Episode 43 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 43 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”آنٹی! میں آ جاؤں۔“ عرش نے خانم کے کمرے میں جھانک کر کہا تھا۔
”ہاں بیٹے کیوں نہیں…“
”شاہ نور کہاں ہے۔ آنٹی۔“وہ ان کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔
”شہر گیا ہے۔“ وہ مختصر بتا کر کپڑے تہہ کرنے لگی تھیں۔ عرش بد مزا سی ہو کر اٹھ گئی۔ انہوں نے اپنے کپڑے سمیٹ کر الماری میں رکھے اور شاہ نور کے کپڑے اس کے کمرے میں رکھنے کیلئے چل دیں۔
کمرے کی حالت کافی ابتر تھی۔
”لگتا ہے پری چہرہ نے صفائی نہیں کی۔“ وہ بڑبڑاتے ہوئے چیزیں سمیٹنے لگی تھیں۔ بیڈ شیٹ بدلی  جوتے موزے اٹھائے  تولیہ دھوپ میں پھیلایا۔ کتابیں اٹھا کر رائٹنگ ٹیبل پر رکھیں۔ اسی پل ان کی نگاہ سیاہ جلد والی اس ڈائری پر پڑی تھی۔ انہوں نے کچھ حیرانی کے عالم میں سے اٹھایا۔ ڈائری کے ساتھ بہت سے منی آرڈر کی رسیدیں اور ڈھیر سارے خطوط پڑے تھے۔

(جاری ہے)

ان کا دل بے اختیار دھڑکا تھا۔ ڈائری کے اوپر بڑے بڑے حروف میں لگے ”پشمینہ فراز“ کے حروف دیکھ کر وہ گویا ساکت رہ گئی تھیں اس قدرے بوسیدہ ڈائری کو سینکڑوں  ہزاروں ڈائریوں میں سے وہ پہچان سکتی تھیں۔ یہ ڈائری فراز کی تھی اور اس پر نام انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا۔
”یہ ڈائری یہاں کیسے آئی ہے“ انہوں نے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھتے ہوئے سوچا۔
ان کے ذہن میں کلک سے کچھ روشن ہوا تھا۔ انہوں نے رحاب کو شاہ نور کے کمرے میں جاتے دیکھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی چیز بھی تھی اور سفید رنگ کا لفافہ بھی تھا۔
”تو کیا رحاب نے یہ ڈائری یہاں رکھی ہے“ انہوں نے وحشت زدہ ہو کر لرزیدہ ہاتھوں سے ڈائری کو کھولا۔ ڈائری میں موجود ان کی اور فراز کی شادی کی تصویر کون کون سے زحم ادھیڑ گئی تھی۔
انہوں نے بے اختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔ آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر گرے تھے۔ انہوں نے آنکھوں میچ کر گویا ماضی سے نگاہ چرانے کی کوشش کی تھی۔ مگر اک فلم سی تھی جو ذہن کی اسکرین پر چلنے لگی تھی۔
وہ پہلی مرتبہ بابا کے ہمراہ ایبٹ آباد آئی تھی۔ بابا کے دوست رب نواز نے بہت اصرار کے ساتھ انہیں اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی تھی بلکہ رب نواز نے تو بابا کو اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ پشمینہ ان کے گھر رہ کر پڑھے۔
نواز چچا کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا۔ ان کی دو بیٹیاں اور تین بیٹے تھے۔ سب سے بڑی گل مینا تھی۔ پشمینہ اور وہ بہت جلد ایک دوسرے سے گھل مل گئی تھیں۔ ان کی دوستی میں زیادہ ہاتھ گل مینا کا تھا۔ پشمینہ مزاجاً کم گو تھی جبکہ گل مینا اس کے برعکس انتہائی شوخ اور چنچل مزاج کی لڑکی تھی۔
جب بابا نے اس کا شہر کے سب سے بہترین کالج میں ایڈمیشن کروایا تو پشمینہ کو ایجوکیشن کا سنتے ہی گھبرا اٹھی۔
”گل! میں اکیلے کیسے کالج جاؤں گی۔“
”کیا مطلب پورے شہر کو ساتھ لے کر جانا ہے تمہیں۔“ گل مینا مسکراتے ہوئے بولی تھی۔ وہ جھنجلا اٹھی۔
”میرا مطلب ہے کہ میرا تو وہاں نہ کوئی جاننے والا ہوگا اور نہ ہی کوئی دوست۔“ اس نے اپنی پریشانی کی اصل وجہ بتائی۔
”دوست بناؤ گی تو بنیں گے۔ جاتے ہی ڈیڑھ انچ کی علیحدہ سے مسجد بنا کر نہ بیٹھنا۔
“ گل مینا نے اسے سمجھایا۔
”کیا ایسا نہیں ہو سکتا گل کہ تم بھی میرے والے کالج میں ایڈمیشن لے لو۔“ گل مینا نے کچھ حیرانی سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔ پھر قدرے تلخی سے بولی۔
”میرے باپ کے پاس نہ اتنا پیسہ ہے اور نہ ہی وسائل ہیں کہ مجھے اتنی مہنگی تعلیم دلوا سکے۔“
”یہ تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے میں بابا سے کہتی ہوں وہ تمہارا بھی اسی کالج میں داخلہ کروا دیں۔
“ پشمینہ نے چٹکی بجاتے ہوئے حل پیش کیا تھا گل مینا نے اسے روکنے کی سرسری سی کوشش کی تھی۔ پشمینہ نے اپنے بابا سے ذکر کیا تو انہوں نے بغیر برا منائے گل مینا کے ایڈمیشن کی بھی کوششیں شروع کر دیں۔ نواز چچا کے منع کرنے اور ناراضی کے باوجود پہلے دن جب وہ دونوں کالج گئیں تو وہ دونوں کی ہی کیفیات مختلف تھیں۔ پشمینہ اگرچہ بہت با اعتماد لڑکی تھی مگر اک مختلف ماحول کو دیکھ کر کچھ گھبرا سی گئی تھی جبکہ گل مینا بہت خوش نظر آ رہی تھی۔
اس کا برسوں کا خواب پورا ہو رہا تھا۔ میٹرک میں پورے اسکول میں ٹاپ کرنے کے باوجود وہ اپنے من پسند تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں لے سکتی تھی وجہ وہی غربت تھی جو اسے ہر چیز سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی تھی۔ اب پشمینہ کے توسط سے اس کی دلی خواہش پوری ہو گئی تھی۔ پہلی کلاس تعارفی تھی اگلے دو دن بعد باقاعدہ پڑھائی شروع ہو گئی۔
چوتھے دن وہ سر عارف کا لیکچر بہت غور سن رہی تھی جب ان کی کلاس میں ایک اور اسٹوڈنٹ کا اضافہ ہوا۔
جب وہ کلاس روم میں داخل ہوا تو سب سے پہلے گل مینا ہی نے اس کی طرف دیکھا تھا جبکہ پشمینہ نوٹ بک پر جھکی کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔اس کے کلاس روم میں داخل ہونے کے بعد پوری کلاس میں کھلبلی سی مچ گئی تھی۔ وہ اتنا خوبصورت تھا کہ گل مینا سمیت کئی لڑکیاں ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے گئیں۔
”اپنا سویٹ نیم تو بتاؤ“سر کے باہر نکلتے ہی پیچھے سے آواز آنا شروع ہو گئی تھی۔
وہ مسکراتے ہوئے اٹھا اور سامنے جاکر کھڑا ہو گیا۔
”ایک دفعہ پھر پوری کلاس باجماعت کہے۔“ وہ پوری کلاس کو نگاہوں میں مقید کئے بولا پوری کلاس نے اپنا سوال پھر سے دہرایا تھا۔ پشمینہ نے نوٹ بک بند کرکے بے حد حیرانی سے کلاس میں گونجتے شور اور سامنے کھڑے لڑکے کو کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے مسکراتے دیکھا۔
”پلیز۔ پلیز“ اس نے ہاتھ اٹھا کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
پوری کلاس نے فوراً ہی اس کے حکم کی تعمیل کی تھی۔ پشمینہ نے گل کو ٹہوکا دے کر پوچھا کہ بات کیا ہے۔ گل مینا نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
”مجھے فراز سکندر کہتے ہیں“ اس نے سر کو تھوڑا سا جھکا کر کہا۔
”کون سکندر؟“ چلبلی سی ثانیہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”وہ ہی جس نے دنیا فتح کی تھی۔“ آخری رو میں بیٹھے ناصر نے بلند آواز میں کہا تھا۔
پوری کلاس میں قہقہوں کا طوفان ابل پڑا۔
”آپ یونان سے تو نہیں آئے ہیں۔“ ثانیہ نے آنکھیں پٹپٹا کر معصومیت سے دریافت کیا۔
”نہیں جی میں اسلام آباد سے آیا ہوں۔“ فراز نے لب و لہجے میں انکساری بھر کر کہا تھا۔ پوری کلاس نے فرداً فرداً اس سے تعارف حاصل کیا تھا۔ فراز ان سب کے سوالوں کے برجستہ جواب دیتا رہا۔ اس کی نظریں کونے میں بیٹھی خاموش خاموش سی پشمینہ پر تھیں۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi