Episode 47 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 47 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

قطرہ قطرہ دل میں آنسو گرتے ہیں
اک آنسو اس شخص کا‘ جو بے گانہ ہے
اک آنسو اس نام کا‘ جو ہم لے نہ سکے
اک آنسو اس دعا کا‘ جو پوری نہ ہوئی
ایک فضول سی بات کہ جو بیسود کہی
اک آنسو اس چہرے کا‘ جو یاد رہے
آنکھوں کے رستے جو دل میں اتر جائے
اک آنسو اس ٹھہرے ٹھہرے لہجے کا
اک آنسو اس وہم کا‘ ذہن میں جو آیا
اک آنسو اس جھوٹ کا‘ جو اوروں سے کہا
پھیکی ہنسی سے کیسے قصہ ختم کیا
لمحہ لمحہ رات گزرتی جاتی ہے
قطرہ قطرہ دل میں آنسو گرتے ہیں
فہمیدہ ریاض کی نظم نے ان کی قفل زدہ دل کو کھول کر قطرہ قطرہ پگھلا دیا تھا۔
وہ ڈائری کو سینے سے لگائے رو رہی تھیں۔ ان کے دائیں ہاتھ میں سفید کاغذ تھا جو ہوا کے زور سے پھڑپھڑاتا ہوا ان کی بے جان انگلیوں سے پھسل کر اڑ گیا۔

(جاری ہے)

اندر آتے شاہ نور نے حیرانی کے عالم میں پہلے ماں اور پھر پیروں کے پاس گرے کاغذ کو دیکھا۔ اس نے جھک کر کاغذ کو اٹھا لیا تھا۔

”ڈیئر شاہ نور۔“ اس کی نگاہیں تحریر پر پھسلتی جا رہی تھیں۔
”میں جا رہی ہوں۔
اک نہ ختم ہونے والی اذیت ، ہجر کا غم اور چند آنسو میرے ہم سفر ہیں۔ ان چیزوں کے ساتھ ہی اب باقی کی زندگی گزارنی ہے۔
میں کہاں سے چلی تھی اور میرا سفر کہاں آکر ختم ہوا۔ اس مسافت نے میری جھولی میں کیا ڈالا ہے۔ یہ اک الگ داستان ہے۔
کچھ ایسی تلخ حقیقتیں جو میں تم کو بتانا چاہتی ہوں اگر تم میری بات سن لیتے تو مجھے اس تحریر کا سہارا نہ لینا پڑتا۔
میں تم کو فراز سکندر کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں جو کہ تمہارا بدنصیب باپ ہے۔ جو تمہارے نزدیک انتہائی گھٹیا‘ ذلیل اور بدترین شخص ہے۔ وہ فراز سکندر جس کے بغیر کسی بھی محفل کے رنگ اپنی چمک دمک کھو دیتے تھے۔ جو انتہائی زندہ دل اور خوش مزاج انسان تھا۔ جس کے دوستوں کی تعداد شاید خود اسے بھی نہیں معلوم نہیں تھی اور جسے تمہاری ماں پشمینہ خانم سے عشق تھا اور اس عشق کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے اپنے اوپر زندگی کی ہر خوشی حرام کر لی تھی۔
اس نے خود کو بند کمرے میں قید کرکے زندگی کے رنگوں سے نگاہ چرا لی تھی۔ صرف ایک عہد کو نبھانے کیلئے اس نے تم دونوں سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے اپنی ماں سے کیا وعدہ پورا کر دیا۔ پلٹ کر ان راستوں کی طرف کبھی دیکھا بھی نہیں۔
وہ ہی گھٹیا ذلیل شخص تمہارا نام لے لے کر زندگی کی بوجھل سانسیں پوری کر رہا ہے۔ وہ کبھی بھی تمہارے وجود سے غافل نہیں رہا۔
تم دونوں کی یادوں کے سہارے ہی تو وہ ابھی تک زندہ ہے۔
اسے تمہاری پیدائش کی خبر تمہاری گل مینا آنٹی نے دی تھی اور اس نے اپنے کمرے کو تمہاری خوشبو سے ہی مہکا لیا۔ اگر وہ تم دونوں کو بھلا چکا ہوتا تو ہر مہینے گل مینا آنٹی کے ایڈریس پر ڈھیروں روپے کیوں منی آرڈر کے ذریعے بھیجتا۔ تمہاری میز پر وہ تمام رسدیں پڑی ہیں ان پر لکھی تاریخیں دیکھ لو اور گل مینا آنٹی سے تصدیق بھی کر لو۔
میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں نے خانم سے جھوٹ بولا تھا۔ میں صرف اور صرف خانم کو اور تم کو اصل حقیقت بتانے کیلئے آئی تھی۔ تم لوگوں کے دلوں پر جمی بدگمانی کی گرد جھاڑنا چاہتی تھی میں۔ گل مینا آنٹی نے مجھے تمہارا ایڈریس نہیں دیا تھا اور میری خوش قسمتی دیکھو کہ ان ہی گلیوں میں میرا تم سے ”ٹاکرا“ ہو گیا۔
نہ جانے کب ، کیوں اور کیسے میں تمہیں چاہنے لگی تھی۔
تم سمجھتے ہو میں نے تمہارے ساتھ دھوکا کیا ہے میری محبت بھی ڈھونگ اور ڈرامہ ہے۔ تمہیں یقین دلانے کیلئے میں صرف اتنا کہوں گی کہ جب کبھی زندگی کے کسی موڑ پر فرصت کے لمحات میں میرے شہر میرے گھر کے آنگن میں آنا ، تمہیں اسی مقام پر کھڑی نظر آؤں گی جہاں کبھی فراز چاچو نے عمر کی پونجی کو لٹایا تھا۔“
اس نے دھند لائی نظروں سے ایک مرتبہ پھر تحریر کو پڑھا اور پھر شکستہ قدموں سے چلتا ہوا ماں کے قریب آیا۔
”شاہ نور! مجھے اسلام آباد لے چلو۔“ پشمینہ کی آواز سرگوشی سے زیادہ بلند نہ تھی۔
######

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi