے ازلی نرم لہجے میں کہہ کر گفتگو کو سمیٹا تو اشفا حیرت ، دکھ ، صدمے کی وجہ سے گنگ ہی رہ گئی تھی۔
”ماما! میں آپ کی بیٹی ہوں۔ کوئی گائے بھینس نہیں کہ جس کھونٹے سے باندھا بندھ گئی۔ آپ میری مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتیں۔“

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi