Episode 2 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 2 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

                               میں ہاری پیا

ائیر پورٹ کی پر شکوہ عمارت بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ گاڑی اب کھلی شفاف سڑک پر رواں دواں تھی۔ سفید نئے ماڈل کی کرولا کا اسٹیرنگ اس کے ہاتھوں میں تھا۔ یہ گاڑی پاپا کے دوست کی بیٹی سویرا نے اس کے آنے سے پہلے ہی خریدی تھی۔ ابھی آدھا گھنٹہ پہلے وہ سویرا کو بھاری بھرکم رقم کا چیک پکڑا کر آئی تھی۔
وہ شروع سے ہی آرام طلب تھی۔ لوکل بسوں اور ٹیکسیوں کے سفر سے اسے شروع سے ہی نفرت تھی بلکہ اسے تو اس جگہ سے بھی نفرت تھی جہاں اس وقت وہ خود اپنی مکمل دلی رضا مندی کے ساتھ جا رہی تھی۔
”بھلا ایسے … ہو سکتا ہے کہ اشفا ہارون کا دل پلٹ جائے۔“ بہت سال پہلے کی یہ بات تو نہیں کہ ”حیات آباد“ کے مکین اس کے حقارت میں کہے گئے ان الفاظ کو بھلا چکے ہوں بلکہ وہ تو یقینا اسے اپنے گھر دیکھ کر اور یہ جان کر کہ اشفا ہارون اب ہمیشہ کیلئے یورپ کے سحر سے آزاد ہو کر ان کے درمیان رہنے کیلئے آ گئی ہے اس کا بھرپور تمسخر اڑائیں گے۔

(جاری ہے)

وہ ان تمام راستوں سے انجان ہونے کے باوجود ایک مرتبہ بھی راستہ نہیں بھولی تھی۔ اونچے نیچے راستوں سے گزرتے ہوئے اس کی بے قرار نگاہیں سبز پینٹ کئے بورڈ سے ٹکرائیں تو دل اک پل کیلئے دھڑکنا بھول گیا۔
”ڈیرہ مرتضیٰ حیدر۔“ وہ کئی لمحے ان افاظ کو زیر لب دہراتی رہی تھی۔ چھ سال پہلے وہ اس شخص سے شدید ترین نفرت کرتی تھی مگر اب چھ سال بعد یہ دل اسی ایک شخص کی محبت سے لبریز تھا۔
”اگر اسے مرتضیٰ حیدر سے ہی محبت ہونا تھی تو یہ محبت چھ سال پہلے کیوں نا اس کے دل میں انگڑائی لے کر جاگی۔“ یہ ایسا سوال تھا جو وہ پچھلے کئی مہینوں سے خود سے کر کرکے تھک چکی تھی۔
اسے یاد تھا پہلی مرتبہ اسی سڑک پر پسینے سے شرابور میلے کپڑوں میں ملبوس مرتضیٰ حیدر سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اشفا کے پاپا بھی اس کے ہمراہ تھے۔
پاپا نے ہی مرتضیٰ کو پہچان کر گاڑی رکوائی اور پھر بڑے تپاک سے مرتضیٰ کو گلے سے لگایا۔ مرتضیٰ نے ٹریکٹر کے انجن کو بند کیا اور پھر سفید پگڑی نما چادر جو کہ شاید دھوپ سے بچنے کیلئے سر اور چہرے کو ڈھانپنے کی غرض سے لی تھی سے اپنا بے حد سرخ سفید چہرہ صاف کیا۔
”آپ گھر چلیں چچا جان! میں ابھی آتا ہوں۔“ مرتضیٰ نے بابا کو مخاطب کرتے ہوئے اک بھرپور نگاہ اس پر بھی ڈالی تھی۔
اشفا کا کوفت و جھنجھلاہٹ سے رواں دواں سلگ اٹھا۔ اسے اپنا یہ کزن قطعاً پسند نہیں آیا تھا بلکہ اسے تو حیات آباد میں بسنے والے مکینوں میں سے کوئی ایک بھی قابل توجہ نہیں لگا تھا اور اس وقت وہ ان سب سے ملنے کیلئے بے تاب تھی۔ اس کی آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھیں۔ اک نرم گلابی ننھا وجود ، اس کے نقش بھی اس نے غور سے نہیں دیکھے تھے بار بار کھلکھلاتا ہوا نگاہوں کے سامنے آتا وہ بے چین ہو کر گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دیتی۔
”تم کتنی سنگدل ماں ہو۔“ کوئی اس کے کان کے قریب چلایا تو اشفا نے بے ساختہ اپنے سرخ چمکیلے لبوں کو کچل ڈالا۔
”میرا بچہ ، میری جان ، میرا شازم۔“ اس کے دل میں ممتا کے سوتے پھوٹ پڑے تھے۔ اس ممتا ، محبت کو اس نے نفرتوں کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ ایک مرتبہ نمرہ نے کہا تھا کہ ”اشفا تم بہت خود غرض ہو۔“ اور اشفا نے تو بہت عرصہ پہلے ہی اپنی خود غرضی کو تسلیم کر لیا تھا۔
وہ بہت خود غرض تھی ، مغرور تھی ، خود پسند تھی۔ بے حد ضدی، ہٹ دھرم اور جذباتی تھی۔ ان تمام خوبیوں نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا تھا۔ جہاں پچھتاوے ڈسنے لگتے ہیں۔ اس کی سوچوں کو اس وقت بریک لگا جب گاؤں کی حدود اور کچے پکے مکانوں پر نگاہ پڑی۔ حیات محمد کا وہ بہت وسیع و عریض احاطے والا گھر قریب آیا جس کے اندرونی حصے میں بے شمار کمرے اور برآمدے تھے تو اس کا دل نئے سرے سے دھڑک اٹھا۔
یہ بہت بڑا گھر ڈھیروں محبتوں کو سموئے بانہیں پھیلا کے کھڑا تھا مگر چھ سال پہلے وہ اس گھر کو ٹھوکر مار کر اور ان محبتوں سے منہ موڑ کر خود چلی گئی تھی اور آج وہ پھر اسی دروازے پر کھڑی گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھی۔
لکڑی کا بڑا سا دروازہ بند تھا اور اشفا کے ہاتھ دستک کیلئے اٹھ نہیں رہے تھے۔ نہ جانے کتنا وقت گزر گیا ،وہ یونہی چلچلاتی دھوپ میں ہر شے سے بے نیاز کھڑی رہی اور پھر تمام ہمتوں کو جمع کرکے اس نے دروازے کو دھکیلا تو وہ خود بخود ہی کھلتا چلا گیا۔
وہ لڑکھڑاتے قدموں سے چل رہی تھی۔ اندرونی دروازے کے قریب اس کے قدم ایک دفعہ پھر زنجیر پا ہو گئے۔
”کیا یہ لوگ مجھے قبول کریں گے۔ تمام تر نافرمانیوں ، من مانیوں اور بدتمیزیوں کے باوجود مجھے ایک دفعہ پھر سینے سے لگا لیں گے، کیا اس گھر کی طرح ان کے ظرف بھی وسیع ہیں۔“ یہ وہ سوال تھے جن کے جواب کم از کم اسے اس وقت بھی نہیں مل رہے تھے جب وہ امریکہ میں ان لوگوں کی یاد اور شازم سے ملنے کیلئے تڑپ رہی تھی۔
ان چار مہینوں کے اندر اندر وہ یعنی اشفا ہارون سر تاپا بدل گئی تھی۔
اس کا دل کیا بدلا ، سوچ اور نظریات تک بدل گئے۔ اتنے برسوں سے وہ جس ماحول کا حصہ رہی تھی ایک دم ہی وہ ماحول اجنبی اور پرایا پرایا لگنے لگا تھا اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے آشیانے کی طرف اڑ کر پہنچ جائے مگر بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے اسے کچھ عرصہ مزید وہاں رکنا پڑا تھا۔
پاپا کا اتنی محنت ، جدوجہد اور انتھک کوششوں سے بنایا گیا وہ مختصر سا ہوٹل بیچ کر اور اپنے بے حد پیارے گھر کو فروخت کرکے وہ اندر سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس گھر میں اس کی بے حد سیدھی اور معصوم سی ماما کی ڈھیروں یادیں تھیں۔ اس کا بچپن اور لڑکپن تھا مگر وہ محض یادوں کے سہارے جینا نہیں چاہتی تھی۔ حقیقی خوشیوں کو پانے کیلئے ہی تو وہ پلٹ آئی تھی ، لوٹ آئی تھی مگر نہ جانے یہ مسرتیں اسے میسر آتی تھیں بھی کہ نہیں۔
سفر کی تھکان اب آنکھوں میں سمٹ آئی تھی۔ وہ دودھیا گداز مخروطی انگلیوں والے ہاتھوں سے آنکھیں دباتے ہوئے دروازے کا ہینڈل گھمانا چاہ رہی تھی جب ایک دم ہی اندر سے کسی نے دروازہ کھول دیا تھا اور یہ کوئی اور نہیں مہوش تھی۔ جو کہ نہ جانے کتنے ہی رنگ آنکھوں میں لئے یک ٹک اشفا کو دیکھے جا رہی تھی۔
اشفا نے جھجک کر مہوش کے چہرے کی طرف دیکھا۔
مہوش کے چہرے سے سرخی چھلکنے لگی تھی جبکہ آنکھوں میں نفرتوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا۔
حیرت ،بے یقینی اور اس کے بعد بے تحاشا ناگواری و نفرت کے اس استقبال نے اشفا کی رہی سہی ہمت کو بھی نچوڑ دیا تھا۔
”کیا لینے آئی ہو یہاں۔“ مہوش نے زہریلے لہجے میں کہا۔
”مم…میں تم سب سے ملنے ،میرا مطلب ہے کہ شازم۔“ اشفا! اس کے سخت الفاظ پر ہکلا کر خاموش ہو گئی تھی۔
اس کا ازلی اعتماد ایک دم اڑنچھو ہو گیا تھا۔ اُسکی تمام تر بہادری اور بے خوفی اس وقت صرف ایک ہی ”خوف“ کے زیر اثر تھی کہ یہ لوگ مجھے دھتکار نہ دیں۔ ٹھکرا نہ دیں ، کیونکہ شفا ہارون اب کے تمام کشتیاں جلا کر آئی تھی۔
”دفع ہو جاؤ یہاں سے اپنا غلیظ وجود لے کر۔ نفرت ہے مجھے تم سے، اگر غیرت ہوتی تم میں تو کبھی لوٹ کر نہ آتیں مگر تم جیسی عیاش امیر زادیاں بے غیرتی میں ڈگری لئے پھرتی ہیں۔
“ مہوش نے دبی آواز میں چیخ کر کہا اور پھر غراتے ہوئے اشفا کو دھکا دیا۔ وہ لڑکھڑا کر کچھ قدم پیچھے ہٹ گئی تھی۔”نکل جاؤ اس گھر سے ، تمہاری اب یہاں جگہ بالکل نہیں ہے۔“مہوش دو سیڑھیاں مزید نیچے اُتر کر غرائی اور پھر اس کا گداز ملائم بازو اپنے شکنجے میں جکڑ کر ایک دفعہ پھر جھٹکا دے کر بولی۔
”اس گھر میں سب تم سے نفرت کرتے ہیں۔ مر چکی ہو تم سب کیلئے، مرتضیٰ تمہاری شکل پر تھوکے گا بھی نہیں۔
کس آس ، کس امید پر آئی ہو۔ نکلتی ہو یا لگاؤں دو ہاتھ۔“ مہوش تو بپھڑی شیرنی کی طرح گویا اس پر جھپٹنے کیلئے تیار بیٹھی تھی۔ اتنی توہین ،اس قدر بے عزتی۔ اشفا کے سفید گال تپ اٹھے ،آنکھیں گلابی سے سرخی مائل ہو گئیں۔
”مم ، مجھے شازم سے ملنے دو۔“ اس نے لڑکھڑائی آواز میں کہا تو مہوش ایک مرتبہ پھر چنگھاڑی۔
”کون شازم! کوئی تعلق نہیں تمہارا شازم کے ساتھ ، اب دفع ہو جا۔
ورنہ بالوں سے گھسیٹ کر باہر پھینک آؤں گی۔جا چلی بھی جا۔“ مہوش کو یہ بھی خوف تھا کہ اندر سے دادی یا تائی میں سے کوئی اٹھ کر نہ آ جائے۔ کسی کے بھی آنے سے پہلے وہ اس عذاب کو نکال دینا چاہتی تھی۔
”میں چلی جاتی ہوں ، مگر مجھے میرے بچے سے ملنے دو۔ میں ایک مرتبہ اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔“ آنکھوں سے بہتے آنسو ، لبوں پر التجا مگر سامنے کھڑی عورت نہ دیکھ رہی تھی نہ سن رہی تھی۔
وہ بس جلد از جلد اسے گھر سے نکال دینا چاہتی تھی مگر کیوں؟
اشفا کے حواس ٹھکانے ہوتے یا پھر وہ پہلے والی حد درجہ حاضر جواب ،منہ پھٹ اور بااعتماد اشفا ہوتی تو ایک مرتبہ ضرور مہوش سے سوال کرتی کہ میرا اس گھر کے مکینوں سے کچھ اور بھی رشتہ ہے اور میں بھی اس گھر میں تمہاری طرح برابر کے حصے دار ہوں مگر اس کے لبوں پر تو قفل لگ چکے تھے۔
اس کی خاموشی التجاؤں کا مہوش پر قطعاً کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ اشفا نے تھکی تھکی نگاہ اس کے پتھریلے تاثرات والے چہرے پر ڈالی اور پھر لرزیدہ قدموں سے پلٹنے لگی۔ اسی پل بیرونی دروازے کھلا تایا ابا اپنی ہی دھن میں اندر آئے اور پھر ٹھٹک کر رک گئے۔
سامنے آنسوؤں سے تر چہرے لئے اشفا کھڑی تھی۔ان کی بھتیجی اشفا، ان کے پیارے بھائی کی اکلوتی بیٹی اور ان کی بہو تھی۔
ان کے لرزیدہ وجود میں حرکت ہوئی اور پھر انہوں نے آگے بڑھ کر اشفا کو سینے سے لگا لیا۔ وہ بھی تایا ابا کے مہربان سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
”اشفا! تم نے آنے میں کیوں اتنی دیر کر دی؟“ ان کے کانپتے ہاتھ اس کا سر تھپتھپا رہے تھے۔
”کیوں چلی گئی تھیں تم بغیر بتائے۔ تمہیں ہماری محبتیں بھی نہ روک سکیں ،شازم کے وجود نے بھی تمہارے قدموں کو زنجیر نہ کیا اور مرتضیٰ…“تایا ابا کی سفید داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی تھی۔
اس کا سر اور ماتھا چومتے ہوئے وہ بہت رنجیدہ تھے۔
”اور مرتضیٰ۔“ اشفا نے کچھ خوفزدہ سے انداز میں ان کے سینے سے سر اٹھایا۔
”مرتضیٰ تمہارے منہ پر تھوکے گا بھی نہیں۔“
مہوش سامنے کھڑی تمسخرانہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو کہ تایا ابا کے بازو کے حلقے میں لڑکھڑاتے ہوئے بمشکل اپنے وجود کو گھسیٹ رہی تھی۔
                                       ###

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi