Episode 44 - Mein Hari Piya By NayaB JilaNi

قسط نمبر 44 - میں ہاری پیا - نایاب جیلانی

سر نبیل کا پریڈ اٹینڈ کرنے کے بعد وہ اور گل مینا کینٹین کی طرف جا رہی تھیں۔ جب فراز نے ان کے قریب سے گزرتے ہوئے بے حد دھیمے لہجے میں کہا تھا۔
”آپ کی بے نیازی بہت پسند آئی ہے۔“ پشمینہ نے ٹھٹک کر اس کی پشت کو دیکھا تھا۔ گل کے قدموں کو بھی بریک لگ گئے تھے جبکہ پشمینہ گل کی طرف دیکھ کر خفت زدہ ہو گئی۔
فراز نے پہلی مرتبہ پشمینہ کو براہ راست مخاطب کیا تھا اور پھر کالج کے چار سالوں میں بھولے سے بھی پشمینہ اور فراز کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی جبکہ گل مینا کی اس کے ساتھ بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی۔
وہ آپس میں باتیں کرتے کرتے جھگڑتے بھی تھے مگر فراز نے کبھی بھی پشمینہ کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان دونوں کے درمیان گویا خاموش معاہدہ طے پایا تھا کہ گل مینا جیسی تیز طرار لڑکی بھی محسوس نہیں کر پائی تھی۔

(جاری ہے)

فائنل ایگزامز ہونے سے پہلے فراز چند دن کالج نہ آیا تو گل مینا کافی متفکر ہو گئی تھی اس کا ارادہ تھا کہ فراز کی خالہ کے گھر جا کر معلوم کیا جائے کہ وہ غائب کہاں ہے۔
مگر پشمینہ نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ گل مینا بہت سے دن صرف اور صرف اسی بات پر اس سے خفا خفا سی رہی تھی پھر جس دن فراز کالج آیا تو گل مینا فوراً ہی اس سے ملنے پہنچ گئی تھی۔
ساتھ پشمینہ کو بھی اس نے گھسیٹ لیا۔
”کہاں تھے تم اتنے دنوں سے؟“
”میں اسلام آباد گیا ہوا تھا۔“ اس کی نگاہیں پشمینہ کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔
”کیوں؟“ گل مینا نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔
”اپنی امی جان کو منانے۔“
”کیا مطلب۔“ گل مینا الجھی۔
”اصل میں میرا یہاں رہنا انہیں پسند نہیں ہے۔ بہت مشکل سے میں نے امی جان کو مناکر یہاں ایڈمیشن لیا تھا۔ اب ان کا اصرار ہے کہ میں واپس آ جاؤں اور یونیورسٹی لیول کی تعلیم اپنے شہر ان کے پاس رہ کر حاصل کروں جبکہ میرا دل یہیں کہیں الجھ کر رہ گیا ہے۔
کمبخت مانتا ہی نہیں  تم ہی بتاؤ کیا کروں میں۔“ وہ بات گل مینا کے ساتھ کر رہا تھا اور دیکھ پشمینہ کی طرف رہا تھا۔ گل مینا نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔
”تم اپنے دل کی مان لو۔“
دل اور دماغ کی جنگ میں دل جیت گیا تھا۔ ان تینوں نے اسی کالج سے ایم اے کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس کی امی نے سنا تو پہلی فرصت میں ایبٹ آباد چلی آئیں۔ دونوں ماں بیٹے کے درمیان خوب تکرار ہوئی۔
دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ضد پر اڑے رہے آخر امی جان نے ہار تسلیم کرکے دو سال مزید دوری برداشت کرنے کیلئے خود کو تیار کر لیا۔ انہیں فراز اپنے تینوں بیٹوں میں سب سے زیادہ پیارا تھا۔ انہوں نے اس کی ہر جائز ناجائز بات مانی تھی اب بھی اس کی شدید خواہش کا احترام کرکے انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔
اسے پشمینہ سے محبت ہو گئی تھی اور پشمینہ کو اس سے۔
فراز نے سب سے پہلے خالہ کو ہی پشمینہ کے متعلق بتایا تھا۔
ابھی وہ لوگ فرسٹ سمسٹر کے ایگزامز دے کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ پشمینہ کے بابا کو ہارٹ اٹیک ہو گیا۔
جب وہ ان کی عیادت کیلئے ہسپتال گیا تو وہ اپنے دوست رب نواز کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔
”میرے بعد میری بچی کا کیا ہوگا نواز  اس دنیا میں اس کا اپنا کوئی نہیں سوائے میرے  اگر میں نہ رہا تو میری پشمینہ کہاں جائے گی۔
“ رب نواز انہیں تسلیاں دلاسے دے رہے تھے۔ فراز نے سلام کیا اور رب نواز نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔
”تم اپنے بیٹے کاشف سے پشمینہ کا نکاح کر دو۔ میں اس کا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتا ہوں۔ کیا  کیا خواب دیکھے تھے اپنی اکلوتی بیٹی کے متعلق سب ٹوٹ گئے۔ پتا نہیں میں زیادہ دیر تک جی پاؤں گا یا نہیں۔ یہ کہاں جائے گی۔رب نواز تم سن رہے ہو نا۔
“ انہوں نے بھرائی آواز میں کہتے ہوئے رب نواز کے ہاتھ تھام لئے۔ رب نواز نے اک نظر فراز پر ڈالی اور پھر دبی آواز میں بولے۔
”پر کاشف تو پشمینہ سے کافی چھوٹا ہے۔“
”چار پانچ سال کی چھوٹائی بڑائی کوئی معنی نہیں رکھتی  تم بتاؤ کیا کہتے ہو۔“
”اچھا تم ٹھیک ہو جاؤ پھر دیکھتے ہیں۔“رب نواز نے انہیں ٹالنے کی کوشش کی۔ فراز سے ان کے چہرے پر پھیلی مایوسی دیکھی نہیں گئی تھی۔
وہ ایک دم ہی بول پڑا تھا۔ یہ خواہش تو اس کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اور دلی خوشی تھی۔ دل شیر خان نے حیرانی سے اس خوبصورت نوجوان کی طرف دیکھا۔ وہ اس کی موجودگی سے ابھی تک بے خبر تھا۔
”میں اور پشمینہ ایک دوسرے پسند کرتے ہیں۔“ رب نواز کے جانے کے بعد وہ دھیمے مگر پراعتماد لہجے میں بولا تھا۔ اسی ہسپتال کے چھوٹے سے کمرے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ان دونوں کا بے حد سادگی سے نکاح ہو گیا تھا۔
رب نواز نے گھر آکر ساری کارروائی کی خبر بیوی کو دی تھی۔ گل مینا نے سنا تو ششدر رہ گئی۔ اس کے خواب کانچ کے ٹکڑوں کی طرح بکھر گئے تھے۔ وہ ساری رات اس نے رونے تڑتے گزار دی۔
اس نے جسے چاہا  پوجا وہ کسی اور کا ہو گیا تھا اس کڑوی حقیقت کو اس نے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا تھا  وہ اب بھی فراز پر اپنا حق سمجھتی تھی۔
”تم میرے نہیں ہو سکے تو پشمینہ کے بھی نہیں رہو گے۔
“رات کے چار بجے ٹھنڈے پانی کے چھپاکے منہ پر مارتے ہوئے اس نے نفرت سے سوچا۔
تیسرے دن وہ خوب تیار ہو کر صبح صبح پشمینہ کی طرف آ گئی تھی۔ فراز ناشتہ کر رہا تھا اسے دیکھ کر چونک اٹھا۔
”کالج نہیں جاؤں گی۔“
”نہیں  آج کا دن پشمینہ کے ساتھ گزاروں گی اور خالہ امی کی کمپنی انجوائے کروں گی۔“ اس نے مصنوعی بشاشت سے کہا۔
”اچھا تم ناشتہ کرو میں پشمینہ کو جگاتا ہوں۔
“ فراز کرسی گھسیٹ کر اٹھ گیا اور وہ بے قراری کے عالم میں اس کی پشت کو دیکھتی رہ گئی۔ کچھ پل بعد پشمینہ چلی آئی تھی۔ وہ ایک ٹک اس کے حسین مکھڑے اور نیلی آنکھوں میں تیرتے گلابی ڈوروں کو دیکھتی رہی۔ کچی نیند کا خمار ہیروں کی طرح دمکتی آنکھوں سے چھلک رہا تھا۔ وہ بڑی چاہت سے گل مینا سے ملی تھی۔
”شکر ہے کہ اتنے دن بعد تمہیں میرا خیال تو آیا ہے۔“ اس نے مصنوعی خفگی سے شکوہ کیا۔
”اتنے دن کہاں صرف تین دن ہی تو گزرے ہیں۔“ میرا شہر دل اجڑا ہے۔ تین دن کا سوگ تو بہت تھوڑا ہے۔ یہ درد بھلانے میں تو زمانے گزر جائیں گے۔ میں کیسے تمہیں ہنستا بستا دیکھ پا رہی ہوں  اگر تم میرے دل میں جھانک لو تو ساکت رہ جاؤ۔ ابھی تلک صف ماتم بچھی ہے۔

Chapters / Baab of Mein Hari Piya By NayaB JilaNi