Episode 7 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 7 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”تم ہماری اکلوتی بیٹی ہو اشفا! ہماری امیدوں ، تمناؤں کا واحد مرکز،یہ خواب ، یہ خواہش میری ہی نہیں تمہارے باپ کی بھی ہے ،اس خواب کا تعلق تمہارے تایا اور دادی سے بھی ہے۔ کیا تم ہماری محبتوں ، چاہتوں کا صلہ یہ دو گی۔ کیا تم بھری برادری کے سامنے اپنے باپ کے سر کو جھکا دو گی۔ کیا تم ان سب کے ان خدشات پر مہر لگاؤ گی۔ کیا تم اپنے عمل سے یہ ثابت کرکے دکھاؤ گی کہ یورپ میں پلنے والی ساری اولادیں اسی طرح نافرمان ، ضدی اور بدلحاظ ہوتی ہیں۔
کیا تم میری تربیت کا مذاق بناؤ گی۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو اللہ کی قسم تم اپنی ماں کا چہرہ عمر بھر نہ دیکھ سکو گی۔ اتنی ذلت کے بعد میں جی کر کروں گی بھی کیا۔ لوگ تھوکیں گے مجھ پر کہ یہ تربیت کی ہے میں نے اپنی اکلوتی اولاد کی۔ مجھ سے ایک بچی کی پرورش بھی نہ ہو سکی۔

(جاری ہے)

“ عطیہ کی آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھیں۔ ان کی آواز رندھ چکی تھی۔ شاید مزید بولنے کی ان میں سکت نہیں رہی تھی۔


اسی پل دروازہ کھلا اور پاپا دھیمے قدموں سے چلتے ہوئے اندر آئے۔ ان کے پیچھے تایا ابو اور دو اور بھی بزرگ آدمی تھے۔ اشفا کو لگا کہ پھانسی کا پھندا اس کی گردن کے قریب کسا جا رہا ہے۔اسے سولی پر چڑھانے کیلئے لوگ آ چکے تھے۔
اس کے اندر نفرتوں کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ یہ ڈرامہ بہت خوش اسلوبی سے کھیلا گیا تھا۔اسے بے وقوف بنا کر سب ہی ہنسی خوشی ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔
اس نے باپ کے چہرے کی طرف دیکھنا چاہا تو آنسوؤں کی دھند نے ہر منظر دھندلا دیا۔ اس کی جی چاہ رہا تھا وہ ابھی اٹھے اور چیخ چیخ کر سب کو بتائے کہ ان لوگوں نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ یہ شادی سراسر فراڈ ہے۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کے سگے ماں ،باپ اس کے ساتھ ایسا کریں گے۔ پہلے اسے ان لوگوں کی چاہتوں اور جھوٹی محبتوں کا بہلاوا دے کر پاکستان لائے اور پھر زبردستی اپنے پینڈو ،اجڈ بھتیجے کے ساتھ اپنی اتنی لائق اور قابل بیٹی کا نکاح کر دیا۔
ماما کی طرح پاپا نے بھی جذباتی بلیک میلنگ کا سہارا لے کر اس کی زبان پر زبردستی تالا لگانا چاہا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ اشفا کی تمام سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ گئی تھیں۔ حتیٰ کہ اسے تو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آنسو بہانا بھی یاد نہیں رہا تھا۔ وہ ٹکر ٹکر ان کی صورتیں دیکھتی رہی۔ احتجاج اور بغاوت کے متعلق ذہن نشین تمام باتیں اس کا منہ چڑاتی رہیں۔
”اگر میں امریکہ میں ہوتی تب بھی یہ لوگ میرے ساتھ ایسا کرتے؟“ اس نے حیرت و بے یقینی سے خود سے سوال کیا۔
”ابھی تو مجھے یہاں آئے دو دن بھی نہیں ہوئے اور ماما نے کتنی چالاکی سے تمام ڈرامہ رچا لیا ہے۔ اب کتنی خوش اور مطمئن لگ رہی ہیں۔ دنیا کی ساری مائیں کیا ایسی ہوتی ہیں۔ ظالم اور روڈ۔“ اس نے اذیت سے لب کچلے تو نچلے ہونٹ سے خون کی بوند ٹپک پڑی۔
”کیا میں اب اپنی ساری زندگی اس پرانے طرز پر بنے کھنڈر مکان میں روتے ، تڑپتے گزار دوں گی۔“ اشفا کا دل اک پل کیلئے اتھاہ گہرائی میں ڈوب گیا تو وہ بے ساختہ نفی میں سر ہلانے لگی۔
”نہیں ، کبھی نہیں۔“
”ایک کھیل ان لوگوں نے میرے ساتھ کھیلا ہے اور ایک کھیل میں ان لوگوں کے ساتھ کھیلوں گی۔“ اس نے تنفر سے سر جھٹکا۔
”شطرنج کی بساط تو ان لوگوں نے بچھائی ہے۔
مہرے بھی اپنی مرضی سے رکھ لئے۔ اب گیم کے اختتام کا انتظار کریں۔ہار جیت کا فیصلہ تو ابھی ہونا باقی ہے۔“وہ سرخ آنکھیں لئے بڑے بے خوفی کے عالم میں سوچ رہی تھی۔
”میں اب تمام عمر ان جاہلوں کے ساتھ رہوں ،جو بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں لے کر عالم فاضل بن کر بیٹھ گئے ہیں اونہہ…“ اشفا نے غصہ سے اپنے بال نوچے۔
”ماما! میرا معیار کیا اتنا گھٹیا تھا جو آپ نے میرے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیا ہے۔
“وہ ایک مرتبہ پھر ماں سے متنفر ہو کر سوچ رہی تھی۔
”آپ کیسی ماں تھیں کہ بیٹی کی خواہش کا آپ کو پتا نہیں چل سکا۔ کیا میں نے ایسی زندگی کی تمنا کی تھی۔“ پہلی مرتبہ ایک سرکش آنسو آنکھ کے کنارے سے پھسل پڑا تھا۔
”میں نے اپنی زندگی کا اختیار آپ کو دیا تھا آپ نے اسے بڑے ناجائز انداز میں استعمال کر ڈالا ہے۔ کیا میں نے ایسے آدمی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جو دن بھر زمینوں پر ٹریکٹرچلائے ، میرا آئیڈیل یہ ہے کیا۔
ایک انتھک محنت کرنے والا کسان۔“ اس کا پورا وجود زہر زہر ہو رہا تھا۔
”میں ایسے آدمی کے ساتھ زندگی گزاروں جو اچھے مستقبل کا لالچ لئے روشنیوں کی دنیا میں جانے کا خواہشمند ہو۔“ اس کے سامنے مرینہ کی ویران آنکھیں اور بے رنگ زندگی کے مناظر لہرائے۔
”ان لوگوں کے جو خواب ہیں وہ تو میں کبھی بھی پورے نہیں ہونے دوں گی۔“ اشفا نے اک عزم سے سوچا۔
”ابھی تو پاپا نے ماما کی بیماری کا ڈراوا دے کر زبردستی کر لی ہے مگر آئندہ زندگی میں میں کسی کو اپنے اوپر اختیار نہیں دوں گی اور وہ دبوسا مرتضیٰ ، بھلا اس کی کیا جرأت ہے۔ میں اس کے ہاتھ توڑ دوں گی اگر اس نے مجھے چھوا۔“
اسے پاکستان آئے ابھی بیالیس گھنٹے نہیں ہوئے تھے اور تمام عرصے میں اس نے صرف ایک مرتبہ گاؤں کی کچی پکی سڑک پر پسینے سے شرابور میر مرتضیٰ کو دیکھا تھا اور اس وقت وہ اسی مرتضیٰ کے متعلق اندازے لگائے بڑے بڑے پلان سوچ رہی تھی۔
اس بات سے بے خبر کہ وہ کوئی لکی جیسا کمزور اور ڈرپوک بندہ نہیں اور نہ ہی یاسر جیسا بزدل ہے جو اشفا کی گالیوں کے جواب میں بھی من من کرتا رہے گا۔ وہ لکی نہیں تھا جو سہاروں کی تلاش میں نیویارک کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا۔
وہ یاسر بھی نہیں تھا جو گرین کارڈ کے لالچ میں ایک لڑکی نہیں بلکہ کئی لڑکیوں کے جذبات و احساسات سے کھیلتا رہا تھا۔
وہ تو محمد میر مرتضیٰ حیدر تھا جس کے قدموں کی دھمک سے زمین لرز اُٹھتی تھی۔ وہ اپنے بابا میر حیات حیدر کا ولی عہد اور قریب قریب کے تمام گوٹھوں کے بسنے والوں کے دلوں پر راج کرنے والا میر مرتضیٰ تھا۔
اس گاؤں میں نہ کوئی چوہدری تھا نہ رعایا۔ سب انسان برابر تھے۔ سب کسان محنتی تھے ،سب زمیندار جرأت مند تھے۔
میر مرتضیٰ میں اور اس کے مزارعے دین محمد میں کوئی فرق نہیں تھا۔
یہ فرق میر نے اس بھادوں کی سہانی شام کو منا ڈالا تھا جب اس کے بابا نے اس کے سر پر اپنی دستار رکھ دی تھی۔ اسے اس دستار کا بھرم رکھنا تھا۔
اس نے پشت ہا پشت سے قائم دائم بہت ہی پرانی فرسودہ روایات کو توڑ ڈالا۔اس نے گاؤں میں اسکول کی بنیاد رکھی۔
اس نے نہری پانی کو انصاف کے ساتھ زمینداروں اور مزارعوں کے مختصر رقبوں میں دنوں کے حساب سے تقسیم کرکے اس بے انصافی کو منایا۔
اس نے چھوٹے زمینداروں کو اپنے بل بوتے پر ٹیوب ویل لگوا دیئے۔
یہ وہ میر مرتضیٰ تھا جب زمینوں کے دورے پر کبھی دوسرے گوٹھ جاتا تو لوگ اس کا استقبال اتنا شاندار کرتے گویا وہ کسی ریاست کا شہنشاہ ہے۔
اور مائی میراں تو کہتی تھی کہ میر واقعی ہماری ریاست کا شہنشاہ ہے۔ میر جب بھی گوٹھ جاتا۔مائی میراں کی جھگی میں چند لمحوں کیلئے ضرور ٹھہرتا اور پھر مائی میراں اپنے اپنا پسندیدہ گیت سناتی۔
اگرچہ وہ بوڑھی ہو چکی تھی مگر اس کی آواز میں جوانی جیسی تازگی اور رس تھا۔ اتنی رسیلی آواز شاید ہی کسی کی ہو۔
اے راجہ حسن دا، صدا راج مانے
کدی پھیرا پاول، غریباں دے ڈیرے
مائی خاص اس کیلئے میٹھے پانی کی تازہ مچھلی منگواتی۔ اسے اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی اور گھی میں تلنے کے بعد نمک لگا کر اس کے سامنے پیش کرتی۔
اور اس وقت مکرم جان کی آنکھیں حیرت سے اُبل پڑتیں جب مرتضیٰ بہت شوق سے مچھلی کو اُبلے چاولوں کے ساتھ تناول کرتا۔
کیا مکرم جان جانتا نہیں تھا کہ میر مرتضیٰ کو مچھلی کی بو کتنی ناپسند ہے۔
مائی میراں ایک مرتبہ پھر پنجابی کا اپنا پسندیدہ گیت گنگناتی۔
ہے راجہ حسن، صدا راج مانے
کدی پھیرا پاول، غریباں دے ڈیرے
وہ سوچوں میں گم ابھی تک گم سم سی بیٹھی تھی جب سائرہ ، ثمن اور نمرہ بھاری پیکٹ اٹھا کے ہنستی مسکراتی کمرے میں داخل ہوئیں۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi