Episode 3 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 3 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

”لکی! ایک بیڈ نیوز سنو۔“ وہ پھولی سانسوں سمیت تقریباً بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے آئی تھی۔ لکی جو کہ اپنے ہی دھیان میں مگن سیٹی پر کوئی دھن گنگناتے ہوئے موسم انجوائے کر رہا تھا ایک دم ہی ٹھٹک کر رکا۔
”بیڈ نیوز…“ لکی نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھتے ہوئے ہونٹ سکیڑے اور پھر بولا۔
”بیڈ نیوز نہیں ، گڈ نیوز بولو۔ آنٹی ڈیزی کی ڈیتھ میرے لئے ایک اچھی خبر ہے جسے میں بار بار سننا چاہوں گا۔
“ لکی نے لاپرواہی سے اپنی اکلوتی خالہ کے متعلق کمنٹس پاس کئے ، جنہیں مرے ہوئے ابھی آٹھ گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے۔
”بہت کمینے ہو تم لکی۔“ اشفا نے دانت پیسے۔
”وہ تومیں ہوں ہی ، تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے اپنی خوبیوں کے بارے میں پتا ہے۔“ وہ ہنوز لاپرواہی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا تو اشفا جھنجھلا سی گئی۔

(جاری ہے)

”میں تمہیں کچھ اور بتانا چاہتی ہوں۔
”یہی ناکہ آنٹی ڈیزی کی تمام پراپرٹی اب میری ہے۔ وہ مرنے سے پہلے تمام جائیداد میرے نام کر گئی ہیں۔“
”نہیں… آنٹی نے پراپرٹی تمہارے حوالے کر دی ، امپاسبل۔“ اشفا کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ آنٹی اپنے اس بھانجے سے کتنی نفرت کرتی ہیں۔
”ہاں ، بس آنٹی نے جاتے جاتے مجھے بھی حیران کر دیا ہے۔“ لکی مسکرایا اور پھر مزید بولا۔
”کون سی بیڈ نیوز بتانا چاہ رہی ہو۔“
”او… ہاں دراصل پاپا اور ماما پاکستان جا رہے ہیں۔“ 
“یہ تو اچھی بات ہے۔“
”کیا اچھی بات ہے ،ماما مجھے بھی اپنے ساتھ گھسیٹ رہی ہیں۔“اشفا کو اب اس کے انداز پر غصہ آنے لگا تھا۔
”تم بھی چلی جاؤ ان کے ساتھ پاکستان ، گھوم پھر آؤ۔ میں بھی کچھ عرصے تک ورلڈ ٹور پر نکل جاؤں گا۔
آخر نیا نیا امیر ہوا ہوں ، سیر و تفریح میرا حق ہے۔“ اشفا نے اب کچھ حیرانی سے لکی کی طرف دیکھا تھا ، جس کے تیور واقعی بدلے بدلے سے لگ رہے تھے۔ نئی نئی دولت کا خمار تھا۔
”میری خواہش تو تھی کہ تم بھی میرے ساتھ جاتیں مگر خیر ، میں تمہارا پروگرام کیوں خراب کروں۔ تمہاری ماما تو ویسے بھی مجھے پسند نہیں کرتیں۔“ اشفا جان گئی تھی کہ اب وہ صرف دامن بچانے کیلئے بہانے کر رہا ہے۔
جب اسے جاب کی ضرورت تھی تب وہ پاپا کے ہوٹل میں ڈش واشنگ کیلئے بھی تیار تھا اور یہ اشفا ہی تھی جس نے پاپا کو بمشکل منا کر اسے قدرے بہتر جاب دلائی۔ اشفا کو ایک دم ہی اس سے گھن محسوس ہوئی تھی۔
”تھرڈ کلاس پاکستانی۔“ اشفا نے زیر لب بڑبڑا کر کہا۔ آنٹی ڈیزی کی مہربانی سے لکی کو گرین کارڈ تو مل ہی چکا تھا۔ اب وہ کسی نیشنلٹی ہولڈر… لڑکی کی تلاش میں تھا تاکہ تمام پیپرز کلیئر کروا سکے۔
اشفا اس لحاظ سے اسے کافی پسند آئی تھی کیونکہ ناصرف وہ بے حد حسین تھی بلکہ بہت دولت مند بھی تھی مگر مسئلہ اس کے ماں باپ کا تھا جو کہ اس پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔
”بائے اشفا ، مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے۔ پھر ملیں گے۔“ سامنے سے آتی ٹیکسی کو روک کر وہ جھپاک سے اس میں بیٹھا اور یہ جا وہ جا۔
”اب ہم کبھی نہیں ملیں گے۔“اشفا نے تنفر سے کہا اور سر جھٹکتی اپنے گھر کی طرف آ گئی۔
داخلی دروازے پر ماماکوڑے کی باسکٹ لئے کھڑی تھیں۔ اسے آتا دیکھ کر لجاجت سے بولیں۔
”ٹینا آج آئی نہیں اور میں سیڑھیاں اتر نہیں سکتی۔ یہ باسکٹ کا کوڑا ڈرم میں الٹ آؤ۔“ اشفا نے بغیر بحث کئے باسکٹ پکڑ لی۔ ڈرم کے قریب آکر اس نے ڈھکن اٹھایا اور گویا لکی کی نام نہاد دوستی کو بھی اسی ڈرم میں دفنا کر چلی آئی۔
اس نے لکی پر بہت احسانات کئے تھے۔
جب اس کی آنٹی نے لکی کو گھر سے نکال دیا تب وہ اس مجبور بے کس پاکستانی کو گھر لے آئی۔ پاپا کی منت سماجت کرکے جاب دلوائی۔ تین چار ماہ تک اس کے تمام اخراجات اس نے اپنے ذمے لے لئے۔ اسے لکی پر ترس آ گیا تھا۔ جب وہ اسی کوڑے کے ڈرم کے پاس رکھے سرخ بینچ پر لیٹا با آواز بلند اپنی قسمت کو روتے ہوئے کوس رہا تھا۔
لکی نے اپنی مجبوریوں کی ایسی داستان سنائی کہ اشفا کا دل پسیج گیا۔
وہ لکی میں انٹرسٹڈ نہیں تھی۔ وہ تو صرف اس سے ہمدردی کر رہی تھی مگر ماما نہ جانے کیا سمجھیں۔ انہوں نے لکی کو گھر سے نکال دیا تھا۔ انہیں یہ خوف تھا کہ ان کی سر پھری بیٹی کہیں اس نکمے لڑکے سے شادی کرنے کا فیصلہ نہ کرے۔ مگر جب اشفا کو ماما کے اس فعل کے متعلق پتا چلا تو محض ماما کی ضد میں اس نے لکی کے ساتھ رابطہ ختم نہیں کیا تھا۔ نہ جانے کیوں اسے ماما کی روک ٹوک سے الجھن ہوتی تھی۔
وہ جس کام سے اسے منع کرتیں ، دانستہ یا نادانستہ اشفا سے وہ ہ غلطی سے سر زد ہو جاتی تھی۔
اس کی ماما بے حد بھولی بھالی سیدھی سی گھریلو خاتون تھیں مگر تھیں تو اس کی ماں۔ ہر وقت اس پر نظر ہوتی تھی ان کی ، اشفا کہاں جا رہی ہے۔ کہاں سے آ رہی ہے۔ یونیورسٹی میں کون کون سے فرینڈ ہیں۔ انہیں مکمل خبر ہوتی۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi